عصر حاضر کے والدین کاروباری اور خاندانی امور میں اس حد تک اُلجھ چکے ہیں کہ اولاد کے حوالے سے ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ‘وہ ان پر کما حقہ توجہ دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی وہ توقعات اور خواہشات جو اولاد سے وابستہ ہوتی ہیں‘ تشنہ رہ جاتی ہیں‘ اگر والدین صحیح طور پر اولاد کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں تو جہاں پر والدین کی توقعات اور خواہشات پوری ہو سکتی ہیں‘ وہیں پر وہ معاشرے کے لیے بھی مفید کارکن ثابت ہو سکتے ہیں۔ نوجوان ہمارا مستقبل ہیں اور ان کی کامیابی اور ترقی ہمارے بہتر مستقبل کے لیے انتہائی ضرور ی ہے‘ اگر ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی کہ ہماری اولادوں کے ہمارے اوپر بہت سے حقوق ہیں ‘جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں: ۔
1۔ اولاد کا اچھا نام رکھنا: اولاد کا اچھا نام رکھنا ‘والدین کی ذمہ داری ہے ۔کتب احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن بہترین نام ہیں‘ اسی طرح جب ہم تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ ہمیں انبیاء علیہم السلام ‘ صحابہ کرام اور ائمہ دین کے کارہائے نمایاں سے بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اپنی اولادوں کے نام عظیم ہستیوں کے نام پر رکھنا ایک اچھا عمل ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی اپنے فرزند کا نام حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر ابراہیم رکھا تھا‘ اسی طرح آپ ﷺنے اپنے نواسوں کے نام حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر رکھے تھے۔
2 ۔ عقیقہ کرنا: والدین کو اپنے بچوں کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہیے۔ اس عمل کی وجہ سے ان سے تکالیف اوربلائیں دُور ہوتی ہیں۔
3۔مناسب تعلیم کا اہتمام کرنا: اپنی اولادں کے لیے ایسی تعلیم کا انتظام کرنا ‘جو اُن کی دنیا اور آخرت کے لیے مفید ہو‘ انتہائی ضروری ہے۔ بہت سے والدین اپنی اولادوں کی تعلیم سے غافل رہتے ہی۔ نتیجتاً اولاد تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتی ہے یا تعلیم سے محروم ہو جاتی ہے یا بصورت ِدیگر پختگی کے ساتھ علم حاصل نہیں کر پاتی۔ تعلیم کے میدان میں محنت کرنے کے نتیجے میں اولاد کے لیے اچھے روزگار کے مواقع بھی پید ا ہوتے ہیں اور ان کو اچھے طریقے سے زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی حاصل ہوتا ہے۔
4۔مناسب تربیت کا اہتمام: جہاں پر والدین کے لیے اولاد کی تعلیم کا بندوبست کرنا انتہائی ضروری ہے‘ وہیں پر ان کی مناسب تربیت کا اہتمام کرنا بھی وقت کا اہم تقاضا ہے۔ آج کل کے بچوں اور نوجوانوں میں خود سری‘ ضد اور جذباتیت بکثرت دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ غلط اوصاف جہاں پر خود اولاد کے لیے خطرناک ہیں ‘وہیں پر سماج کے لیے بھی انتہائی مہلک ہیں۔ اولادوں کو تحمل‘ صبر ‘ بردباری اور قناعت کا درس دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔ والدین کوچاہیے اپنی اولادوں میں ٹھہراؤ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ٹھہری ہوئی طبیعت کے نوجوان معاشرے کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوتے ہیں اور اپنے ذاتی امور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنے گھریلو امور کی انجام دہی اور بزرگوں کا ہاتھ بٹانے کے بھی قابل ہو جاتے ہیں۔
5۔بے راہ روی سے بچاؤ:اولاد کو بے راہ روی سے بچنے کی تلقین کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اولاد کو حیا کا درس دینا اور برے کاموں سے بچنے کی تلقین کرنا ان کی زندگیوں کے ساتھ معاشرے کی صلاح کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے۔ جو اولادیں بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں ‘وہ جہاں پر اپنی صلاحیتیوں اور توانائیوں کو ضائع کر بیٹھتی ہیں‘ وہیں پر وہ معاشرے میں اخلاقی جرائم کی نشرواشاعت اور معاشرے کو پستی کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔
6۔مادہ پرستی سے بچنے کی تلقین: والدین کو اپنی اولادوں کی جہاں پر اچھی معاشی سرگرمیوں کی طرف رہنمائی کرنی چاہیے‘ وہیں پر ان کومادہ پرستی سے بچنے کی تلقین بھی کرنی چاہیے۔ معاشی استحکام اچھی زندگی گزارنے کے لیے انتہائی ضروری ہے‘ لیکن معیشت میں ترقی کی خواہش اس حد تک نہیں بڑھ جانی چاہیے کہ انسان حلال اور حرام کی تمیز سے ہی بے نیاز ہو جائے اور ہمہ وقت فقط پیسہ کمانا اور اس کو جمع کرنا ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ تکاثر میں کثرت کی ہوس کی بڑے زبردست انداز میں مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ''غافل کر دیا تمہیں باہمی کثرت کی خواہش نے۔ یہاں تک کہ تم نے جا دیکھیں قبریں۔ ہرگز نہیں عنقریب تم جان لو گے۔ پھر ہرگز نہیں عنقریب تم جان لو گے۔ ہر گز نہیں کاش تم جان لیتے یقین کا جاننا۔ یقینا ضرور تم دیکھ لو گے جہنم کو‘ پھر یقینا ضرور تم دیکھ لو گے‘ اسے یقین کی آنکھ سے‘ پھر ضرور بالضرور تم پوچھے جاؤ گے‘ اس دن نعمتوں کے بارے میں۔‘‘
7۔دین سے وابستگی کی تلقین : عصر حاضر میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ والدین اپنی اولادوں کی دنیاوی تربیت کا اہتمام تو کرتے ہیں ‘لیکن ان کی دینی معاملات میں رہنمائی نہیں کرتے۔ اولاد کی دینی امور میں رہنمائی کرنا ‘ان میں اللہ کی خشیت کا احساس پیدا کرنا ‘ان کو ارکان اسلام کی بجا آوری کی تلقین کرنا اور یوم حسا ب کی جواب دہی کے احساس سے بہرہ ور کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
8۔اولاد میں تفریق نہ کرنا: والدین پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولادوں کے درمیان تفریق نہ کریں۔ نہ تو اپنی اولاد میں عمر اور چاہت کے لحاظ سے فرق کرنا چاہیے اور نہ ہی صنف کے لحاظ سے۔ اگر اولاد کو تحفہ دیا جائے تو باقی بچوں کوبھی تحفہ دینا چاہیے اور اس مسئلے میں کسی ایک کو نواز کر باقیوں کی حق تلفی نہیں کرنی چاہیے۔
9۔مناسب رشتوں کا اہتمام:اولاد کے درست اور مناسب رشتوں کا اہتمام کرنا والدین کی ذمہ داری ہے اور اس سلسلے میں دین اور اخلاق کو ترجیح دینی چاہیے ۔دین اور اخلاق کی بنیاد پر کیا جانے والا رشتہ ہمیشہ پائیدار ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اولاد ایک خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل ہوتی ہے۔
10۔بچوں کو اچھی باتوں کی تلقین اور بری باتوں سے روکنا: قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان کا ذکر کیا‘ جنہوں نے اپنے بیٹے کوبہت سے اچھے امور کی نصیحت کی‘ جن میں اللہ تعالیٰ کی بندگی‘والدین کی خدمت‘ امر بالمعروف نہی عن المنکر‘ صبر کی تلقین ‘ چال میں میانہ روی کو اختیار کرنا اور آواز کو پست رکھنا شامل تھا۔ ہمارے والدین کو بھی اولادوں کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہنا چاہیے ۔
11۔اولاد کے لیے دعا گو رہنا: والدین کو اپنی اولادوں کو ہمہ وقت اپنی دعاؤں میں یاد کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی اولاد کے لیے کی جانیوالی دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔ والد کی دعا اپنی اولاد کے حق میں مستجاب ہوتی ہے؛ چنانچہ ہمیں اپنی اولادوں کو اپنی دعاؤں میں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔
12۔اوالاد کو اچھے کاموں میں شریک کرنا: بہت سے والدین خود تو اچھے کاموں میں مصروف رہتے ہیں ‘لیکن اپنی اولادوں کو ان کاموں میں شریک نہیں کرتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب کعبہ کے تعمیر کی تو اس دوران حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی اپنے کام میں شریک کر لیا ۔ جب والدین اپنی اولادوں کو اچھے کاموں میں شریک کرتے ہیں تو ان میں اچھے کاموں کی رغبت پیدا ہوتی ہے اور خیر کے کام نئی نسلوں تک منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں۔
13۔اولاد کے لیے اچھا نمونہ بننا: والدین کو اپنی اولادوں کے لیے اچھا نمونہ بننا چاہیے اور لفظی تلقین کے ساتھ ساتھ اپنے کردار سے بھی ان کے لیے ایک بہتر نمونہ قائم کرنا چاہیے۔والد کو اچھے مشاغل میں مصروف دیکھ کر اولاد میں بھی اچھی زندگی گزارنے کی تمنا اور رغبت پیدا ہوتی ہے۔
14۔اولاد کو اچھے کاموں کی وصیت: بیماری یا بڑھاپے کے دوران اولاد کو اچھے کاموں کی وصیت بھی کرتے رہنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اس بات کی وصیت کی تھی کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں اور آپ کو موت اس حالت میں آئے کہ آپ مسلمان ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی اولادوں کو دنیا اور آخرت میں کامیاب فرمائے ۔(آمین )