"AIZ" (space) message & send to 7575

بعض اہم واقعات

گزشتہ چند دنوں کے دوران بہت سے ایسے واقعات رونماہوئے ‘جنہوں نے پوری قوم کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروالیا اور معاشرے کے تمام طبقات ان امور کے حوالے سے مختلف مقامات پر اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے رہے۔ ان واقعات کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ وکلاء اور ڈاکٹروں کا باہمی ٹکراؤ: کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے معاشرے کے مختلف طبقات اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک کی ترقی اور استحکام میں نمایاں کردار ادا کرنے والے طبقات میں ڈاکٹر اور وکلاء غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر علاج معالجہ اور صحت سے متعلقہ معاملات کو حل کرنے کے لیے اپنی خدمات کو پیش کرتے ہیں ‘جبکہ وکلاء قانونی مسائل حل کرنے کے لیے اپنی خدمات کو انجام دیتے ہیں۔چند روز قبل معمولی تنازع پر ملک کے یہ دو طبقات آپس میں دست وگریبان ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ لاہور کے ایک بڑے ہسپتال کے امراض قلب کے مرکز پر دھاوا بول دیا گیا‘ جس کی وجہ سے بعض مریض جاں بحق بھی ہو گئے۔ اس سانحے کی وجہ سے پورے ملک میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی اور یوں محسوس ہوا کہ ہم لسانی اور علاقائی تعصبات کے ساتھ ساتھ پیشہ وارانہ تعصبات کا بھی شکار ہو چکے ہیں۔ کسی بھی پیشے سے وابستہ کسی شخص کے غیر ذمہ دار رویے پر اس طبقے یا پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس سے لاتعلقی کا اظہار کر دینا چاہیے‘ لیکن یوں محسوس ہوا کہ ہم اپنے ہم پیشہ فرد کی غلطی کو تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں‘ اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کسی ایک فرد کے منفی رویے پر پورے طبقے کو طعن کیا جاتا ہے اور کسی ایک فرد کی توہین کو پورے طبقے کی توہین سمجھ لیا جاتا ہے۔پیشہ ورانہ تعصب اور جانبداری ایک معاشرتی المیہ بن چکاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ برے اور اچھے لوگ ہر پیشے سے وابستہ ہوتے ہیں۔ حد سے بڑی ہوئی انانیت اور جذبہ انتقام معاشرے میںبگاڑ کو پیدا کرتا ہے۔ اس معاشرتی بگاڑ سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہمیں عاجزی ‘ انکساری ‘صبر وتحمل اور بردباری کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں اسلامی تعلیمات سے وابستگی بھی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ اگر ہم تحمل اور بردباری کا درس حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں نبی کریم ﷺ کی سیرت سے وابستگی کو اختیار کرنا ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپﷺ نے تکالیف‘ اذیتوں اور مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور طائف کی وادی میں ظلم وستم کی انتہا کرنے والوں کو بھی بددعا دینے کی بجائے ہدایت کی دعاد ی۔ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون کی عملداری بھی ضروری ہے۔ بعض مصدقہ ذرائع کے مطابق‘ اس اشتعال انگیزی کو فروغ دینے اور پولیس کی گاڑی کو جلانے والو ں میں ایسے عنصر بھی شامل ہیں ‘جن کا خاندانی تعلق ملک کی اہم ترین شخصیت کے ساتھ ہے۔ اگر ملک میں قانون کی علمداری ہو تو اس قسم کے عناصر کا اچھے طریقے سے احتساب کیا جا سکتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں جب بنو مخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی اور اسامہ ابن زید ؓ سفارش لے کر آئے تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔
2۔اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں تصادم : وکلاء او ر ڈاکٹروں کے ٹکراؤ کے ساتھ ساتھ گزشتہ چند دنوں کے دوران جو الم ناک اور دردناک خبر سننے کو ملی‘ وہ طلبہ کا باہمی تصادم تھا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں لسانی بنیادوں پر کام کرنے والی ایک تنظیم کے ملک کی ایک معروف طلبہ تنظیم پر حملے کے نتیجے میں ایک طالبعلم جاں بحق بھی ہو گیا اور متعدد طلبا زخمی ہوئے۔ اس قسم کے واقعات ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں۔ طلبا کا بنیادی کام تعلیم کو حاصل کرنا ہے۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا بھی طلبا کا استحقاق ہے۔ طالبعلم‘ اگر صحت مند غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد اور اہتمام کرتے ہیں تو ان سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے‘ لیکن بعض عناصر حسد‘ نفرت اور تشدد کی سیاست کو فروغ دیتے ہوئے کسی دوسرے گروہ کو برداشت کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہوتے۔ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور ان کی بیخ کنی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
3۔ ہندوستان میں قانون شہریت میں تبدیلی: 14اگست 1947ء کو قیام پاکستان کے وقت پاکستان اسلامی جمہوری ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا اور ہندوستان نے اپنے آپ کو بظاہر سیکولر ملک کے طو ر پر متعارف کروایا۔ گو کانگریس کے دور میں بھی مسلمان معاشرے میں مساوی حقوق کو حاصل نہ سکے‘ لیکن بی جے پی کے سیاست میں بڑھتے ہوئے اثرات نے سیکولر ہندوستان کو انتہا پسند ہندوستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ مودی کا ماضی ہر اعتبار سے تشدد اور نفرت کی سیاست سے وابستہ ہے۔ گجرات میں مسلمان کا قتل عام‘ بین الاقوامی شہرت یافتہ داعی ڈاکٹر ذاکر نائیک کی ملک بدری اور کشمیر کی تین حصوں میں تقسیم پہلے ہی مسلمانوں کے لیے باعث تشویش تھی‘ لیکن حالیہ دنوں میں ہونے والی قانون شہریت میں تبدیلی دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے لمحہ ٔ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں بنگلادیش ‘ افغانستان اور پاکستان سے 31 دسمبر2014ء سے قبل غیر قانونی طور پر ہندوستان میں نقل مکانی کرنے والے ہندوؤں ‘ سکھوں‘ عیسائیوں ‘ بدھ مذہب اور جین مت کے پیروکار وں کو غیر مشروط طور پر ہندوستان کی شہریت دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں ‘جبکہ نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کو اس قانون کے فوائد سے محروم رکھا جا ر ہا ہے۔ 10 دسمبر کو یہ قانون لوک سبھا سے پاس ہوا اور 11 دسمبر کو راجیہ سبھا نے بھی اس قانون کو پاس کر دیا۔ 12 دسمبر کو ہندوستان کے صدر کے دستخطوں کے بعد یہ قانون ہندوستا ن کے آئین کا حصہ بن چکا ہے ۔مودی کے یہ متشددانہ اور متعصبانہ اقدامات ہر اعتبار سے قابل مذمت ہیں اور جہاں پر عالمی سطح پر انصاف کی علمبردار ریاستوں اور حقوق انسانی پر کام کرنے والی انجمنوں کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہیں پر پاکستان کو بھی ا س متعصبانہ اور نفرت انگیز قدم کی بھر پور انداز میں مذمت کرنی چاہیے اور دنیا کو یہ بات بتلانی چاہیے کہ ہندوستان کہنے کو سیکولر ہے‘ لیکن حقیقت میں انتہا پسندی کے راستے پر گامزن ہے۔ ہندوستان پر عالمی سطح پر ایسا دباؤ ڈلوانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جس کے نتیجے میں ہندوستان میں انسانیت کش اور مسلم کش قوانین کو واپس لیا جا سکے۔ 
4۔ الطاف حسین کی ہندوستان نوازی : گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے واقعات میں سے ایک المناک واقعہ الطاف حسین کی ہندوستانی میڈیا کے ساتھ ہندو نواز اور پاکستان دشمن گفتگو بھی تھی۔اس گفتگو میں انہوں نے پاکستان کیخلاف اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی ۔ الطاف حسین کی اس گفتگو کا ملک کے مقتدر رہنماؤں اور اداروں کو نوٹس لینا چاہیے اور ان کے منفی عزائم اور منصوبوں کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوششیں کرنی چاہئیں۔ 
5۔بحریہ کے سربراہ کی خوبصورت تقریر: متذکرہ المناک واقعات کے ساتھ ساتھ ایک خوش آئند خبر جس نے قوم کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی وہ بحریہ کے سربراہ ایڈمر ل ظفر محمود عباسی کا ایک تقریب کے ساتھ خوبصورت خطاب ہے۔ اس خطاب میں بحریہ کے سربراہ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حوالے سے پاکستان کی مرکزی حیثیت کا ذکر کیا اور ساتھ ہی نوجوانوں کو اس بات کی ترغیب دی کہ انہیں مغربی تہذیب سے متاثر ہونے کی بجائے اپنا رول ماڈل دور ِ عروج کے مسلمان مشاہیر کو بنانا چاہیے ۔ انہوں نے اس موقع پر علامہ اقبالؔ کے ان اشعار کو بھی پڑا: ؎ 
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر 
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی 
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار 
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری 
ایڈمرل صاحب کی اس تقریر پر اسلام اور ملک وملت سے محبت کرنیوالے عناصر نے اطمینان کو محسوس کیا اور اس بات کی توقع پیدا ہوئی کہ یقینا وہ دن ضرور آئے گاجب پاکستان عالم اسلام کی قیادت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے نمایاں اور کلیدی کردار ادا کرے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں