محترم چچا حافظ عابد الٰہی ایک کامیاب تاجر اور دین سے محبت کرنے والے انسان ہیں۔ آپ نے ریاض یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ہے اور عربی پر مکمل گرفت رکھتے ہیں۔ اپنے کاروباری اُمور کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ ہر سال رمضان المبارک کے مہینے میں تراویح کی امامت کر وا کر دین کے ساتھ اپنی نسبت کو بھی برقرار رکھنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ آپ بنیادی طور پر کتابوں کی تجارت سے وابستہ ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کی خریدوفروخت میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنے کاروباری امور کو انجام دینے کے لیے استخارہ کرنا آپ کا معمول ہے۔ اخروی کامیابی کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں کامیابی کے لیے بکثرت دعائیں کرنا بھی آپ کا معمول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کاروباری اُمور کی انجام دہی کے دوران محنت کرنے سے بھی نہیں کتراتے۔ ان وجوہات کی بناء پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو وافر رزق عطا کر رکھا ہے۔ آپ شروع ہی سے اپنے خاندان میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔آپ ایک دوست پرور اور بے تکلف انسان ہیں اور رشتہ داروں سے ملنے ملانے کو پسند کرتے ہیں۔آپ اپنے جوانی کے ایام میں ہی جب سعودی عرب سے واپس آتے تو اپنے رشتہ داروں کو سعودی عرب میں ہونے والی اپنی سماجی علمی اور دیگر مصروفیات سے آگاہ کیا کرتے تھے۔ لطیف طبیعت اور ہلکے پھلکے مزاج کی وجہ سے وہ ہمیشہ اپنے خاندان کے نوجوانوں میں مقبول رہے۔
چچا حافظ عابد الٰہی صاحب نے ہمیشہ اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کے ساتھ شفقت‘ پیار اور مہمان نوازی والا برتاؤ برقرار رکھا اور وہ گاہے بگاہے اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کو پرتکلف کھانوں کی دعوت پر مدعو کرتے رہتے ہیں۔پیر کی رات کو ایک مرتبہ پھر انہوں نے جہاں پر اپنے دیگر بھتیجوں اور بھانجوں کو کھانے کی دعوت دی ‘وہیں پر انہوں نے ہم تینوں بھائیوں اور میر ے بیٹے کو بھی دعوت پر مدعو کیا۔ جب میں اپنے بھائیوں کے ہمراہ کھانے کی دعوت پر گوجرانوالہ کے ایک مقامی ہوٹل میں پہنچا ‘تو وہاںپر اپنے چچا کے ہمراہ اپنے کزنز کو دیکھ کر ذہن کی سکرین پر بچپن اور لڑکپن کی یادیں چلنا شروع ہو گئیں۔ کزنز کی اکثریت عمر کے ایسے حصے میں داخل ہو چکی تھی‘جہاں پر جوانی ڈھل رہی ہوتی ہے ‘ان کے چہرے اور ڈاڑھی پر کسی حد تک بالوں کی سفیدی جھلک رہی تھی۔ بالوں کی اس سفیدی کو دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ ابھی کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ہم بچپن اور لڑکپن میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا کرتے تھے اور ہم میں سے ہر ایک بالکل جوان تھا۔ یقینا وقت تھمتا نہیں اور اس کا پہیہ چلتا ہی رہتا ہے اور انسان بچپن سے لڑکپن ‘لڑکپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی حدود میں داخل ہوتا چلاجاتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو وقت کی قدر کرتے اور اس کو صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور بدنصیب ہیں وہ لوگ جو اس کی اہمیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ جن لوگوں نے وقت کی قدر کی وقت نے بھی ان کی ضرور قدر کی اور جنہوں نے وقت کی ناقدری کی اور اس کو ضائع کر دیا گردشِ دوراں نے بھی ان کو بلندیوں سے اُٹھا کر پستیوں میں لاپٹخا۔ تاریخ انسانیت اس بات پر شاہد ہے کہ دھرتی پر جتنے بھی عظیم فرزند پیدا ہوئے انہوں نے وقت کی قدر بڑے احسن انداز میں کی؛ چنانچہ ہم دیکھتے سکتے ہیں کہ مختلف آئمہ دین نے اپنی زندگیوں کو دین کے علم کے حصول کے لیے وقف کیے رکھا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے وقت کو اللہ کی یاد میں گزارتے رہے ۔ ذکر الٰہی اور اللہ کی یاد میں مشغول میں رہنے والے یہ عظیم لوگ زمانے کی لوح پر پوری شان سے اُبھرے اور انہوں نے اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے کچھ اس انداز میں معاشر ے میں مقام حاصل کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی ان کا نام تاریخ عالم اور جریدہ ہستی پر ثبت ہو چکا ہے اور اس کے مد مقابل وہ لوگ ‘جنہوں نے وقت کو ضائع کر دیا ‘ان کے نام ونشان مشت غبار کی طرح فضا میں تحلیل ہو چکے ہیں۔ دین کی معرفت حاصل کرنے اور اپنے وقت کاصحیح استعمال کرنے والے ان لوگوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے نمایاں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنما ‘اچھی تحریر لکھنے والے ادیب ‘بامقصد شاعری کرنے والے بہت سے شعراء اور انسان کی معاشرتی ترقی میں کردار ادا کرنے والے سائنسدان یقینا آج تاریخ کے دامن میں زندہ ہیں‘ ان کے برعکس وہ لوگ‘ جنہوں نے کھانے پینے‘ تن سانی اور تعیشات کو ہی اپنا معمول بنائے رکھا‘ آج قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔
گزرتے ہوئے وقت کا احساس میرے ذہن میں انسانوں کے دو طبقات کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کو واضح کر رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے بزرگوں میں سے بہت سے لوگ دنیا سے جا چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں‘ جب ہم بھی اس دنیا فانی میں موجود نہیں ہوںگے۔ اس وقت زندگی کو ضائع کردینے والے لوگوں کے ہاتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں آئے گا اور با مقصد زندگی گزارنے والے لوگ یقینا مرنے کے بعد بھی اخروی کامیابیوں کی منازل کی طرف پیش قدمی کر رہے ہوں گے۔ اس موقع پر جہاں پر متبسم چہروں اور مسکراتی آنکھوں کے ساتھ تمام اعزء واقارب ایک دوسرے کے ساتھ نجی اور کاروباری مصروفیات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے وہیں پر ملک کے مستقبل کے حوالے سے بھی مختلف طرح کی آراء سامنے آ رہی تھیں اور مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کے حوالے سے بھر پور انداز میں تبصرے کیے جارہے تھے۔ اس موقع پر ملک میں سیاسی اتار اور چڑھاؤ کے حوالے سے تمام شرکاء مجلس نے تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے مجھے اپنی آراء پیش کرنے کے بارے میں کہا گیا تو میں نے ان کے سامنے پاکستان کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے اس بات کو رکھا کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور آئین پاکستان ملک میں بسنے والے تمام طبقات اور اداروںکی حدود اور دائرہ کار کو متعین کرتا ہے۔ اس آئین کے مطابق‘ اگر تمام ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں تو یقینا پاکستان جس عدم استحکام کا شکار ہے‘ اس سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ میں نے اس موقع پر اس بات کو بھی شرکاء مجلس کے سامنے رکھنے کی کوشش کی کہ ملک کے قومی اداروں کا اصل کام ملک کا تحفظ کرنا اور داخلی اعتبار سے ملک میں پائی جانے والی بدامنی اور ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا تدارک کرنا ہے‘ لیکن حکمرانوں کے چناؤ اور ملک کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری عوام کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے ۔اس حوالے سے جب بھی کبھی تحفظات پیدا ہوئے ‘اس سے ملک میں عدم استحکام بھی پیدا ہوا۔ یہ ہمارے ملک کی بدنصیبی ہے کہ اس میں کم ازکم تین مرتبہ انتخابی دھاندلیوں کے سبب سیاسی اتار اور چڑھاؤ کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد قومی اتحاد ‘2013 ء کے انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اس حوالے سے اپنے مطالبات کے حق میں بھرپور انداز میں آواز اُٹھائی ۔ 2018ء کے انتخابات کے بعد ایک مرتبہ پھر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس ایشو کو لے کر میدان عمل میں موجود ہیں۔ حزب اقتدار احتجاج کوہمیشہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتی ہے جب کہ حزب اختلاف نے ہمیشہ اپنے حقوق اور مطابات کو منوانے کے لیے احتجاجوں اور تحریکوں کا سہارا لیا ہے۔
نہ جانے ایسا کیوں ہے کہ پرامن طریقے سے پیش کیے جانے والے مطالبات صدا بصحرا ثابت ہوتے ہیں۔ جب کہ احتجاجی تحریکوں کی بازگشت پورے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ہمارے ملک میں انتخابی سیاست کے حوالے سے پائے جانے والا عدم اطمینان کسی بھی اعتبار سے مثبت نہیں ہے اور انتخابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا اور ان کے تحفظات کی روشنی میں انتخابی عمل کو صاف اور شفاف بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کو ہر قسم کے داخلی دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور عوام کی رائے کو انتخابات میں پوری طرح منعکس ہونا چاہیے۔1970 ء کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے ملک دو لخت ہو گیا اور اس کے بعد تیسری مرتبہ ملک کو ایک لمبی احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اب وقت آچکا ہے کہ اس مسئلے کو صحیح طریقے سے حل کیا جائے تاکہ ملک میں ٹکراؤ‘ انتشار اور افراتفری کا خاتمہ ہو سکے۔ امید ہے کہ ملک کے متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کا پاس کرتے ہوئے مستقبل میں اس حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کا ازالہ کریں گے اور ملک کو سیاسی اعتبار سے سیدھے راستے پر چلانے کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہوں گے ۔ کھانے کی اس تقریب کے دوران تمام کزنز میری باتوں کو توجہ سے سنتے رہے اور یہ تقریب بہت سے خوشگوار یادوں کو اپنے جلو میں لیے رخصت ہو گی!