سعودی عرب‘ عالم اسلام کا اہم ترین ملک ہے۔ مکہ اور مدینہ کی زیارت کے مسلمان ہر سال بڑی تعداد میں حجاز مقدس کی طرف سفرکرتے ہیں۔ دنیا بھر سے جہاں پر حج وعمرہ کے موقع پر مسلمانوں کی کثیر تعداد سعودی عرب جاتی ہے‘ وہیں پر پاکستانیوں کی بھی ایک بڑی تعداد سعودی عرب روانہ ہو جاتی ہے۔ قیام پاکستان کے دن سے لے کر آج تک ملک میں مختلف سیاسی تبدیلیاں رو نماہوتی رہیں ‘لیکن سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مستحکم تعلقات کو برقرار رکھا اورپاکستان کی سیاسی ‘اخلاقی اور اقتصادی معاونت کو ہر موقع پر جاری رکھا۔ سعودی عرب میں پاکستانی طالب علموں کی ایک بڑی تعداد جامعۃ الامام ریاض ‘جامعہ امُ القریٰ (مکہ مکرمہ) اور جامعہ اسلامیہ (مدینہ منورہ) میں تحصیل علم کے لیے مشغول رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار اور ملازمت کے لیے بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد سعودی عرب میں موجود ہے۔ مجھے حج ‘ عمرہ کے ساتھ ساتھ مختلف موقعوں پر سعودی عرب کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کرنے کا موقع ملتا رہا ہے اور جب کبھی ان سے پاکستان کے بارے میں گفتگو ہوئی انہوں نے ہمیشہ خوش گوار جذبات کا اظہار کیا۔
10 نومبر کو ایک مرتبہ پھر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر پروفیسر ساجد میر سابق وفاقی وزیر حافظ عبدالکریم اور معروف عالم دین قاری صہیب احمد میر محمدی کی ہمراہی میں ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کا سرکاری دورہ کرنے کا موقع ملا۔ اس دورے کے دوران سعودی عرب کی بہت سی نمایاں شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ان ملاقاتوںمیں پاکستان اور اسلام کے حوالے سے جن جذبات کا اظہار کیا گیا‘ وہ یقینا ہر اعتبار سے قابل قدر تھے۔اس کے ساتھ ساتھ اُمت کے مستقبل کے حوالے سے بھی بڑی خوبصورت گفتگو ہوئی ۔ہم 10 نومبر کو لاہور سے ریاض کے لیے روانہ ہوئے۔ ریاض ائیرپورٹ پر مذہبی امور کے نمائندگان‘ پروٹوکول آفسران اور پاکستانی کمیونٹی کے بعض اہم نمائندگان نے بڑے پرتپاک انداز میں ہمارا استقبال کیا۔ ائیر پورٹ سے ہمیں وزارت ِ مذہبی امور کا عملہ ریاض کے ایک ہوٹل میں لے گیا‘ جہاں پر ہم نے رات کو قیام کیا۔ اگلے دن ظہر کی نماز کے بعد ہماری ملاقات وفاقی وزیر مذہبی امور شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز آل شیخ سے طے تھی۔ ہم 11 نومبر کو ساڑھے 12 بجے جب وزارت مذہبی امور کے دفتر میں پہنچے تو وزارت کے نمائندگان بڑی تعداد میں ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے‘ جو ہم سے بڑے پرجوش انداز میں ملے اور وفاقی وزیر مذہبی امور کے مکتب میں لے گئے۔ مکتب میں وفاقی وزیر نے بڑے پرتپاک انداز میں مرحبا کہا اور پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے بڑے احسن انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ پروفیسر ساجد میر ‘ حافظ عبدالکریم اور دیگر اراکین وفد نے سعودی عرب اور پاکستان کے دیرینہ تعلقات کے حوالے سے جہاں پر اپنے جذبات کااظہار کیا ‘وہیں پر مستقبل میں دو طرفہ تعلقات کی اہمیت اور ضرورت کو اجاگر کیا۔ اس موقع پر سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور نے گزشتہ عشروں کے دور ان پاکستان اور سعودی عرب کی تاریخ ر روشنی ڈالی اور اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے نہایت خوبصورت انداز میں گفتگو کی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور نے اس موقع پر یہ بات کہی کہ دنیا میں اسلام کے حوالے سے کیا جانے والے پراپیگنڈہ ہر اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے‘ جو نا صرف یہ کہ اپنے پیروکاروں کے لیے امن وسلامتی کا پیغام لے کر آیا ہے ‘ بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے لیے بھی اس میں عافیت اور خیر خواہی کا پیغام ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں امت وسط بنایا ہے اور وسطیت اور اعتدال امت مسلمہ کاحسن ہے۔ ہمیں دین کے معاملات میں جوش وجذبے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت ‘ دانائی اور اعتدال کو مدنظر رکھتے ہوئے دعوت دین کے فریضے کو انجام دینا چاہیے‘ اگر امت اس اصول کو سمجھ لے تو یقینا سازشیوں کی سازش اور حاسدوں کے حسد کے باوجود بین الاقوامی سطح پر اُمت مسلمہ کی تعمیر وترقی کے راستے میں کوئی بھی چیز حائل نہیں ہو سکتی۔ الوداع کرنے سے قبل وفاقی وزیر نے اراکین وفد کو قرآن مجید کے نسخے اور یادگاری شیلڈ زپیش کیں اور مجھ سے مصافحے کے دوران والد گرامی کے ساتھ اپنے خوشگوار اور دیرنہ تعلقات کا بھی اظہارکیا۔
12 نومبر کی دوپہر کو سعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ کے ساتھ ملاقات طے تھی ۔ مفتی صاحب طویل عرصہ تک خطبہ حج بھی ارشاد فرماتے رہے ہیں۔ شیخ عبدالعزیز بوڑھے ہونے کے باوجود اپنے مکتب میں اہل علم اور دینی مسائل پوچھنے والوں سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں اور دین کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا نہایت احسن انداز اور مدلل انداز میں جوابات دیتے ہیں۔ مفتی اعظم نے بھی وفد کا بڑے پرتپاک انداز میں استقبال کیا اور جب ان کو معلوم ہوا کہ ہمارے ساتھ وفد میں قرآن مجید کے ایک بہترین قاری موجود ہیں ‘تو انہوں نے اُن سے قرآن سنانے کا مطالبہ کیا۔ قاری صہیب احمد میر محمدی نے بڑے پرسوز انداز میں سورہ ابراہیم کے ایک حصے کی تلاوت کی‘ جس کو مفتی اعظم نے بڑی تحسین اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے اس موقع پر عصر حاضر کے بعض اہم مسائل پر بھی روشنی ڈالی اور اور اقتصادی اعتبار سے مسلمان امت کی ترقی کے راستے میں حائل ایک اہم رکاوٹ سود کے بارے میں بھی سیر حاصل گفتگو کی۔ مفتی اعظم کا خلوص اور پیار ہر اعتبار سے یادگار تھا اور ہم اُن کی مجلس سے بھر پور طریقے سے مستفید ہوئے۔
سعودیہ پہنچنے کے بعد ہمارے ساتھ متحدہ مجلس عمل بلوچستان کے سیکرٹری جنرل اورمرکزی جمعیت اہلحدیث کے نائب امیر مولانا ابو تراب بھی ہمراہ ہو چکے تھے اور بعض اہم ملاقاتوں میں انہوں نے بھی مشارکت کی۔ 12 نومبر کی شام کو ہم ریاض سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ مدینہ منورہ پہنچنے پر سعودی وزارت مذہبی امور کے نمائندگان نے ائیر پورٹ پر ہمارا استقبال کیا اور ہمیں مقامی ہوٹل میں پہنچا دیا ‘جہاں مدینہ یونیورسٹی کے طالب علم بڑی تعداد میں موجود تھے۔ ان طالب علموں نے ہمارے لیے ایک پر تکلف عشائیے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ 12 نومبرکی رات مدینہ منورہ میں قیام ہوا اور 13 نومبر کو ظہر کی نماز کے بعد مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر محمد بن عبداللہ سے ملاقات طے تھی۔ یونیورسٹی پہنچنے پر وہا ں کی انتظامیہ نے بڑے بھرپور انداز میں خیر مقدم کیا اور ہمیں وائس چانسلر کے دفتر میں لے گئے۔ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ایک پروقارشخصیت تھے ‘ جنہیں ایک طویل عرصے تک ماہر تعلیم رہنے کا موقع میسر آیا تھا۔ اس ملاقات میں مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے ہمیں یہ بات بتلائی کہ مدینہ یونیورسٹی سے سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی طلباء تعلیم حاصل کر چکے ہیں‘ جن میں گریجویشن کے علاوہ پوسٹ گریجویٹ اور ڈاکٹریٹ کی سطح کے طلباء بھی شامل ہیں۔ ان طلباء کی بڑی تعداد اپنے اپنے ممالک میں جا کر احسن انداز میں دین کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے پاکستانی طلباء کی تعلیم میں دلچسپی کا بھی ذکر کیا اور یہ بات بتلائی کہ یہ طلباء درحقیقت مدینہ منورہ میں اپنے ملک کے سفیر کا کردار ادا کر رہے ہیں اور واپس پلٹ کر یہ اپنے اپنے ممالک میں مدینہ یونیورسٹی کی نمائندگی کرتے ہیں اوریہ طلباء دو طرفہ تعلقات کی بڑھوتری میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔
عصر کی نماز کے بعد مدینہ منورہ سے جدہ کی طرف روانگی ہوئی۔ جدہ ائیر پورٹ پر وزارت مذہبی امور کے نمائندگان موجود تھے‘ جنہوں ہمیں مکہ مکرمہ پہنچا دیا۔رات کے پچھلے پہر‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر عمرے کی سعادت سے بہرہ ور کیا ۔ بچپن سے لے کر اب تک کئی مرتبہ بیت اللہ اور مسجد نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہو چکاتھا ‘جو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی عطا تھی۔ عمرے کے دوران جہاں پر اپنے ذاتی معاملات کے بارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی ‘وہیں پر اجتماعی حوالے سے بھی بارگاہ رب العالمین میں بہت سی دعاؤں کو پیش کیا۔
14تاریخ کی دوپہر رئیس الحرمین شیخ عبدالرحمن السدیس سے ملاقات طے تھی ۔ شیخ عبدالرحمن السدیس کے مکتب کے اہلکار اہل دین اور اہل علم سے والہانہ محبت کرنے والے تھے۔ اس موقع پر شیخ عبدالرحمن السدیس نے اہل پاکستان کے لیے جن جذبات کا اظہار کیا ‘وہ یقینا ہر اعتبارسے یاد گار تھے۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستان اور اہل پاکستان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور بہت ہی پروقار انداز میں اُمت مسلمہ اور پاکستان کے مسائل کے حوالے سے دردِ دل پر مبنی باتیں کیں۔ شیخ سدیس کے ساتھ ہونے والی ملاقات انتہائی روح پرور تھی۔ اس کے بعد ہماری وزیر حج سے جدہ میں ملاقات طے تھی۔ جدہ پہنچنے پر وزات حج کے عملے نے ہماری ملاقات وفاقی وزیر حج سے کروائی ۔ انہوں نے حج اور عمرے کے انتظامات کے حوالے سے ہمیں سعودی عرب کی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں سے آگاہ کیا۔ اس موقع پر حافظ عبدالکریم نے توقع ظاہر کی کہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی سعودیہ حجاج کی خدمت کا فریضہ احسن انداز میں انجام دیتا رہے گا۔ اس ملاقات میں پاکستانی حجاج کرام کو درپیش مسائل کے حوالے سے بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ سعودی وزیر نے ان مسائل کے ازالے کے حوالے سے بھی مثبت عزائم کا اظہار کیا۔ یہ ملاقات بھی اپنے جلومیں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام کوپہنچ گئی۔
آخر کار15تاریخ کی رات کو تین بجے جدہ ائیرپورٹ سے روانگی ہوئی اور صبح نو بجے جہاز لاہور ائیر پورٹ پر اتر گیا‘ جہاں پر اراکین وفد کے رفقاء ان کے استقبال کے لیے موجود تھے اور یوں سعودی عرب کا یہ دورہ اپنے جلومیں بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے مکمل ہو گیا...!!