کسی بھی معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کی سوچ یکساں نہیں ہوتی۔ بعض لوگ اپنے لیے درست اور صائب راستے کا انتخاب کرلیتے ہیں اوراس کے برعکس بہت سے لوگ اپنے لیے غلط راستے کو منتخب کر لیتے ہیں۔ اعتقادی‘ فکری اور عملی اعتبار سے سیدھے راستے پر رہنے والے لوگ یقینا خوش نصیب ہیں کہ اس راستے میں آنے والی تکالیف اور مشکلات کو برداشت کرنے کے بعد ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا حاصل ہو گی اور یہ لوگ جنت کے حقدار ٹھہریں گے۔ اس کے برعکس غلط راستے پر چلنے والے لوگ غلط اور ناجائز طریقے سے اپنے مفادات اور اہداف کو حاصل کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی اور جہنم کے دہکتے ہوئے انگاروں کے مستحق ٹھہریں گے۔ سیدھے راستے پر چلنا گو‘ ہر اعتبار سے قابل تحسین ہے‘ لیکن اس راستے پر چلنا در حقیقت آسان نہیں ہے۔ صراطِ مستقیم پر چلتے ہوئے انسان کو بہت سی تکالیف اور صعوبتوں کو سہنا پڑتا ہے۔ ان صعوبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے والے لوگ استقامت کا مظاہرہ کرکے نہ صرف یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کے حقدار بن جاتے ہیںبلکہ آنے والی نسلوں کو بھی صراطِ مستقیم پر چلنے کا طریقہ سکھا جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے ایسے افراد اور گروہوں کا ذکر کیا جنہوں نے عقیدۂ توحید کی خاطر استقامت کا مظاہرہ کیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں فرعون کی بیوی آسیہ کا ذکر کیا جنہوں نے حق بات کی خاطر دنیا کی نازو نعمت کو ٹھکرا دیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے پر چلتے ہوئے جام شہادت کو بھی نوش کرنا گوارہ کر لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدہ آسیہ کی استقامت کو مومنہ عورتوں کے لیے ایک مثال بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ تحریم کی آیت نمبر 11میں ارشاد فرمایا : ''اور اللہ نے مثال بیان کی (اُن لوگوں)کے لیے جو ایمان لائے فرعون کی بیوی کی‘ جب اس نے کہا (اے میرے) رب! بنا میرے لیے اپنے پاس ایک گھر جنت میں اور نجات دے مجھے فرعون اور اس کے عمل سے اور تو نجات دے مجھے ظالم لوگوں سے‘‘۔علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ احادیث صحیحہ میں اس حوالے سے حضرت ابوہریرہ ؓ سے موقوفاً روایت یوں نقل فرمائی ہے:''فرعون نے اپنی بیوی کے ہاتھوں اور پاؤں میں چار کیلیں ٹھونک دیں‘ جب وہ لوگ اُن کے پاس سے چلے جاتے تو فرشتے اُن پر سایہ کر دیتے ۔ وہ کہنے لگیں: اے میرے رب! اپنے پاس جنت میں میرے لیے ایک گھر بنا ‘ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دے اور مجھے ظالم قوم سے نجات دے ۔ تب اللہ تعالیٰ نے انہیں جنت میں اُن کا گھر دکھادیا ‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت اس اعتبار سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پسندیدہ جماعت ہے کہ انہوں نے دین کے راستے پر چلتے ہوئے ہر قسم کی تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ قرآن مجید میں جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صحابہ کرام ؓ کے لیے اپنی رضا کے پروانے کو جاری فرمایا وہاں پر ایک اور جماعت کا ذکر بھی تواتر اور تسلسل سے کیا۔ یہ جماعت ان جادو گروں کی جماعت تھی جو موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرکے فرعون کی خوشنودی اور قربت کو حاصل کرنا چاہتی تھی‘ لیکن موسیٰ علیہ السلام کے معجزاتی عصا کو دیکھ کر وہ لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی الوہیت اور ربوبیت کو پہچان گئے اور اعلانیہ طور پر مسلمان ہو گئے۔ اس اعلان کے بعد وہ ہر طرح کی تکالیف کو سہنے پر آمادہ وتیار ہو گئے اور انہوں نے استقامت کے راستے کو اختیار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان کے واقعہ کو بیان کیا ہے ۔ سورہ اعراف کی آیت نمبر 109 سے لے کر 126 تک میں ان کا واقعہ کچھ یوں مذکور ہے :
''کہا سرداروں نے فرعون کی قوم میں سے بے شک یہ یقینا جادو گر ہے بڑا دانا۔ وہ چاہتا ہے کہ نکال دے تمہیں زمین سے تو کیا تم حکم (مشورہ) دیتے ہو ۔ وہ کہنے لگے مہلت دے دو اُسے اور اس کے بھائی کو اور تو بھیج شہروں میں اکٹھے کرنے والے۔ وہ لے آئیں تیرے پاس ہردانا جادوگر کو اور آئے جادو گر فرعون کے پاس وہ کہنے لگے بے شک ہمارے لیے یقینا کوئی انعام ہو گا اگر ہم ہی غالب ہوئے ۔ اس نے کہا‘ ہاں اور یقینا تم ضرور مقرب لوگوں میں سے ہو گے۔ اُنہوں نے کہا اے موسیٰ! یا یہ کہ تو ڈالے اور یا یہ کہ ہوں ہم (پہلے) ڈالنے والے۔ اس نے کہا تم ڈالو‘ پھر جب انہوں نے ڈال دیں (لاٹھیاں)(تو)انہوں نے جادو کر دیا لوگوں کی آنکھوں پر اور ڈرادیا اُنہیں اور لائے بہت بڑا جادو۔ اور ہم نے وحی کی موسیٰ کی طرف یہ کہ (تو) بھی ڈال دے اپنی لاٹھی۔ تو اچانک وہ نگلنے لگی جو وہ جھوٹ موٹ بنا رہے تھے۔ پس حق ثابت ہوگیا اور باطل ہو گیا جو کچھ وہ کر رہے تھے۔ تو وہ مغلوب ہو گئے وہاں اور لوٹے ذلیل ہو کر۔ اور گرا دیے گئے جادو گر سجدے کی حالت میں۔ انہوں نے کہا ہم ایمان لائے تمام جہانوں کے رب پر۔ موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔ کہا فرعون نے (کیا) تم ایمان لے آئے ہو اس پر (اس سے ) پہلے کہ میں اجازت دیتا تمہیں۔ بے شک یہ یقینا ایک چال ہے (جو کہ) تم نے چلی ہے اس شہر میں تاکہ تم نکال دو اس (شہر) سے اُس کے رہنے والوں کو۔ تو عنقریب تم جان لو گے ضرور میں بُری طرح کاٹ دوں گا تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں مخالفت سمت سے۔ پھر البتہ ضرور میں سولی پر چڑھا ؤں گا تم سب کو ۔ اُنہوں نے کہا : یقینا ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اور نہیں تو بدلہ لے رہا ہم سے مگر (صرف اس کا ) کہ ہم ایمان لائے ہیں اپنے رب کی آیات پر‘ جب وہ آئی ہیں ہمارے پاس۔ اے ہمارے رب! تو ڈال ہم پر صبر اور فوت کر ہمیں اس حال میں کہ فرمانبردار ہوں ‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مومن میں اس مومن کے خطاب کا بڑے تفصیل سے ذکر کیا جس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی حمایت میں دربارِ فرعون میں صدائے حق کو بلند کیا تھا اور اس حوالے سے غیر معمولی خطرات کومول لے لیاتھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حق پرست مومن کو فرعون کے مکر سے نجات دی اور اس کے خطاب کو یوں قبو ل فرمایا کہ قرآن کی ایک پوری سورت سورہ مومن کو اس کے نام سے جوڑ دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یٰسین میں ایک مومن شخص کا ذکر کیا ہے جس نے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانے پر بستی والوں کی مذمت کی تھی۔ بستی والے اُ س کی اِس حق پرستی کی وجہ سے اُس سے نالاں ہو ئے اور اُس کو شہید کر دیاگیا۔ تب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو جنت میں داخل فرما کر اس کو ایک عظیم رتبہ عطا فرما دیا۔ سورہ یٰسین کی آیت نمبر 20 سے 28 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس مومن کے واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور آیا شہر کے دور کنارے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا اس نے کہا اے میری قوم! رسولوں کی پیروی کرو۔ تم پیروی کرو (اُن کی) جو تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتے اور وہ ہدایت یافتہ ہیں۔ اور مجھے کیا ہے (کہ)میں عبادت نہ کروں (اس کی) جس نے مجھے پیدا کیا اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ کیا میں بنا لوں اس کے سوا (ایسے)معبود (کہ)اگر رحمان ارادہ کرے میرے ساتھ کسی نقصان کا (تو)نہیں کام آئے گی میرے ان کی سفارش کچھ بھی اور نہیں وہ چھڑا سکیں گے مجھے۔ بے شک میں ا س وقت کھلی گمراہی میں ہوں گا۔ بے شک میں ایمان لایا ہوںتمہارے رب پر سو مجھ سے سنو ۔ کہا گیا تو داخل ہو جا جنت میں۔ اس نے کہا اے کاش میری قوم (کے لوگ) جان لیتے اس (بات) کو کہ بخش دیا مجھے میرے رب نے اور اس نے بنایا مجھے معزز لوگوں میں سے ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک توحید پرستوں کی بستی کا بھی ذکر کیا جنہیں توحید سے وابستگی کی پاداش میں جلا کر راکھ کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بروج کی آیت نمبر 4 سے 8 میں ان کے کارہائے نمایاں اور ان کی اپنے ساتھ وابستگی کا ذکر کچھ یوں فرماتے ہیں: ''مارے گئے خندقوں والے۔ (جو) آگ تھی ایندھن والی۔ جب وہ اُس پر بیٹھے تھے۔ اور وہ اس پرجو وہ کر رہے تھے مومنوں کے ساتھ مشاہدہ کرنے والے تھے۔ اور نہیں انتقام لیا انہوں نے ان سے مگر (اس بات کا)کہ وہ ایمان لائے اللہ پر (جو)بڑا زبردست نہایت قابل تعریف ہے‘‘۔
حق کے راستے پر استقامت کا مظاہرہ کرنے پر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں سے کس قدر راضی ہوتے ہیں اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 30 سے 32 میں ارشاد فرمایا: ''بے شک (وہ لوگ) جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ خوب قائم ہوئے۔ اُترتے ہیں ان پر فرشتے (وہ کہتے ہیں)کہ نہ تم خوف کرو اور نہ تم غم کھاؤ اور تم خوش ہو جاؤ اس جنت سے جس کا تم وعدہ دیے جاتے تھے۔ ہم تمہارے دوست ہیں دنیاوی زندگی میں اور آخرت میں (بھی)اور تمہارے لیے اس میں (وہ کچھ ہے) جو چاہیں گے تمہارے دل ۔اور تمہارے لیے اس میں (وہ ہو گا ) جو تم مانگو گے(یہ)مہمانی ہے بہت بخشنے والے (رب) کی طرف سے (جو) انتہائی مہربان (رب ہے)‘‘۔
بعض لوگ استقامت کو معمولی عمل سمجھتے ہیں لیکن حقیقت بات یہ ہے کہ استقامت انسان کے کردار کی خوبصورت ترین جہت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بھی راہِ حق کا راہی بنائے اورحق بات پر استقامت کے ساتھ کاربند ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین