قوموں کی زندگی میں بعض ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں‘ جن کو مدت مدید تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی تاریخ میں بھی 16دسمبر1971ء کوایک ایسا سانحہ ہوا‘ جس کی کربناکی اور تلخی آج بھی مسلمانانِ ملت کے دل ودماغ میں موجود ہے۔سقوط مشرقی پاکستان تاریخ پاکستان کا المناک ترین واقعہ ہے اور اگر عالم اسلام کی تاریخ کی بات کی جائے تو سقوط بغداد اور سقوط بیت المقدس کے بعد کوئی بھی سانحہ اس کی چبھن اور دردناکی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سقوط بغداد کے نتیجے میں مسلمانوں کی عظیم الشان خلافت کو زبردست دھچکا پہنچا۔ اسی طرح سقوط بیت المقدس کے نتیجے میں مسلمان انبیاء علیہم السلام کی عظیم الشان مسجد سے محروم ہو گئے۔ وہ مسجد کہ جس کی بازیابی کے لیے حضرت عمر فاروق ؓ اور صلاح الدین ایوبی ؒ نے زبردست جدوجہد کی تھی‘ اس مسجد کا پنجہ ٔ یہود میں چلا جانا یقینا اسلامیان عالم کے لیے انتہائی درد اور تکلیف کا باعث ہے۔
16 دسمبر 1971ء کا واقعہ بھی تاریخ اسلام کا انتہائی دلدوز واقعہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہمارا وطن ہے اور اس کے حصول کے لیے حضرت محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبال‘ مولانا محمد علی جوہر ‘ مولانا ظفر علی خاں اور ان کے ہمراہ دیگر علمائے کرام اور اکابرین امت نے مسلمانوں کی بیداری کے لیے بڑی طویل جدوجہد کی تھی اور اس کے حصول کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ہجرتوں کو کیا گیا‘ بوڑھوں کی ڈاڑھیوں کو لہو میں ڈبویا گیا‘ نوجوانوں کے سینوں میں سنگینوں کو اتارا گیا‘ ماؤں‘ بہنوںاور بیٹیوںکی عصمتوں کو پامال کیا گیا اور معصوم بچوں کو تہہ وتیغ کیا گیا۔ اس کے باوجود بھی پاکستان اور برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمان انتہائی خوش تھے کہ ان قربانیوں کے بعد مسلمانوں کو ایک محفوظ پناہ گاہ حاصل ہو گئی ہے۔
وطن عزیز پاکستان کے حصول کے لیے جہاں پر پنجاب‘ بلوچستان ‘ سندھ اور خیبر پختونخوا میں بسنے والے مسلمانوں نے زبردست تحریک کو چلایا‘ وہیں پر بنگال میں بسنے والے مسلمانوں نے بھی اپنی بساط اور حیثیت کے مطابق ‘اس تحریک میں بڑھ چڑھ کے اپنا حصہ ڈالا تھا۔ دو قومی نظریے کی حمایت جس طرح مغربی پاکستان میںموجود تھی ‘اسی طرح مشرقی پاکستان میں بسنے والے لوگ بھی دو قومی نظریے سے محبت کرنے والے تھے‘ اگر تاریخ ِپاکستان کا مطالعہ کیا جائے ‘تویہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ 23 مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کو پڑھنے والے مولوی اے ‘کے فضل حق کاتعلق بھی بنگال کے ساتھ تھا۔ بنگال مسلمانوں کا اکثریتی علاقہ تھا اور اس نے تحریک ِپاکستان کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔
دو قومی نظریے نے مسلم قومیت کے تصور کو اس انداز میں اجاگر کیا کہ علاقائی‘ لسانی اور صوبائی تعصبات کے اجاگر ہونے کے امکانات تقریباً معدوم ہو گئے‘ لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بعض ناعاقبت اندیش اور موقع پرست سیاستدانوں نے مذہب اور ریاست کے باہمی تعلق کو درست تصور نہ کیا اور پاکستان کو ایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ کسی بھی قومی ریاست میں زبان یا نسل کی وحدت کا پایا جانا ضروری ہے‘ جبکہ پاکستان ایک کثیرالاقومی ریاست ہے اور اس میں مسلمانوں کے درمیان نکتۂ اتحاد اور اشتراک فقط مسلمانوں کا مذہب ہے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت ‘ نبی کریم ﷺ کی ختم نبوت ‘ قرآن مجید کے دستور ہونے اور بیت اللہ شریف کی جہت ہونے پر پوری قوم کا یکجا رکھناکچھ مشکل نہیں تھا‘ لیکن بدنصیبی سے اس نظریاتی ریاست میں بعض قوم پرست رہنماؤں نے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لیے بنگالی‘ غیر بنگالی‘ مشرقی اور مغربی کے نعرے کو فروغ دیا اور ایک ایسا ماحول پیدا کیا‘ جس کے نتیجے میں قوم پرست بنگالیوں کو اس بات کا احساس دلایاگیا کہ متحدہ پاکستان میں ان کے حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ اس خلیج کو پاٹنے اور اس اختلاف کو کم کرنے کے لیے ریاستی ‘ سیاسی اور مذہبی سطح پر منظم اور مربوط کوششوں کی ضرورت تھی‘ لیکن دکھ کا مقام یہ ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی رہنماؤں نے مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والے احساس محرومی کے ازالے کے لیے موثر کردار ادا نہیں کیا۔
بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ نہ دینے کی بنیاد پر تحریک چلانے والے بنگالی قوم پرست چھوٹی چھوٹی رنجشوں اور غلط فہمیوں کو ہوا دینے میں کامیاب ہوتے چلے گئے اور اس تاثر کو اس وقت بہت زیادہ تقویت ملی‘ جس وقت 1970 ء کے انتخابات میں عوامی لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی ‘لیکن ان کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے بعض عناصر نے اقتدار پر براجمان ہونے کے لیے اِدھر ہم اور اُدھرتم کے نعرے کولگایا ‘جس کی وجہ سے بنگال میں ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لیے ایک منظم تحریک کو چلانے کی راہیں ہموار ہو گئیں۔اس نازک صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے دشمنوں نے اس تحریک کی مکمل پشت پناہی کی۔
چونکہ ہندوستان پاکستان کے وجود کو کسی بھی طور پر گوارا کرنے کے لیے تیار نہ تھا‘ اس لیے اس نے بھی اس موقع کا بھرپورطریقے سے فائدہ اُٹھایا اور سیاسی محرومی کے نتیجے میںپیدا ہونے والی قوم پرستی کے جذبات کو بھرپور انداز میں بھڑکایا اور علیحدہ وطن کے لیے چلنے والی اس تحریک کوکامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے حالات کو سازگار دیکھتے ہوئے ہندوستان نے باقاعدہ طور پر فوجی مداخلت بھی کی۔ اس فوجی مداخلت کی روک تھام کے لیے پاکستان نے اپنی بساط کے مطابق بھرپورکردار ادا کرنے کی کوشش کی‘ لیکن یہ کوشش بنگالی عوام کی تائید نہ ہونے کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکی۔ بنگال میں بسنے والے مذہبی رہنما اور مغربی پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے ا س موقع پر وطن کو متحد رکھنے کی عوامی سطح پر پوری کوشش کی‘ لیکن قوم پرست طاقتیں اور ان کی بھڑکائی ہوئی آگ مذہبی جذبات اور کوششوں پرغالب آگئیں اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ بعدازاں بنگلہ دیش ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ گو پاکستان کے محب وطن اور دین پسند رہنماؤں نے بنگلہ دیش نہ منظور تحریک کو چلانے کی کوشش کی‘ لیکن اس کے باوجود پاکستان دوبارہ یکجا نہ ہو سکا۔
بنگلہ دیش کے قیام کے بعد قیام امن کے لیے شملہ معاہدہ کیا گیا اور اس معاہدے میں بھارت‘ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان یہ بات طے کر لی گئی تھی کہ سقوط ڈھاکہ کے دوران ہونے والے واقعات کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے کے وجود کو قبول کیا جائے گا‘ لیکن 48 برس کا عرصہ گزر جانے کے باوجودپاکستان کے ہمنوا مذہبی رہنماؤں کو تاحال انتقام کا نشانہ بنایاجا رہا ہے۔
پروفیسر مطیع الرحمن نظامی‘ پروفیسر اعظم‘ ملاعبدالقادر اور جماعت اسلامی کے بہت سے نمایاں رہنماحسینہ واجد کے ظلم‘ تشدد اور انتقام کا نشانہ بن چکے ہیں اور آج تک بھی پاکستان اور دو قومی نظریے سے وابستگی رکھنے والے رہنماؤں کے لیے معافی کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور آئے دن ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کرکے ان کو ذہنی اذیتیں اور جسمانی تکالیف دی جاتی ہیں۔
سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ انتہائی دلدوز اور کربناک تھا ‘لیکن افسوس کی بات یہ ہے‘ اس سانحے کے اسباب کو مد نظر رکھتے ہوئے تاحال وہ کمزوریاں دور نہیں کی جا سکیں کہ جن کی وجہ سے ہمیں 48 برس قبل اس المناک سانحے کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت بھی قوم پرستی کا ناسور اپنے پورے عروج پر نظر آتاہے اور حالیہ دنوں میں ہونے والے ڈاکٹر وں اور وکلاء کے تصادم نے ملک میں طبقاتی اور پیشہ وارانہ کشمکش کی تلخی کو واضح کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم غور کریںتو تاحال پاکستان کو عملی طور پر اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے ویژن کے مطابق‘ اقدامات نہیں کیے جا سکے۔ گو ملک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز بعض اہم شخصیات کئی مرتبہ نفاذ اسلام کی اہمیت کو اجاگرکرتی رہتی ہیں‘ لیکن ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے کوئی عملی پیش قدمی نہیں کی اور اس بات کو اپنے منشور میں فقط دینی سیاسی جماعتوں نے ہی جگہ دے رکھی ہے۔ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے بھی 1970 ء سے لے کر اب ‘تک کئی مرتبہ مختلف طرح کی تحریکیں چل چکی ہیں ۔ 1977ء میں چلنے والی تحریک کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو نا صرف اقتدار سے محروم ہوئے ‘بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے‘ اسی طرح 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ایک لمبی تحریک چلائی۔
2018ء کے انتخابات کے بارے میں بھی مختلف طبقات کی طرف طرح طرح کے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانافضل الرحمن اس حوالے سے ایک دھرنے کا انعقاد کر چکے ہیں۔ انتخابی عمل کو شفاف اور بے داغ بنانا ریاستی اداروں اور حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے‘ تاکہ مستقبل میں سیاسی حوالے سے پائی جانے والے کشمکش پر قابو پایا جا سکے اور پاکستان کو سیاسی بحرانوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔