"AIZ" (space) message & send to 7575

دو حالتیں

معاشرے میں رہتے ہوئے ہم با آسانی انسانوں کی دو حالتوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ خوشحالی کی زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس کے برعکس بعض لوگ بدحالی کی دلدل میں اترے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ تندرستی اور جسمانی ونفسیاتی صحت سے بہرہ ور ہیں‘ تو اس کے بالمقابل بہت سے لوگ پیچیدہ قسم کی بیماریوں اور ذہنی الجھنوں کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان دو حالتوں کا تعلق فقط انسانوںکے دو مختلف طبقات کے ساتھ نہیں ‘بلکہ ایک ہی انسان زندگی میں مختلف طرح کی حالتوں اور کیفیتوں سے دوچار رہتا ہے۔ انسان کبھی خوشحالی اور تونگری کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے تو کسی نقصان یا حادثے کے نتیجے میں غربت اور بدحالی کا شکار ہو جاتا ہے ‘ اسی طرح کبھی انسان بیماری کے ایام سے گزر رہا ہوتا ہے تو کبھی صحت کی نعمت سے فیض یاب ہو رہا ہوتا ہے۔ ان دو حالتوں کے دوران اس بات کا باآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نعمتوں اور خوشحالی والی زندگی گزارتے ہوئے گھمنڈ ‘ فخر اور غرور کا اظہار کرتے ہوئی نظر آتی ہے۔ یہاں تک بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے بھی غافل ہو جاتے ہیں اور دنیا کی انہی نعمتوں کو اپنے لیے حرف آخر سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ کہف میں دو باغبانوں کا ذکر کیا ہے۔ جو باغبان مادی اعتبار سے برتر تھا‘ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے غافل تھا‘ جبکہ اس کے مدمقابل چھوٹا باغبان اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس واقعہ کو سورہ کہف کی آیت نمبر 32سے 44میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''اور بیان کیجئے ان کے لیے ایک مثال دو آدمیوں کی (کہ) ہم نے بنائے ان دونوں میں سے ایک کے لیے دو باغ انگوروں سے اور ہم نے باڑ لگا دی‘ ان دونوں کے اردگرد کھجوروں کی اور ہم نے کی ان دونوں کے درمیان کچھ کھیتی۔ دونوں باغوں نے دیا اپنا پھل اور نہ کمی کی اس میں سے کچھ بھی اور ہم نے جاری کردی‘ ان دونوں کے درمیان ایک نہر۔ اور تھا اس کے لیے (بہت)پھل‘ تو کہا اس نے اپنے ساتھی سے اس حال میں کہ وہ بات کر رہا تھا‘ اس سے کہ میں بہت زیادہ ہوں تجھ سے مال میں اور زیادہ باعزت ہوں نفری کے لحاظ سے۔ اور وہ داخل ہوا اپنے باغ میں ا س حال میں کہ وہ ظلم کرنے والا تھا اپنے نفس پر‘ اس نے کہا نہیں میں گمان کرتا کہ یہ تباہ ہو گا کبھی بھی۔ اور نہیں میں خیال کرتا قیامت کا (کہ وہ) قائم ہونے والی ہے اور واقعی اگر مجھے لوٹا یا گیا میرے رب کی طرف ضرور بالضرور میں پاؤں گا بہتر ان (باغات) سے لوٹنے کی جگہ۔ کہا اس سے اس کے ساتھی نے اس حال میں کہ وہ بات کر رہا تھا اس سے کیا تو نے کفر کیا ہے (اس ذات) سے جس نے پیدا کیاتجھے مٹی سے پھر ایک قطرے سے پھر اس نے ٹھیک ٹھاک بنا دیا تجھے ایک آدمی‘ لیکن میں (تو کہتا ہوں)وہ اللہ میرا رب ہے اور نہیں میں شریک بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو اور کیوں نہ جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں تو نے کہا‘ جو اللہ چاہے (وہی ہوگا)نہیں کوئی طاقت‘ مگر اللہ (کی مدد) سے۔ اگر تو دیکھتا ہے مجھے (کہ) میں کم تر ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں۔ توقریب ہے کہ میرا رب دے مجھے بہتر تیرے باغ سے اور وہ بھیج دے اس (تیرے باغ)پر کوئی عذاب آسمان سے پھر وہ ہو جائے صاف میدان۔ یا ہو جائے اس کا پانی گہرا تو ہر گز نہ تو استطاعت رکھے گا اس کو ڈھونڈلانے کی۔ اور گھیر لیا گیا (یعنی تباہ کر دیا گیا) اس کے پھل کو تو اس نے صبح کی (اس حال میںکہ)وہ ملتا تھا اپنی دونوں ہتھلیاں اس پر جو اس نے خرچ کیا اس میں اس حال میں کہ وہ گرا ہوا تھا‘ اپنی چھتوں پر اور وہ کہتا تھا اے کاش میں ! شریک نہ بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو اور نہ ہوئی اس کے لیے کوئی جماعت (کہ) وہ مدد کرتے اس کی اللہ کے سوا اور نہ تھا وہ بدلہ لینے والا۔‘‘قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نعمتوں کو پا کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد کو فراموش کر دینے والے لوگ ہمیشہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بنتے ہیں۔ 
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قارون کی بربادی کا بھی ذکر کیا ‘جو اپنے خزانے پر اتراتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اس کے گھر اور خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکریاں کرنے والے لوگو ں کے ہاتھ میں بھی ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں آتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک ایسی بستی کا ذکر کیا ‘جو کفرانِ نعمت کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت کا نشانہ بنی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو ) تھی امن والی اطمینان والی آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے۔ تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی ‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘ اس کے مدمقابل اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ جو لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کو پا کر شکر گزاری کا راستہ اختیار کرتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے لیے اپنی نعمتوں کوبڑھا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر7 میں ارشادفرماتے ہیں: ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا‘ اگر تم شکر کرو گے (تو)بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘ اسی طرح سورہ نساء میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو کیا ضرورت ہے ایسے شخص کو عذاب دینے کی جو شکر گزار ی اور ایمان کو اختیار کرنے والا ہو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر147 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا کرے گا اللہ تمہیں عذاب دے کر اگر تم شکر کرو اور (صحیح طور پر )ایمان لے آؤ اور اللہ قدردان خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘
نعمتوں کو پاکر جس طرح لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں اور ناشکری کے راستہ اختیا ر کرتے ہیں‘ اسی طرح بہت سے لوگ مصائب کے آ جانے پر اس حد تک دل شکستہ ہو جاتے ہیں کہ مایوسی ‘ بے صبری اور بے قراری کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ایسے لوگوں کو اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائشیں درحقیقت ان سے صبرکا تقاضا کرتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155‘156اور 157میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوروں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت توکہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں(جن)پرعنایات اور رحمت ہے‘ ان کے رب کی طرف سے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
جب انبیاء علیہم السلام خصوصاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان عظیم ہستیوں نے کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اعدائے دین کی شقاوتوں اور ان کی طرف سے ملنے والی اذیتوں پر دل گرفتہ ہونے کی بجائے پوری استقامت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے پر کاربند رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کی بدبختی اور شقاوت کے باوجود ان کے لیے بد عا کی بجائے ہدایت کی دعا فرمائی۔ نبی کریمؐ نے فتح مکہ کے موقع پر ہر قسم کی تکلیفیں اور ایذا دینے والوں کو معاف کر دیا اور انتقام کی بجائے عفوودرگزر کے راستے کو اختیار کیا۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک لمبی بیماری کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں اس لمبی بیماری کے دوران صبر کے راستے کو اختیار کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دست سوال کو دراز کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی بیماری کو صحت کے ساتھ تبدیل کر دیا۔ 
حضرات صحابہ کرام ؓ اور ائمہ دین بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں آنے والی مشکلوں پر استقامت اور صبر کی تصویر بنے رہے۔ ہمیں بھی اپنی زندگی میں آنے والی تکالیف اور مشکلات پر بے صبری کرنے کی بجائے صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 153میں اس امر کا اعلان فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو مدد حاصل کرو صبر سے اور نماز سے ‘ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ مذکورہ بالا آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسانوں کو ہمیشہ نماز اور صبر کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ سے مدد کو طلب کرتے رہنا چاہیے بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ زندگی کی دونوں حالتوں کے دوران صبر اور شکر کا راستہ اختیار کرنے والے لوگ کامیاب وکامران ہو جاتے ہیں جب کہ ناشکری اور بے صبری کا راستہ اختیار کرنے والے لوگ ناکام اور نامراد ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو خوشحالی ‘نعمتوں اور عروج کے دوران شکر اور بدحالی ‘ پریشانی اور کمزوری کے دوران صبر کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔(آمین) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں