اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو مقام اور مرتبہ اپنی مخلوق میں سے انبیاء علیہم السلام کو عطا کیا ‘وہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خود خالق کائنات نے کلام کیا اور ان پر اپنی وحی کا نزول فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی جماعت میں سے جو مقام نبی کریمﷺ کو عطا کیا ہے ‘وہ ہر اعتبار سے انتہائی بلند وبالا ہے۔ نبی کریمﷺ کی شان وعظمت کے متعدد دلائل ہیں ‘جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ عالم ارواح میں مقام: اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو عالم ارواح ہی میں ایک خصوصی مقام عطا فرما دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 81میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب اللہ نے پختہ عہد لیا نبیوں سے (کہ) البتہ جو میں دوں تمہیں کتاب وحکمت پھر آجائے تمہارے پاس (ایسا) رسول (جو)تصدیق کرنے والا ہو اس (کتاب) کی جو تمہارے پاس ہے ‘ضرور تم ایمان لانا اس پر اور ضرور مدد کرنا اس کی (عہد لینے کے بعد) فرمایا: کیا تم نے اقرار کر لیا اور تم نے لے لیا اس پر میرا ذمہ (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا) (تو) انہوں نے کہا : ہم نے اقرارکر لیا (تو اللہ نے)فرمایا: تو تم گواہ رہو اور میں (خود بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔ ‘‘
2 ۔ کتب سابقہ میں تذکرہ: سابقہ الہامی کتابوں میں بھی نبی کریمﷺ کی بعثت سے قبل ہی آپﷺ کی آمد کے حوالے سے پیش گوئیاں مذکور تھیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 157میں ارشادفرماتے ہیں: ''وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں‘ میرے رسول ﷺ کی‘ جو اُمی نبی ہیں وہ پاتے ہیں اس (کے اوصاف)کو لکھا ہوا اپنے پاس تورات اور انجیل میں۔‘‘ قرآن مجید اور سابقہ کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی نشانیاں کتب سابقہ میں وضاحت کے ساتھ موجود تھیں۔ چنانچہ وہ یہود ونصاریٰ جو تعصب کے بغیر اپنی کتابوں کا مطالعہ کرتے ان کو نبی کریمﷺ کا اسم گرامی اورآپﷺ کی ذات بابرکت کے حوالے سے آیات باآسانی مل جاتی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ صف کی آیت نمبر6 میں اس بات کا ذکر کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ میں آپ کو بشارت دیتا ہوں اپنے بعد ایک رسول کی جن کا نام ''احمد‘‘ہو گا۔ اسی طرح سورہ فتح میں یہ بات مذکور ہے کہ نا صرف یہ کہ نبی کریمﷺ کا نام نامی اور اسم گرامی تورات اور انجیل میں موجود تھا ‘بلکہ آپﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر بھی ان کتابوں میں موجود تھا؛ چنانچہ سورہ فتح کی آیت نمبر 29 میں ارشاد ہوا: ''محمد ﷺ‘ اللہ کے رسول ہیں اور (وہ لوگ) جو اُن کے ساتھ ہیں بہت سخت ہیں کافروں پر ‘بہت رحم دل ہیں اپنے درمیان (یعنی آپس میں)۔ آپ دیکھیں گے انہیں (اس حال میں کہ) رکوع کرنے والے ہیں‘ سجدہ کرنے والے ہیں‘ وہ تلاش کرتے ہیں اللہ کا فضل اور (اس کی) خوشنودی۔ ان کی نشانی ان کے چہروں میں (موجود) ہے سجدے کرنے کے اثر سے۔ یہ ان کا وصف تورات میں ہے اور ان کاوصف انجیل میں (بھی) ہے۔ (اس ) کھیتی کی طرح (جس نے ) اپنی کونپل نکالی ‘پھر اس نے اسے مضبوط کیا ‘پھر وہ سخت ہو گئی‘ پھر سیدھی کھڑی ہوگئی اپنے تنے پر ۔وہ خوش کرتی ہے کاشتکاروں کو (اللہ نے اس لیے کیا) تاکہ غصہ دلائے ان کے ذریعے کافروں کو ‘ اللہ نے وعدہ کیا ہے (اُن لوگوں سے)جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان میں سے بخشش کا اور بہت بڑے اجر کا۔‘‘
سورہ بقرہ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہل کتاب‘ نبی کریمﷺ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے‘ لیکن اس کے باوجود وہ جان بوجھ کر حق کو چھپاتے اور کتمان سے کام لیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 146میں ارشاد فرماتے ہیں:'' وہ لوگ جنہیں ہم نے دی کتاب وہ اُسے پہچانتے ہیں (قبلے کی تبدیلی یا محمد ﷺ کو) جیسے وہ پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو۔ اور بے شک ایک گروہ ان میں سے (ایسا ہے جو) البتہ حق کو چھپاتے ہیں‘ حالانکہ وہ جانتے ہیں۔‘‘
3۔عالمگیریت: نبی کریمﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے وہ اپنے اپنے علاقوں کے رہنما اور بڑے بن کر آئے‘ لیکن نبی کریمﷺ کا یہ اعزاز ہے کہ آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کسی مخصوص علاقے کے لیے نہیں مبعوث فرمایا ‘بلکہ آپ ﷺ کو جمیع انسانیت کے لیے مبعوث فرما دیا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر158میں بیان فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اے لوگو! بے شک میں اللہ کا رسول ہوں تم سب کی طرف۔‘‘ اسی طرح سورہ سباء کی آیت نمبر 28میں ارشاد ہوا:''اور نہیں ہم نے بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے ولاا (بنا کر) اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
4۔ نبی القبلتین: حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو فرزند جناب اسماعیلؑ اور جناب اسحاقؑ تھے۔ ان دونوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی تبلیغ کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے مکہ معظمہ میں بیت اللہ کو تعمیر کیا‘ جبکہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد کے حصے میں بیت المقدس اور اس کے گردونواح کا علاقہ آیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے سردار ‘ رؤسا اور کئی بااثر افراد پیدا ہوئے جو بیت اللہ الحرام کی تولیت کا فریضہ انجام دیتے رہے‘ ج کہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں انبیاء علیہم السلام بڑی تعداد میں مبعوث ہوئے ‘جنہوں نے ارض اردن‘ ارض فلسطین‘ ارض عراق میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت کا فریضہ انجام دیا۔ نبی کریمﷺ کا یہ اعزاز ہے کہ اگرچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو بیت اللہ الحرام کے علاقے میں مبعوث فرمایا ‘لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو سفر معراج میں بیت المقدس کی سیر بھی کروائی اور وہاں پر آپ نے انبیاء علیہم السلام کی امامت کا فریضہ انجام دیا ۔ اس طریقے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ آپﷺ ایک قبلہ کے امام اور مقتدیٰ نہیں‘ بلکہ دونوں قبلوں کے امام اور مقتدیٰ بن کر کائنات میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔
5۔ ختم نبوت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو تواتر کے ساتھ مختلف اقوام کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا‘ لیکن نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے دن تک کے لیے نبوت اور رسالت کو تمام کر دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ احزاب کی آیت نمبر 40میں یوںفرماتے ہیں: ''نہیں ہیں محمد (ﷺ) باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری و صحیح مسلم ‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ للبیہقی میںحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا میری اور سابق نبیوںکی مثال ایک شخص کی ہے ‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا‘ مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو‘ اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںحضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ؐ نے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیںکہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ ؑکی ہارون ؑ سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا ‘تاہم خلفاء ہوںگے اورتعداد میں بہت ہوںگے۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔
6۔ذکر کی بلندی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انشرح میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ نبی کریمﷺ کے ذکر کو بلند کر دیا گیا ہے؛چنانچہ ہم اس بات کا باآسانی مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ دنیا کے ہر کنارے سے ہر روز پانچ وقت اذان کے دوران جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی الوہیت کی شہادت دی جاتی ہے۔ وہیں پر پیغمبر زماں حضرت رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی بھی شہادت دی جاتی ہے۔
7۔قیامت اور اس کے بعد مقام: اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو روز محشر بھی انتہائی بلند مقام عطا کیا ہے۔ آپ شافع روز محشر اور ساقی حوضِ کوثر ہیں۔قیامت کے دن آپ ﷺ کے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہو گا اور اللہ تبارک وتعالیٰ آپﷺ کو مقام محمود عطا فرمائیں گے۔ نبی کریمﷺ کی عظمت کے دلائل اس کے علاوہ بھی بہت سے ہیں‘تاہم مذکورہ بالا مختصر دلائل سے بھی اس بات کو جاننا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو رہتی دنیا تک کیلئے سب سے بلند مقام عطا فرما دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں شان ِ رسالت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)