کسی بھی معاشرے میں بسنے والے لوگ خواہ کتنے ہی تجدد پسند کیوں نہ ہوں‘ مردوزن کے ناجائز تعلقات کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان تعلقات کو ٹیکنالوجی اور تہذیبی ترقی کے باوجو د کبھی بھی قبول نہیںکیا گیا۔ انسان کے صنفی جذبات کی تکمیل کے لیے ہر دور میں نکاح ہی کے راستے کو پسند کیا گیا اور اس کے علاوہ کسی بھی راستے کو اختیار کرنے و الا شخص معاشرے میں اپنی شخصیت اور حیثیت کو کھو بیٹھتا ہے۔ معاشرے میں بسنے والے اوسط درجے کے لوگ بھی بے راہ روی کو پسند نہیں کرتے‘ لیکن طبقہ اشرافیہ ‘ سیاسی رہنما ‘ علما اور بیوروکریسی سے وابستہ افراد سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری کی زیادہ توقع کی جاتی ہے۔ جب بھی کبھی معاشرے میںبد اخلاقی اور بے راہ روی کے واقعہ میں معاشرے کا کوئی نمایاں شخص ملوث نظر آئے تو پورا معاشرہ اس کی کسک کو محسوس کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر زناکاری اوربے راہ روی کی مذمت کی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''اور تم مت قریب جاؤ زنا کے بے شک وہ بے حیائی ہے اور براراستہ ہے‘‘۔ آیت مذکورہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بدکرداری ہی کو نا پسند نہیں کرتے بلکہ اس کے قریب جانے کو بھی نا پسند فرماتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرمایا: '' کہہ دیجئے ‘ درحقیقت حرام کیا ہے میرے رب نے بے حیائی کی باتوں کو جو ظاہر ہیں ان میں سے اور جوچھپی ہوئی ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کتابِ حمید میں رشتوں کے چناؤ کے حوالے سے بھی اس بات کو واضح کیا ہے کہ انسان کو رشتوں کے چناؤ کے دوران پا ک دامن عورتوں کو چننا چاہیے ؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر5 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''آج حلال کر دی گئیں تمہارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا جو دیے گئے کتاب تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لیے حلال ہے اور پاک دامن مومن عورتیں (بھی حلال ہیں) اور پاک دامن عورتیں ان لوگوں میں سے جو کتاب دیے گئے تم سے پہلے (حلال ہیں) جب کہ تم دو انہیں ان کے مہر۔ (تم ) نکاح میںلانے والے ہو نہ کہ بدکاری کرنے والے اور نہ چھپے دوست بنانے والے‘‘۔ سورہ نساء میں بھی نکاح کے لیے پاک دامن عورتوں کو چننے کا حکم دیا گیا ہے کہ ایسی عورتیں نہ تو برائی کا ارتکاب کرنے والی ہوں اور نہ ہی کسی سے خفیہ شناسائی کو اختیار کرنے والی ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ہود میں بعض ایسی اقوام کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ ان اقوام میں سے ایک قوم لوط بھی تھی جس کی تباہی کی بنیادی وجہ جنسی بے راہ روی کاارتکاب تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس قوم کا ذکرسورہ ہود کی آیت نمبر 77 سے 83 تک میں یوں فرماتے ہیں: ''اور جب آئے ہمارے قاصد (فرشتے) لوط کے پاس وہ مغموم ہوا ان کی وجہ سے اور تنگ ہوا ان کی وجہ سے دل میں اور کہا: یہ دن بہت سخت ہے۔ اور آئے اس کے پاس اس کی قوم (کے لوگ) (گویا کہ ) وہ سختی سے ہانکے جا رہے تھے ‘اس کی طرف ۔اور پہلے سے ہی وہ برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا :اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں‘ وہ زیادہ پاکیزہ ہیں‘ تمہارے لیے تو اللہ سے ڈرو اور نہ رسوا کرو مجھے میرے مہمانوں میں۔ کیا نہیں ہے تم میں کوئی بھلا آدمی؟ انہوں نے کہا: بلاشبہ یقینا تو جان چکا ہے (کہ) نہیں ہے ہمارے لیے تیری (قوم کی) بیٹیوں میں کوئی حق (رغبت) اور بے شک تو یقینا جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ اس نے کہا: کاش ! واقعی ہوتی میرے لیے تمہارے مقابلے کی طاقت یا میں پناہ لیتا کسی مضبوط سہارے کی طرف۔ انہوں نے کہا: اے لوط! بے شک ہم قاصد ہیں‘ تیرے رب کے ہرگز نہیں وہ پہنچ سکیں گے آپ تک۔ سو لے چل اپنے گھروالوں کو رات کے کسی حصے میں اور نہ پیچھے مڑ کر دیکھے تم میں سے کوئی ایک سوائے تیری بیوی کے ‘ بے شک یہ (یقینی بات ہے کہ) پہنچنے والا ہے اسے (وہ عذاب) جو پہنچے گا انہیں۔ بے شک ان کے وعدے کا وقت صبح ہے کیا نہیں ہے صبح بالکل قریب؟ پھر جب آیا ہمارا حکم ہم نے کر دیا اس کے اوپر والے حصے کو اس کے نیچے والا اور ہم نے برسائے اس (بستی) پر پتھر کھنگر (کی قسم) سے تہہ بہ تہہ۔ (جو) نشان زدہ تھے‘ تیرے رب کے ہاں سے اور نہیں وہ ظالموں سے ہرگز دور ‘‘۔
قوم لوط کے اس واقعہ میں ہمارے لیے ایک سامان ِ عبرت ہے کہ ہم جنسی بے اعتدالیوں کے بارے میں جو نرم رویے کا اظہار کرتے ہیں‘ ہمیں اس کو ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے اور ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکموں سے انحراف کرنے والے اس طرزِ عمل کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اوراپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اس قسم کی قباحتوں سے بچانے کے لیے پوری کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید نے جہاں پر جنسی بے اعتدالیوں کی مذمت کی ہے وہیں پر ان تدابیر کو بھی بیان کیا ہے جن کو اختیار کرکے جنسی بے راہ روی سے بچا جا سکتا ہے۔ چند اہم تجاویز درج ذیل ہیں:
1۔ خشیت الٰہی: مادی کشمکش نے انسانوں کی اکثریت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بہت دور کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف سے بے نیاز ہو کر فقط اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مصروف ہیں ۔ نفسا نفسی کی اس کیفیت کی وجہ سے نہ تو لوگ مالِ حلال کمانے پر توجہ دیتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ معاشرے میں روحانی اقدار کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں منبرومحراب اپنا جو کردار ادا کر رہے ہیں‘ اس کے ساتھ پوری ریاست اور سماج کو ایمان باللہ اور خشیت الٰہی کی اہمیت کو صحیح طریقے سے پہچاننا چاہیے ‘تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہی کے احساس کی وجہ سے نفوس انسانی میں تزکیہ‘ پاکیزگی اور طہارت کی کیفیت پیدا ہو۔
2۔ ارکانِ اسلام کی ادائیگی: ارکانِ اسلام بالخصوص نماز کو صحیح طریقے سے قائم کرنے کی وجہ سے انسان فحاشی ‘ عریانی اور منکرات سے بہت دور چلا جاتا ہے۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 45میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‘‘۔ ہر نماز کو احسن طریقے سے ادا کرنے والا شخص جب کبھی نفسِ امارہ کی اکساہٹ کی زد میںآتا ہے تو اس کے ذہن میں یہ احساس بھی بیدا رہو جاتا ہے کہ میں اگلی نماز میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کس چہرے کو لے کر حاضر ہوں گا؛ چنانچہ وہ اپنی منفی خواہشات کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے احساس کے سبب دبا لیتا ہے اور نیکی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔
3۔ پردہ داری: اسلام نے معاشرے میں عفت اور عصمت کو برقرار رکھنے کے لیے پردہ داری کی اہمیت کو خصوصیت سے اجاگر کیا ہے؛ چنانچہ اس حوالے سے قرآن مجید میں محرم اور غیر محرم کے تصور کو بڑی وضاحت سے پیش کیا گیا۔ غیر محرموں سے میل ملاپ ‘ اختلاط اور بے تکلفی کی ممانعت کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان پردہ داری کو استوار کیا گیا۔
4۔ نکاح کو آسان بنانا: عصری معاشروں میں نکاح کو مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جہیز کی طلب اورشادی کے رسم و رواج کی وجہ سے نکاح کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگر ہر شخص کو اپنی معاشی اور سماجی حیثیت کی مطابق رشتہ میسر آ جائے اور دین اور اخلاق کی بنیاد پر رشتوں کو استوار کر دیا جائے تو معاشرے میں جنسی بے راہ روی کے واقعات میں واضح کمی ہو سکتی ہے۔اس سلسلے میں ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو حاتم المزنی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص ( نکاح کا پیغام لے کر ) آئے‘ جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا ۔
5۔ اسلامی سزاؤں کا نفاذ: معاشرے میں بے راہ روی کی روک تھام کے لیے قرآن وسنت میں مذکور سزاؤں کا التزام کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر معاشرے میں بدی کی روک تھام کے لیے اسلامی سزاؤں کو نافذ کر دیا جائے تو سزا کے خوف سے بہت سے حیوان صفت لوگ بے حیائی اور بدکرداری کے راستے پر چلنے سے باز آ سکتے ہیں۔
6۔عدالتی اختیارات میں وسعت اور ریاستی اداروں کی نگرانی: جنسی بے راہ روی پر قابو پانے کے لیے عدالتوں کے کردار کو مؤثر بنانا اور ریاست کے بااختیار اداروں کو فعال کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جدید سائنسی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے بے راہ روی پھیلانے والے افراد تک رسائی حاصل کرنا پہلے کے مقابلے میں بہت آسان ہو چکا ہے‘ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ عام طور پر ایسے عناصر کو کوئی نہ کوئی سیاسی سہارا یا سماجی اثرورسوخ رکھنے والی شخصیت کا کندھا میسر آ جاتا ہے‘ جس کی وجہ سے جنسی جرائم اور فحاشی کا صحیح طریقے سے قلع قمع نہیں ہو پاتا۔
اگر مذکورہ بالا تدابیر پر عمل کر لیا جائے تو معاشرہ بے راہ روی سے پاک ہو کر ایک پاکیزہ معاشرے کے سانچے میں ڈھل سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو برائیوں سے پاک وصاف فرمائے۔ آمین