اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں ارشا د فرمایا '' اور تم سب مضبوطی سے اللہ کی رسی کو تھام لو اورتفرقے میں نہ پڑو۔ ‘‘ قرآن مجید اور احادیث طیبہ کا مطالعہ کرنے اور ان پر غور وغوض کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام نے ہمیشہ فرقہ واریت کی مذمت کی اور مل جل کر اُمت واحدہ کی شکل میں رہنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ بدنصیبی سے تعصبات ‘جہالت‘ تنگ نظری ‘انتہا پسندی اور شخصیت پرستی کے سبب اُمت فرقوں میں بٹتی رہی ہے اور نتیجتاً اسلام کا وہ افاقی پیغام جو دنیا وی اور اخروی فلاح کا ضامن تھا ‘فرقہ واریت کے نشتر کے سبب متاثر ہوتا رہا۔ ہر دور میں علمائے حق اس بات کی کوششیں کرتے رہے کہ فرقہ واریت کو تحلیل کیا جائے اور اُمت کو کتاب وسنت پر جمع کیا جائے۔ دلیل کی بنیاد پر اختلاف رائے کا ہوجانا کسی بھی اعتبار سے مذموم نہیں‘ لیکن بلا دلیل کسی بات پر ڈٹے رہنا اور اسی کو حرف ِآخر سمجھ کرمخالف رائے کے حاملین کو گمراہ اور حقیر جاننا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ۔
بسا اوقات فرقہ وارانہ ذہنیت کے حامل افراد معاشرے کو تکفیر اور تشدد کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں اور باہمی اختلاف کو دلائل اور کتاب وسنت کی روشنی میں حل کرنے کی بجائے فتویٰ بازی کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے عناصر اُمت کے اتفاق کو پارہ پارہ کردیتے اور مسلمان اُمت کو درپیش مسائل کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہ عناصر کفار کے ہاتھوں اُمت مسلمہ پر ہونے والے ظلم و تشدد کو بھی کفر واسلام کی جنگ سمجھنے کی بجائے فرقہ وارانہ تعصب کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں بہت سے ایسے اکابر اور جید علمائے کرام گزرے‘ جنہوں نے مسالک کے مابین اختلافات کی تحلیل میں نمایاں کردار ادا کیا اور اُمت کے مابین اختلافی مسائل کے پائے جانے کے باوجود ان کو مشترکہ نکات پر جمع ہونے کی دعوت دی۔31 علماء کے 22 نکات اس حوالے سے کلیدی اہمیت کے حامل ہیں۔ 31 علماء کے 22 نکات کے بعد بھی اُمت کے مابین اتفاق کو قائم کرنے اور اختلافات کو احسن انداز میں حل کرنے کی کوششیں جاری وساری رہیں۔ قاضی حسین احمد مرحوم کی سربراہی میں ملی یکجہتی کونسل نے بھی اس حوالے سے نمایاں اور مؤثر کردار ادا کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے اس امرپر اتفاق کیا کہ مقدسات اُمت ‘یعنی خلفاء راشدین‘ اُمہات المومنین‘ اہلبیت عظام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے احترام میں کسی بھی قسم کی کمی اور کوتاہی کو گوارہ نہیں کیا جائے گا۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم سے اس بات کو طے کیا گیا کہ صحابہ کرام کی تنقیص حرام اور ان کا تکفیر کفر ہے ۔ اس بات پر اتفاق کر لینے کے بعد کسی بھی فرقے کو دوسرے فرقے کی تکفیر کرنے کی بجائے اختلاف کو دلائل کی روشنی میں کرنا ہوگا۔
چند روزقبل مجھ سے گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ کے شعبہ علومیہ کے سربراہ ڈاکٹر اختر حسین عزمی نے رابطہ کیا۔ آپ جامعہ بیت العتیق میں نماز عشاء کے وقت تشریف لائے اور نماز کے بعد آپ نے اپنی کتاب ''آداب ِاختلاف ‘‘کو میرے سامنے رکھا اور اس کتاب کی تقریب رونما ئی میں شرکت کی دعوت دی۔ ڈاکٹر اختر حسین عزمی کی کتاب کی رونمائی ان ایام میں ہو رہی تھی‘ جب میں سعودی عرب کے دورے پر تھا؛ چنانچہ میں اس کتاب کی تقریب رونمائی میں شریک نہ ہو سکا‘ تاہم اخبارات اور جرائد کے ذریعے اس بات کا علم ہوا کہ تقریب رونمائی میںملک کے نامور اہل علم‘ دانشوروں اور صحافیوں نے شرکت کی تھی اور اپنے اپنے انداز میں اس کتاب کے مندرجات پر اپنے خوبصورت خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس سے قبل بھی اس کتاب پر مولانا ارشاد الحق اثری‘ مولانا زاہد الراشدی‘ ڈاکٹر مفتی یوسف خان‘ مفتی محمد خان قادری اور دیگر بہت سے اہل علم اپنی اراء کا اظہار کر چکے ہیں۔ آداب ِاختلاف کے حوالے سے ملک کے ممتاز شیخ الحدیث مولانا ارشاد الحق اثری نے ان خیالات کا اظہار کیا کہ اختلافات اور انتشار کی ہر دور میں اہل علم نے مذمت کی ہے اور اُمت کے مابین فروعی مسائل میں تطبیق و توفیق کی کوشش کی ‘لیکن اس کے باوجود یہ طوفان تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ اس پر تیل ڈالنے والے بھی رہے اور اس کو سرد کرنے والوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ یہی خدمت ہمارے مہربان دوست محترم ڈاکٹر اختر حسین عزمی نے انجام دی؛ چنانچہ ''آدابِ اختلاف ‘‘کے عنوان سے انہوں نے بے حد مفید کتاب لکھی اور درددل سے فرمایا کہ حضرات یہ اختلاف تو ختم نہیں ہو سکتے ‘لیکن اختلاف کا بھی کوئی ادب وقرینہ ہوتا ہے۔ اپنے اسلاف کو دیکھو‘ وہ ان اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوئے‘ آپ آپے سے کیوں باہر ہو رہے ہیں؟ اسی قسم کے جذبات کا اظہار دیگر اہل علم نے بھی کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین عزمی صاحب کی کتاب کے مندرجات کو دیکھنے کے بعد میں نے بھی اس بات کا ارادہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کی اس علمی کاوش کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو قارئین کے سامنے رکھا جائے۔
کتاب ''آدابِ اختلاف‘‘496 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کے 6 ابواب ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب میں اختلافات اُمت کے اسباب پر بڑے ہی احسن اور مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے اور غیر علمی پرتشدد اختلافات کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات کہی ہے کہ ان اختلافات کے نتیجے میں اُمت اپنی اصل سے ہٹ جاتی ہے اور یہ اختلافات آخرت میں رو سیاہی کا سبب ہوں گے اور آخرت سے قبل یقینا یہ دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک شکل ہیں۔ ان غیر عملمی اختلافات نے ملی وقار کا خاتمہ کر دیا ہے اور فرقہ وارانہ تشدد کے سبب اُمت کے بعض حصے کافروں اور ظالموں سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ اِن متشددانہ اختلافات کے نتیجے میں تخریبی سوچ جنم لیتی ہے‘ جس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کی تنقیص کرنے جیسے عزائم فروغ پاتے ہیں۔ ان پر تشدد اختلاف کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی علمائے کرام کے بے توقیری ہوتی ہے اور فرقہ پرست عناصر کے ساتھ ساتھ نا سمجھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد متعدل اور سمجھ دار علماء کی پگڑیاں اُچھالنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ غیر علمی اختلافات کے نتیجے میں ملت اور مذہب کے تصور سے بڑھ کر فرقہ واریت کا تصور منظر عام پر آتاہے اور نتیجتاً اُمت کے اجتماعی مفادات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اس کتاب میں اس بات کو بھی بیان کیا ہے کہ اُمت کے مابین اختلافات کا بڑا حصہ فروعی اختلافات پر مبنی ہے۔ اگر اختلافات اصولی نوعیت کے ہوں تو ان پر دلائل کی روشنی میں اصرار کرنا قابل فہم ہے‘ لیکن اس کے برعکس فروعی اختلافات کو اصولی دعوت کے مقابلے میں یکسر انداز نہ بھی کیا جائے توا ن پر غیر متشددانہ رویہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ علمائے اُمت کو دعوت کی بنیاد اصولوں پر رکھنی چاہیے اور اصولی مسائل میں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دینی ترجیحات کی رعایت رکھنا اور ان کو سمجھ کر بات کرنااہل علم کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے۔ چھوٹے اختلافات کو بڑے مصالح کی خاطر کم اہمیت دینا سمجھ دار علماء کا شیوہ ہے۔ ڈاکٹر اختر حسین عزمی کے نزدیک اُمت کو مناظرے نہیں‘ بلکہ مذاکرے کی ضرورت ہے اور اگر اپنے مافی ضمیر کا اظہارکرنے کے دوران بات کرنے کا مناسب ڈھب اختیار کیاجائے اور الفاظ کے چناؤ میں غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے توا س کے نتیجے میں علمی رائے بھی سامنے آ جاتی ہے اورمعاشرے میں نفرت اور تشدد کی آبیاری بھی نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُمت کے علماء اور داعیوں کو فتنہ آرائی سے گریز کرتے ہوئے ‘دین اور ملت کے مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے اُمت کے اکابر علماء کے طرز عمل کا بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے اور بین المسالک اختلاف کی تلخی کو کم کرنے کیلئے اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ اگر ایک ہی مسلک کے علماء کے درمیان علمی آراء کو خندہ پیشانی سے قبول کیا جا سکتا ہے ‘تو دو مختلف مسالک کے علماء کے اختلافات پر غوروخوض کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ آپ نے اس ضمن میں امام مالکؒ ؒ‘ امام شافعیؒ‘ امام ابن تیمیہؒ‘ سلطان زنگیؒ‘ سلطان ایوبیؒ ‘ شاہ ولی اللہؒ ‘ شاہ عبدالعزیز ؒ اورمولانا داؤد غزنوی ؒجیسے علماء کے طرز ِعمل کا حوالہ بھی دیا ہے۔
ڈاکٹر اختر حسین عزمی کی کتاب کے مندرجات یقینا علمی افادیت کے حامل ہیں۔ گو‘ ان کے استدلال اور بیان کردہ موقف سے کئی مقامات پر علمی اختلاف کی گنجائش رہتی ہے‘ لیکن اس کے باوجود اس دردمندی کا انکار ممکن نہیں کہ جس کے ساتھ ڈاکٹر اختر حسین نے اس کتاب کو تحریرکیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام جید اور سمجھ دار علماء کو دلائل‘ اعتدال اور حقیقت پسندی کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)