"AIZ" (space) message & send to 7575

تین بڑے فتنے

جامعہ اثریہ جہلم دینی اور عصری علوم کا ایک حسین امتزاج ہے۔ جامعہ اثریہ کی وسیع وعریض عمارت میں طلبہ کی تدریس ‘ اقامت اور ان کی جسمانی اور طبعی نشوونما سے متعلق تمام لوازمات کو با طریق ِ احسن پورا کیا گیا ہے۔ جامعہ کے اساتذہ عصری تقاضوں کو بخوبی سمجھنے والے ہیں۔ جامعہ میں حفظ قرآن کے ساتھ درس نظامی کی تدریس کا بھی بڑے بہترین انداز میں اہتمام کیا گیا ہے۔ بانی جامعہ حافظ عبدالغفور جہلمی مرحوم ایک بلند پایہ عالم دین اور منتظم تھے۔ ان کو دین کی تبلیغ اور تدریس کے ساتھ گہراشغف تھا۔ ان کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ان کے فرزندمولانا محمد مدنی مرحوم نے ان کے مشن کو اپنی بساط کے مطابق‘ احسن طریقے سے آگے بڑھایا۔ مولانا محمد مدنی بھی آج دنیا میں نہیں۔ ان کی نشست پر ان کے برادر اصغر حافظ عبدالحمید جہلمی رونق افروز ہیں۔ حافظ عبدالحمید اپنے والد گرامی اور برادراکبر کی روایات کے امین ہیں۔ جامعہ اثریہ میں 18 اکتوبر کو سالانہ تقریب تقسیم اسناد کے موقع پر ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے جید علمائے کرام کو شرکت کی دعوت دی گئی ‘جن میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رانا محمد شفیق خاں پسروری‘ مولانا ابو یحییٰ نور پوری‘ قاری محمد بنیامین عابد‘ حافظ حبیب الرحمن حبیب اور دیگر احباب شامل تھے۔ تقریبِ تقسیم اسناد میں حفظ قرآن مجید اور درس نظامی میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کے ساتھ ساتھ وہ طلباء بھی شامل تھے‘ جنہوں نے جامعہ کی سطح پر ہونے والے تقریری مقابلوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسناد حاصل کرنے کے دوران طلباء اور ان کے والدین کے چہرے خوشی اور مسرت کے ساتھ چمک رہے تھے۔ طلباء کو اسناد دینے کے لیے جن مہمانوں کو دعوت دی گئی‘ ان میں میں بھی شامل تھا۔ میں نے اسناد دیتے وقت طلباء کی خوشی کو اپنے دل میں اترتے ہوئے محسوس کیا اور میرا ذہن مجھے ماضی میں لے گیا اور مجھے بھی اپنے تعلیمی سفر کی یادیں آنا شروع ہو گئی۔ 
اسناد کی تقسیم سے قبل بھی مقررین مختلف موضوعات پر تقاریر کرتے رہے اور تقسیم اسناد کے بعد بھی رانا محمد شفیق خاں پسروری اور حافظ حبیب الرحمن حبیب نے بڑے عالمانہ انداز میں خطاب کیا۔ ان مقررین کے بعد مجھے خطاب کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر شرکاء مجلس کے سامنے عصر حاضر کے اہم فتنوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی۔ جامعہ کی وسیع جلسہ گاہ میں‘ میں نے جن نکات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کے خلاصے کو کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ میں قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں: 
عصر حاضر میںالحاد ‘جدیدت‘ انکار حدیث ‘ مادہ پرستی اور ختم نبوتﷺ کے حوالے سے مختلف طرح کے فتنے سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔ جن کا جواب دینے کے لیے ہمیں مدلل انداز میں پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام فتنوں میں سے ہماری نئی نسل خصوصیت کے ساتھ درج ذیل تین فتنوں کا نشانہ بن رہی ہے:
1۔ الحاد : الحادکے فتنے نے عصری معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں سے کئی ایک کائنات کی تخلیق پر غوروفکر کرنے کی بجائے کائنات کو کسی حادثے کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے نظام کائنات کو خودکار قرار دینے والی باتوں کو دیدہ ودانستہ یا غیر دانستگی میں قبول کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معمولی عمارت کو بھی بغیر کسی منظم منصوبے کے پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ کسی عمارت کی دیواروں ‘ چھتوں اور چھتوں پر لگی ہوئی لائٹوں اور پنکھوں کے بارے میں اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ سب کچھ ازخود ہو گیا ہے تو کوئی شخص بھی اس بات کو ماننے پر آمادہ وتیار نہیں ہو گا‘ لیکن نجانے لوگ بغیر ستونوں کے قائم آسمان کی چھت کے بارے میں یہ گمان کس طرح کرتے ہیں کہ ہر سو پھیلی ہوئی یہ چھت ازخود بن گئی ہے۔ اسی طرح آسمان کو روشن کرنے والے ستارے ‘کہ جن کو اندھیری راتوں میں خشکی اور تری میں سمت کے تعین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘ ان کو دیکھ کر بھی نجانے کس طرح لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا انکار کرتے ہیں۔ گو ایکسرے کی شعاع نظر نہیں آتی‘ مگر ایکسرے کے نتیجے کو ایکسرے کی فلم پر دیکھ کر اس کی حقیقت کو تسلیم کر لیا جاتا ہے ‘ لیکن کائنات کو بڑی وضاحت کے ساتھ دیکھنے کے باوجود بھی نجانے کیوں خالق کائنات کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی تخلیق میں عقل شعور رکھنے والے لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔ اگر وہ ان نشانیوں پر غور کریں تو ذات باری تعالیٰ کا یقین انسان کے دل میں سرائیت کرتا چلا جاتا ہے اور انسان اپنے خالق و مالک کی عظمت اور کبریائی کا معترف ہوتا چلا جاتا ہے۔
2۔ انکار حدیث: الحاد کے فتنے کے ساتھ ساتھ اس وقت انکار حدیث کا فتنہ بھی پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ بعض لوگ‘ جو دینی علم سے صحیح طور پر آگاہ نہیں ہیں‘ وہ گمان کرتے ہیں کہ شاید مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے تنہا قرآن ہی کافی ہے اور ان کو اس کی موجودگی میں ہدایت اور رہنمائی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم کی شکل میں ایک عظیم انقلابی کتاب کو نازل کیا وہیں پر پیغمبر زماں حضرت رسول اللہﷺ کی سیرت وکردار کو رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ بنا دیا۔ اب‘ اگر کوئی شخص قرآن مجید پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے پسندیدہ اور مطلوبہ طریقے کے مطابق عمل کرنا چاہتاہے تو اس کو لامحالہ نبی کریمﷺ کی سیرت اور سنت سے تمسک کو اختیار کرنا ہوگا۔ جو شخص سیرت النبیﷺ کو نظر انداز کرکے اپنے لیے کسی راستے کو متعین کرنا چاہتا ہے ‘وہ کبھی بھی راہ ہدایت کو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا؛ چنانچہ ارکان دین میں سے نماز جیسے اہم ترین رکن کی تفصیلات تو ایک طرف رہیں‘ نماز کی رکعتوں کے تعین کے لیے بھی ہمیں حدیث و سنت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح زکوٰۃ کے نصاب اور روزوں کو باطل اور فاسد کر دینے والے اُمور کو سمجھنے کے لیے بھی ہمیں حدیث کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ حج کے ایام کے تعین اور اس کے طریقۂ کار ‘ اسی طرح عمرے کی ادائیگی کے حوالے سے تفصیلات کو جاننے کے لیے بھی ہمیں نبی کریم ﷺ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم حدیث وسنت سے بے نیاز ہو کر دین پر عمل کرنا چاہیں تو سچی بات یہ ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کو بھی صحیح طریقے سے نہیں کر سکتے۔ انسان ولادت سے لے کر موت تک احکام دین کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے ارشادات اور رہنمائی کا محتاج ہے۔اہمیت حدیث کے حوالے سے ہمیں لوگوں کی فکر کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس بات کو سمجھنا اور سمجھانا چاہیے کہ دین پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہمیں کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ سنت نبوی شریف سے بھی تمسک کو اختیار کرنا ہو گا۔ 
3۔ حق کو پہچاننے میں مغالطہ: عصر حاضر کا تیسر ا بڑا فتنہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ بااثر اور صاحب سرمایہ لوگوں کو دیکھ کر ‘اسی طرح کسی وقت یا کسی مقام پرلوگوں کی بڑی تعداد یا ان کے اکٹھ کو دیکھ کر اس طرح کا تاثر لے لیتے ہیں کہ یہی لوگ درست راستے پرہیں؛ حالانکہ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فرعون‘ نمرود‘ قارون‘ ہامان‘ شداد اور ابو لہب جیسے بااثر لوگ حق سے کوسوں دور تھے۔ اس کے بالمقابل بہت سے صاحب حیثیت لوگوں کو اللہ نے نعمت ہدایت سے سرفرار بھی کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ بہت سے کمزور اور مفلوک الحال لوگ بھی نعمت ہدایت سے بہرہ ور ہوئے ؛ چنانچہ کسی کے اثرورسوخ یا اس کی سماجی ‘ سیاسی اور مادی حیثیت کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ کرنا کہ فلاں شخص یا اس کے ہمنوا سیدھے راستے پر ہیں بہت بڑی غلطی ہے۔ سیدھے راستے پر چلنے کے لیے ہمیں کسی بھی شخص کے اثر ورسوخ سے مرعوب ہونے کی بجائے کتاب وسنت کے ساتھ وابستگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ فقط اسی طریقے سے ہم صراط مستقیم پر گامزن رہ سکتے ہیں۔ تقریب میں بیان کردہ نکات کو سٹیج پر بیٹھے ہوئے علماء اور سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ سنا ۔یوںیہ تقریب بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں