"AIZ" (space) message & send to 7575

اللہ اور رسول ﷺکا حق

اس کائنات رنگ وبو میں دو ہستیاں ایسی ہیں‘ جن کی عظمت‘ مقام اور منزلت تصورات سے بھی بلند ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے خالق ‘ مالک اور شہنشاہ ہونے کے ناتے کائنات کی سب سے بلند ہستی ہیں اور کسی بھی ہستی کو کسی بھی اعتبار سے آپ کے ہمسر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی اور ابدی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا اقتدار لازوال اور اس کی صفات بے مثال ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ یگانہ اور یکتا ہے ‘اللہ تبارک وتعالیٰ کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ ہی انتہا۔ سورہ اخلاص کے مطابق ؛آپ تنہا ہیں ‘بے نیاز ہیں‘ نہ کسی کے باپ ہیں ‘ نہ کسی کے بیٹے اور کائنات میں کوئی آپ کا ہمسر نہیں ۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ کی جمیع مخلوقات میں سے جو اعزاز اور مقام حضرات انبیاء کا ہے‘ وہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوا‘لیکن انبیاء علیہم السلام تمام کے تمام ایک مقام کے حامل نہیں‘ بلکہ صاحب شریعت انبیاء ‘یعنی رسل اللہ کا مقام جمیع انبیاء سے اعلیٰ ہے ۔ رسل اللہ میں سے بھی اولعزم پیغمبران ‘یعنی حضرت نوحؑ‘ حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت موسیٰ ؑ‘ حضرت عیسیٰ ؑاور رسول اللہ ﷺ اپنے مقام کے اعتبار سے سب سے زیادہ ممتاز ہیں ‘ تاہم جو مقام اور رُتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمؐ کی ذات اقدس کو عطا کیا ہے‘ وہ کائنات میں کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ آپﷺ کی نبوت اور رسالت باقی تمام انبیاء علیہم السلام سے کئی حوالوں سے ممتاز ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو عالمگیریت اور جامعیت عطا کی ۔ آپﷺ کی ذات اقدس پر سلسلہ نبوت کو تمام کر دیا گیا۔آپﷺ کے بعد کسی ا ور شریعت کے آنے کے امکانات باقی نہ رہے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انگنت اور بے شمار صفات کا حامل بنا دیا اور ایسے اوصاف اور کمالات آپ ﷺکی ذات اقدس میں ودیعت فرما دئیے کہ انسانیت ان کے بارے میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ آپﷺ کو اس اعتبار سے ہمہ صفت بنا دیا کہ زندگی کے تمام شعبہ حیات میں آپ کو ممتاز ترین شخصیت کے سانچے میں ڈھال دیا گیا؛ چنانچہ کوئی بھی شخص زندگی کے کسی شعبے میں بھی آپﷺ کی عظمت‘ مقام اور شان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اللہ اور رسولؐ کے حوالے سے ہماری بہت سی ذمہ داریاں ہیں‘ جن سے عصر حاضر کا انسان نا واقف ہے اور اپنی ان ذمہ داریوں کو نہ سمجھنے کے سبب ان کو نبھانے کی جستجو بھی نہیں کر پاتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول ﷺکے حوالے سے جو اہم ذمہ داریاں ہمارے پر عائد ہوتی ہیں‘ وہ درج ذیل ہیں:۔
1۔ عبادت فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کا حق ہے: مختلف زمانوں میں انسان اعتقادی اعتبار سے کج روی کا شکار ہوا اور اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے بالمقابل اپنے من پسند معبودوں کی پوجا کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا؛ چنانچہ کبھی بت پرستی کو شعار بنا یا گیا‘ کبھی اجرام سماویہ کی پوجا کی گئی اور کبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ فرشتوں اور انبیاء علیہم السلام کی پوجا کی گئی؛ چنانچہ مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوجا کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور اس کے بالمقابل یہود نے حضرت عزیر علیہ السلام کی پوجا پر اصرار کیا۔ ثنویت پر یقین رکھنے والے آتش پرستوں نے دو خداؤں کی پوجا کی بات کی اور نیکی کے خدا کو یزداںاور بدی کے خدا کو اہرمن قرار دے کر دو خداؤں کی پوجا کے باطل تصور کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان باطل تصورات کی تردید اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں نہایت احسن انداز میں فرما دی۔ نبی کریم ﷺ نے دیگر انبیاء علیہم السلام کی طرح توحید خالص کا تصور بھرپور انداز میں پیش کیا اور کائنات کے لوگوں کو سمجھایا کہ عبادت اور پوجا کے لائق فقط اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 48میں ارشاد فرما دیا : بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ معاف نہیں کرے گا کہ اس کے ساتھ شریک بنایا جائے اور جو اس کے علاوہ ہے‘ جس کو وہ چاہے معاف کر دے۔‘‘اسی طرح سورہ مائدہ کی آیت نمبر 72میں ارشاد ہوا: ''یہ یقینی ہے کہ جو شریک بنائے گا اللہ کا ‘تو یقینا اللہ حرام کر دے گا اس پر جنت کو اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی اولاد کے لیے بتوں کی پوجا سے اجتناب کی دعا مانگتے رہے اور حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اچھے اعمال کی تلقین کی تو سب سے پہلے اپنے بیٹے کو یہ بات کہی کہ تو اللہ کے ساتھ شرک نہ کر کہ بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔ 
2۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت: جس طرح عبادت فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کا حق ہے ۔ تابعداری کے حوالے سے ہمیں بیک وقت اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تابعداری کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے اوراللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول کی تابعداری میں کسی قسم کی مداہنت ‘ لاپروائی اور سستی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی اور رسول کریمﷺ کی اطاعت کا ذکر کیا اور سورہ محمد کی آیت نمبر33 میں اس امر اعلان فرمایا کہ:''اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو اس کے رسول کی اور اپنے اعمال کو باطل مت کرو۔‘‘ اسی طرح سورہ حجرات کی آیت نمبر 1‘2 میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھواور اللہ سے ڈر جاؤ‘ بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے جاننے والا ہے۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو‘ اپنی آوازوں کو نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند مت کرو۔ ان کے ساتھ اونچی آواز سے بات نہ کرو‘ جس طرح تمہارے بعض اونچی آواز کرتے ہیں بعض کے لیے کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اورتمہیں شعور بھی نہ ہو۔ ‘‘ اللہ اور نبی کریمﷺ کی اطاعت باقی تمام اطاعتوں کے مقابلے میں غیر مشروط ہے۔ والدین ‘اساتذہ اور ہم سے زیادہ حیثیت رکھنے والے حکام کی اطاعت مشروط ہو سکتی ہے‘ لیکن اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت میں کسی قسم کی شرط کی گنجائش نہیں۔
3۔ احکام الٰہی اور نبی کریمﷺ کی پیروی: اللہ تبارک وتعالیٰ کے قرآن اور نبی کریم ﷺ کے فرامین کی اتباع بھی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دے دیااور سورہ احزاب کی آیت21 میں اس بات کا اعلان فرما دیا کہ ''بلاشبہ تمہارے لیے رسول کریم ﷺ میں بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘ کوئی بھی شخص آپ ﷺ کی پیروی کرکے ہی صراط مستقیم پر گامزن رہ سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میںارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے ‘اگر تم محبت کرتے ہو اللہ سے تو میری پیروی کرو‘ اللہ تبارک وتعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘
4۔قانون ساز صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اور شریعت نبی کریمﷺ کی ہو گی: قرآن وسنت کے بغور مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی قوانین کو وضع کرنے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے اور لائق اتباع طریقہ نبی کریمﷺ کا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نازل کردہ قوانین پر نبی کریمﷺ نے پوری طرح عمل کیا اور اس کی توضیح اور بیان اس انداز میں کر دیا کہ رہتی دنیا تک کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر اور احکامات کے صحیح مطلوب کو پہچاننا آسان ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 13میں اعلان فرماتے ہیں: ''اس نے مقرر کیا ہے‘ تمہارے لیے دین سے (وہی طریقہ) جس کا اس نے تاکیدی حکم بھیجا نوح ؑکو اور جو ہم نے وحی کی آپ کی طرف اور جس کا ہم نے تاکیدی حکم بھیجا ابراہیمؑ اور موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑکو ‘یہ کہ تم قائم رکھو(اس)دین کو اور جداجدا نہ ہو جاؤ‘ اس (دین)میں گراں گزرتی ہے ‘مشرکین پر (وہ بات) جس کی طرف آپ بلاتے ہیں اُنہیں ‘ اللہ چن لیتا ہے اپنی طرف ‘جسے وہ چاہتا ہے اور وہ ہدایت دیتا ہے اپنی طرف (اسے) جو رجوع کرتا ہے۔‘‘ اسی طرح سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 18میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''پھر ہم نے لگا دیا آپ کو دین کے ایک طریقے پر تو آپ پیروی کریں‘ اس کی اور آپ نہ پیروی کریں‘ ان لوگوں کی خواہشات کی جو علم نہیں رکھتے۔‘‘
5۔اللہ اور اس کے رسول ﷺسے والہانہ محبت: دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی سے محبت کرنا ہے ‘ان محبتوں میں بعض جائز اور بعض ناجائز ہوتی ہیں ۔ والدین‘ اولاد‘ اعزء واقارب‘ گھر بار اور کاروبار سے کی جانے والی محبت جائز ہے‘ اس کے برعکس غیر محرموں اور شناساؤں سے کی جانے والی محبت ‘اسی طرح مال حرام اور حرام کی طرف لے جانے والے دیگر ذرائع سے کی جانے والی محبت ہر اعتبار سے مذموم ہے‘ لیکن قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی جائز محبت کو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت پر مقدم نہیں کیا جا سکتا ‘بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے کی جانے والی محبت تمام محبتوں پر فائق ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر24 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے‘ اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایاہے اُن کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ)گھر (کہ)تم پسند کرتے ہو اُنہیں زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو‘ اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کرنے والے لوگوں کو۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مذکورہ بالا تمام ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں