"AIZ" (space) message & send to 7575

سیرت النبیﷺ

خوش قسمتی سے گزشتہ 10 دنوں کے دوران مجھے ملک کے مختلف مقامات پر سیرت النبیﷺ کے عنوان پر منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور تقاریب میں شرکت کا موقع ملتا رہا۔ 23 نومبر کو چوک اعظم ضلع لیہ میں سیرت محسن انسانیت ﷺکے عنوان سے ایک بڑی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس کانفرنس کا اہتمام لیہ میںرہنے والے دوست زبیر شاہین اور ان کے رفقاء نے کیا تھا۔ کانفرنس میں ضلع بھر سے بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔ عشاء کی نماز کے بعد شروع ہونے والی یہ کانفرنس رات کے پچھلے پہر تک جاری رہی۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے لوگوں کا جوش اور جذبہ ہر اعتبار سے دیدنی تھا۔ 30نومبر کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ﷺکے زیر اہتمام راوی روڈ لاہور میں ایک بڑی ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں مفتی محمد حسن‘ مولانا اللہ وسایا اور دیگر احباب نے شرکت کی۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں خطاب کا موقع ملا۔ اس کانفرنس میں بھی عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ یکم دسمبر کو شرقپور میں مولانا احتشام الٰہی ظہیر اور مولانا عبیدا لرحمن نے ایک بڑی کانفرنس کاانعقاد کیا‘ جس سے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر ‘ معروف عالم دین مولانا عمر صدیق‘ مولانا حافظ عبدالباسط شیخوپوری اور دیگر احباب نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں عوام کی ایک کثیر تعداد نے بڑے جوش وجذبے کے ساتھ شرکت کی‘ اسی رات کو ضلع شیخوپورہ کے علاقے فیروز وٹواں میں ایک بڑی سیرت النبیﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ‘جس کا اہتمام برطانیہ میں مقیم معروف عالم دین مولانا شریف اللہ شاہد کے بھائی اور رفقاء نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں بھی ضلع بھر سے عوام نے شرکت کی۔ کانفرنس سے مولانا عبدالمنان راسخ‘ حافظ عبدالباسط شیخوپوری اور دیگر خطباء نے خطاب کیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ سیرت کے عنوان پر ہونے والی تمام کانفرنسیں اس اعتبار سے کامیاب تھیں کہ عوام ہمہ تن گوش تھے اور سیرت کے عنوان پر خطباء کے بیانات اور خطابات کو سننے کے لیے بیتاب تھے۔ ان تمام سیرت کانفرنسوں میں شرکت کرنے کے دوران اور اُس کے بعد ایک مرتبہ پھر سوچ وفکر کو جلا ملی اور حسب ِسابق شرح صدر حاصل ہوا کہ یقینا تاریخ انسانیت میں جو محبت ‘ کشش‘ عقیدت‘ احترام اور وابستگی اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی ذات سے انسانوں کو عطا کی ہے‘ وہ کسی اور ذات کو حاصل نہیں ہوئی ‘بلکہ حقیقت تو یہ ہے اس درجے کی وابستگی اور عقیدت کا کسی اور ذات کے ساتھ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام کانفرنسوں میں سیرت النبیﷺ کے حوالے سے میں نے مختلف نکات کو بیان کیا‘ جن کے خلاصے کو میں کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:۔ 
نبی کریم ﷺ کی ذات کائنات میں ایک ایسی ذات ہے کہ جن کی آمد سے قبل بھی ان کے ہم پلہ کوئی شخصیت کائنات میں جلوہ گر نہ ہوئی اور ان کی آمد کے بعد بھی اس بات کا معمولی سا امکان باقی نہیں رہا کہ کائنات میں کوئی ایسی شخصیت جلوہ گر ہو جو شخصیت کے کسی بھی پہلو سے آپﷺ کے ہم پلہ ہو سکے۔نبی کریمﷺ کی عظمت کا اعتراف اکابرین اُمت نے ہر عہد اور زمانے میں کیا۔ سیرت نگارنبی کریمﷺ کی سیرت کے خوبصورت اوراق کو جمع کرتے رہے۔ محدثین کرام آپ کے ارشادات‘ معمولات ‘ سنن اور تقاریر کو جمع کرتے رہے۔ شاعر آپﷺ کی ذات کے بارے میں نعتیہ کلام کو تحریر کرتے رہے۔ خطیب آپﷺ کی سیرت کے تذکروں کو اپنے خطبات کا موضوع بناتے رہے ‘ مسلمان آئمہ اور سیاسی رہنما آپﷺ کے عطا کردہ نظام کے غلبے کی جستجو کرتے رہے اور انسانیت آپ ﷺ کے نقش قدم پر چل کے زندگی کی منازل کو طے کرنے کی کوششیں کرتی رہی۔ یہ حقیقت ہے کہ روئے زمین پر مختلف ادوار میں مختلف طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں‘ لیکن نبی کریم ﷺ کی تعلیمات نے دنیا میں جو انقلاب پیدا کیا۔ اس ہمہ گیر انقلاب کا آپﷺ کی آمد سے قبل اور آپ کی تشریف آوری کے بعد تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آپﷺ نے انسانی زندگی کے ہر پہلو میں ایک انقلاب پیدا کیا اور لوگوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ صحیح معنوں میں سمجھا دیا۔ نبی کریمﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺکے عطا کردہ نظام کے جب انسانی زندگی پر غیر معمولی اثرات کا جائزہ لیا جائے ‘تو زندگی کے مختلف شعبوں میں آپﷺ کی سیرت کے اثرات کچھ یوں نظر آتے ہیں:۔
(الف) عقائد کی اصلاح: نبی کریمﷺ کی عطاکردہ تعلیمات کی وجہ سے عقائد میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا اور وہ لوگ جو بتوں اوراجرام سماویہ کی پوجا کرنے والے تھے‘ ایک اللہ کے آستانے پر جھکنے والے بن گئے۔ نبی کریم ﷺ نے مسیحی دنیا کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوجا کی بجائے اللہ کی وحدانیت کا درس دیا۔ یہود کو حضرت عزیر علیہ السلام اور اپنے علماء کی بندگی کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے آستانے پر جھکنے کی تلقین کی اورمظاہر فطرت کے پجاریوں کو شمس وقمر‘ شجر وحجر کی پرستش کی بجائے ایک اللہ کی بندگی کا درس دیا؛ چنانچہ توحید خالص کا تصور انسانوں میں کچھ اس اندا ز میں راسخ ہوا کہ لوگ توہمات کی کی دنیا سے نکل کر اللہ وحد ہ لاشریک لہ‘ کے پجاری بن گئے۔نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام اور آپ کے تلامذہ نے دعوت ِ توحید کو دنیا کے ہر کنارے تک پہنچا دیا اور بداعتقادی کی ہر قسم کو دلائل اور براہین سے مسترد کر دیا۔
(ب)سماج کی اصلاح: نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے ‘ عورت کی تحقیر کی جاتی تھی‘ غلاموں‘ ماتحتوں اور کمزوروںکے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا‘ سرے عام جوا کھیلا جاتا تھا‘ حسب ونسب پر فخر کیا جاتا تھا‘ معمولی معمولی باتوں پر بڑے بڑے تنازعات کھڑے ہو جاتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے معاشرے میں بیٹی کی شرف اور عزت کو بحال کیا‘ عورت کو اس کا کھویا ہوا مقام دلایا‘ اس کو سامان ِ لذت سمجھنے والوں کو یہ سمجھایا کہ عورت ماں ‘ بہن‘ بیوی اوربیٹی کی حیثیت سے قابل احترام ہے اور اس کی عزت اور عصمت کو غلط نگاہوں سے محفوظ کرنے کے لیے اس کو حجاب اور پردے میں ملبوس کر دیا۔ علاوہ ازیں منشیات میں دھت رہنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کا خوگر بنا دیا اور ایک دوسرے سے خواہ مخواہ تنازعات میں الجھنے والوں کو ایثار اور قربانی کے راستے پر چلا دیا۔ لوگوں میں باہمی تعصبات اور نفرتوں کو ختم کرکے ان کو اس انداز میں رشتہ اخوت میں پرو دیا کہ لوگ دین کی بنیاد پر ایک دوسرے سے اس طرح محبت کرنے لگے ۔گویا‘ وہ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے ہوں۔
(ج)سیاسیات کی اصلاح: عرب کے رہنے والے لوگ قبائل میں تقسیم تھے اور ہر قبیلہ اپنی انانیت اور وقار کو اس حد تک مقدم رکھتا کہ معمولی تنازعے کی صورت میں دوسرے قبیلے کی عزت واحترام تو درکنار اس کی شناخت اور وجود کو بھی مٹانے پر آمادہ وتیار ہو جاتا۔ نبی کریمﷺ نے تمام اہل عرب کو اللہ کی وحدانیت پر مجتمع کیا اور ایک ایسے سیاسی نظام کی بنیاد رکھی‘ جس میں رعایاکی خبر گیری کے ساتھ ساتھ ان کو اسلامی سلطنت کے تحفظ کا سبق دیا اور حدود اللہ کے نفاذ کے ذریعے معاشرے کو فواحش‘ منکرات اور جرائم سے پاک کردیا۔ نبی کریم ﷺ کے سیاسی انقلاب کو دیکھ کر ہی مائیکل ہارٹ یہ کہنے پر مجبور ہوا کیا: ''آپﷺ کائنات کی وہ واحد ہستی ہیں‘ جو دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی امور میں بھی ہر لحاظ سے کامیاب تھے‘‘۔ 
آج بھی دنیا اگر فلاح کا راستہ چاہتی ہے تو عقائد ‘ سماج‘ سیاسیات ‘ اخلاق اور اعمال صالحہ کے حوالے سے ہمیں آپ ﷺ ہی کی شخصیت اور تعلیمات سے وابستہ ہونا گا‘ اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا ہم مثالی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے اور دنیا اور آخرت کی سربلندی ہمارا مقدر بن جائے گی ۔ آپ کے اسوہ سے انحراف کرکے ہم کبھی بھی دنیا میں سیدھے راستے اور آخرت میں جنت کو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں سیرت نبوی ﷺ سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمادے۔ (آمین )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں