میں 12تاریخ کی رات کو سرگودھا میں ہونے والے جلسے کے لیے سفر کر رہا تھا ۔ ابھی وسط میں پہنچا تھا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے دفتر راوی روڈ اور مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور کے ناظم حافظ بابر فاروق رحیمی کی کال موصول ہوئی بابر فاروق رحیمی نے مجھے بتلایا کہ کل سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور کے سیکرٹری عبدالعزیز عبداللہ عمار دفتر راوی روڈ تشریف لا رہے ہیں اور ان کی آمد کے موقع پر بعض دوستوں کو جمع کیا گیا ہے‘ تاکہ معزز مہمان سے ملاقات ہو سکے اور ان سے بات چیت کرنے کا موقع میسر آ سکے۔ اس سے قبل بھی جب کبھی سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے اہم مہمان پاکستان تشریف لاتے ہیں ‘تو جہاں پر وہ اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں‘ وہیں پر مختلف مذہبی جماعتوں کے قائدین سے بھی ملاقاتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور بہت سی دینی جماعتوں کے مرکزی دفاتر کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے سبب سعودی عرب کے پاکستان کے ساتھ جہاں پر سماجی رابطوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہیں پر ایک دوسرے کے افکار اور نظریات کو سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے۔
13 اکتوبر کو ظہر کی نماز کے بعد میں راوی روڈ دفتر پہنچا تو مہمان خانے میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ناظم اعلیٰ سابق وفاقی وزیر سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ‘ قاری صہیب احمدمیر محمدی‘ برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر‘ مولانا عبدالرشید حجازی‘ حافظ محمد علی یزدانی اور دیگر احباب موجود تھے۔ تمام دوست احباب نے ڈاکٹر عبدالعزیزعبداللہ عمار کو اس موقع پر بڑے پرتپاک انداز میں خوش آمدید کہا۔جواباً ڈاکٹر عبدالعزیز عمار نے بھی متبسم چہرے کے ساتھ شرکائے مجلس کے استقبال کا جواب دیا۔ انہوں نے اس موقع پر جہاں پر پاک سعودی تعلقات کے حوالے سے بڑے گرمجوش جذبات کا اظہار کیا وہیں پر انہوں نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے اس موقع پر والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات اور خوشگوار یادوں کو بھی بیان کیا۔ انہوں نے یہ بات بتلائی کہ جب وہ جنوری 1986ء میں پاکستان آئے تو انہوں نے والد گرامی سے ملاقات کی تھی اور ان کے ساتھ ملاقات کی بہت سی خوشگوار یادیں ابھی تک ان کے دل ودماغ میں بسی ہوئی تھیں۔ میری ڈاکٹر عبدالعزیزعبداللہ عمار سے ایک عرصہ قبل بھی منصورہ کے ایک پروگرام میں ملاقات ہو چکی تھی۔ اس پروگرام کے میزبان جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد مرحوم تھے۔ مرحوم قاضی حسین احمد بہت ملنسار اور خوش طبع انسان تھے۔ دینی تحریکوں کے قائدین ان کی فعالیت کی وجہ سے ان کا خصوصی احترام کیا کرتے تھے اور وہ دینی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ بہت محبت والا رویہ اپنایا کرتے تھے۔ قاضی صاحب مجھ سے بھی خصوصی شفقت والا برتاؤ کیا کرتے تھے اور بہت سی اہم تقریبات میں جہاں بزرگ عمائدین اور قائدین کو شرکت کی دعوت دیا کرتے تھے‘ وہیں پر مجھے بھی ان تقریبات میں یاد رکھا کرتے تھے۔ قاضی صاحب نے ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ عمار کی آمد کے موقع پر ایک پروقار ظہرانے کا ہتمام کیا تھا‘ جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ عمار کے ساتھ ہونے والی ملاقات نے جہاں پر والد گرامی کی یادوں کو تازہ کر دیا‘ وہیں پر قاضی حسین احمد مرحوم سے وابستہ بہت سی یادیں بھی دما غ کی سکرین پر چلنا شروع ہو گئیں۔
قاضی حسین احمد مرحوم کی دل آویز شخصیت ‘دینی جماعتوں کے اتحاد کے لیے ان کے دل میں پایا جانیوالے درد‘دینی تحریکوںکے سیاسی عروج کی تمنا اور ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگیوں کے خاتمے کے لیے ان کی طرف سے کی جانے والی کاوشیں میرے ذہن میں آنا شروع ہو گئیں۔ ان یادوں کے ساتھ میرے دل میں دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کے خیالات بھی آنا شروع ہو گئے۔ مجھے احسا س ہوا کہ کتنی ہی عظیم شخصیات ہمیں داغ مفارقت دے کر اس عارضی دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں اور یقینا کچھ عرصے کے بعد ہمیں بھی دارِ فانی سے کوچ کرکے اپنے مالک ِ حقیقی سے ملاقات کرنا ہوگی۔ مقام تاسف ہے کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد یوم ِ حساب کی جوابدہی کے احساس سے غافل ہو کر اسی عارضی اور فانی دنیا کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہے۔ عظیم لوگوں کی اموات ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں جہاں پر اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تگ ودو کرنی چاہیے ‘وہیں پر اخروی نجات کے لیے بھی ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے۔
ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ عمار کے اس دورے کے موقع پر ان کے اعزاز میں ایک پرتکلف ضیافت کابھی اہتمام کیا گیا۔ پروقار ظہرانے کے بعد انہوں نے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام قائم کردہ نجی اسلامی ٹی وی کے دفاتر کا جائزہ بھی لیا اور وہاں پر موجود تحقیقی اور تکنیکی عملے کے ساتھ بھی گفتگو کی۔ سٹوڈیوز کے دورے کے دوران قاری صہیب احمد میر محمدی نے معزز مہمان سے عربی میں ایک دلچسپ اور معلوماتی انٹرویو بھی کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ عمار نے سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے اچھے جذبات اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ انہوں نے اس موقع پر عالم اسلام کو در پیش چیلنجز کے حوالے سے بھی بڑے ہی خوبصورت انداز میں گفتگو کی ۔ انہوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کی تحلیل اور اجتماعیت کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے عالمی سطح پر اسلام کے خلاف ہونے والے منفی پراپیگنڈے اور اسلام اور دہشت گردی کے مابین ربط کی بھر پور انداز میں تردید کی ۔ انہوں نے اس موقع پر اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ اسلام اعتدال کا دین اور مسلمان اُمت وسط ہیں ۔ انہوں نے اس حوالے سے کہا کہ یہ وسطیت اور اعتدال اسلام کا حسن ہیں ۔ انہوں نے کہا؛ بعض ناعاقبت اندیش عناصر اسلام کو دہشت گردی کا حامل ثابت کرنے کی مذموم کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی تحریر اور تقریر کے ذریعے بھر پور مذمت ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس حوالے دینی جماعتوں کے کردار کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ وسطیت اور اعتدال کے قیام کے لیے دینی جماعتیں جہاں اپنا کردار پہلے سے ادا کر رہی ہیں‘ وہاں پر انہیں اس کردار کو مزید موثر انداز میں انجام دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے پاکستان کی دینی جماعتوں کے کردار کی تحسین کی اور توقع ظاہر کی کہ وہ اپنے اس کردار کو مزید موثر بنانے کی کوشش کریں گی۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ پاکستان عالم اسلام میں خصوصی اہمیت کا حامل ملک ہے؛ چنانچہ جہاں پر اسلام اور امت مسلمہ کے حوالے سے حکومت پاکستان کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘ وہیں پر پاکستان کی دینی جماعتوں اور علماء کی آراء بھی بین الاقوامی اور امت مسلمہ کی سطح پر خصوصی اثرات کی حامل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالعزیز عبداللہ عمار کا انداز گفتگو رواں ‘ سلیس‘ سلجھا ہوا اور شگفتگی سے معمور تھا۔ وہ اپنی گفتگو کو جہاں بڑے مدلل انداز میں آگے بڑھاتے تھے‘ وہیں پر مسلسل ایک دھیمی مسکراہٹ کو اپنے لبوں پر سجھائے ہوئے تھے۔ ان کی شگفتہ اور دل آویز شخصیت سامعین کے اذہان و قلوب پر غیر معمولی اثرات کو مرتب کر رہی تھی اور سٹوڈیو میں موجود تمام لوگ ان کی دلکش شخصیت سے مسحور ہو چکے تھے۔
دفاتر کے معائنے کے بعد وہ امیر جمعیت کے کمرے تشریف لائے‘ جہاں پرمرکزی جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر حافظ عبدالکریم دیگر احباب کے ہمراہ ایک مرتبہ پھرمعزز مہمان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے اس موقع پر جمعیت کے ارکان کے ساتھ بڑے پر خلوص اور گرمجوش رویے کا مظاہرہ کیا اور اس ملاقات پر اطمینان اور مسرت کا اظہار کیا۔ اس انتظامی نشست میں معزز مہمان نے امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور ان کے ممکنہ حل پر بھرپور انداز میں روشنی ڈالی ۔ جمعیت کے ناظم اوردیگر ارکان نے معزز مہمان کی علمی ‘ سیاسی اور سماجی موضوعات پر ہونے والی گفتگو سے بھرپور استفادہ کیا۔ نماز عصر کے بعد معزز مہمان دفتر سے روانہ ہوئے تو تمام دوست احباب نے ان کو بڑی گرمجوشی سے الوداع کیا۔ جب وہ الوادع ہو رہے تھے‘ تو ان کی پر اثر اور پرجوش شخصیت کے اثرات ہر شریک مجلس کے دل پر موجود تھے۔ ان کا یہ دورہ جہاں پر پاکستان اور سعودیہ کے مضبوط تعلقات کو بڑھانے کا سبب تھا‘ وہیں سعودی اکابرین کی پاکستان کے ساتھ محبت اور الفت کا بھی آئینہ دار تھا۔ ان کے الوداع ہونے کے ساتھ یہ تقریب اپنے جلو میں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔