اللہ تبارک وتعالیٰ نے زندگی کو بہت سے رنگوں سے مزین کیا ہے۔ کہیں آسودگی ہے تو کہیںغم‘ کہیںراحت ہے تو کہیںبے چینی‘ کہیں خوشی ہے تو کہیں غم‘کہیںشادی ہے تو کہیں جنازہ۔ زندگی کے یہ بدلتے ہوئے رنگ جہاںپر انسان کے مشاہدے‘ جذبات‘ احساسات اور تجربات میں اضافہ کرتے ہیں‘وہیں پر انسان پر زندگی کی حقیقت کوبھی آشکار کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ بدلتی ہوئی زندگی وسیع وعریض کائنات اور دوران ِ شام وسحر میں عقل والوں کے لیے اللہ کی بہت سی نشانیاں بھی ہیں۔
میرے سسرالی رشتہ داروں میںشیخ منیب عبدالستار اور شیخ عبداللہ یونس کے ساتھ میری بہت سے یادیں وابستہ ہیں ۔ کئی برس سے ہم مختلف مقامات اور تقریبات میںاکٹھے ہوتے رہے ہیں اور ہر تقریب میں میں نے ان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ مذکورہ میرے سسرالی رشتہ دار اعظم مارکیٹ میںکپڑے کی تجارت کرتے ہیں۔ دین کے ساتھ رغبت رکھنے والے یہ دونوں دوست نمازپنجگانہ کو مسجدوں میںاداکرتے اور رزق ِحلال کوکمانے کی جستجو کرتے ہیں۔ یہ دونوںدوست دستر خوان کو مہمانوں کے لیے ہمیشہ فراخ رکھتے ہیں۔ مساجداور مدارس کی دیکھ بھال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور دینی پروگراموں میں جوش وخروش سے شرکت کرتے ہیں۔ 21 دسمبر کو شیخ منیب کے بیٹے عکاشہ منیب کی شادی ‘ شیخ عبداللہ کی دختر نیک اختر سے ہوئی اور مجھے گلشن لاہور کی ایک مسجد میں نکاح پڑھانے کا موقع ملا‘ اسی طرح 26 دسمبر کو سیالکوٹ میں رہنے والے میرے بہنوئی شیخ عدنان سرور جو کہ سیالکوٹ کے سماجی اور تجارتی حلقوں میںایک نمایاں شناخت رکھتے ہیں اور عرصہ دراز سے لیدر جیکٹس کی تجارت میں مصروف ہیں کی بیٹی کا نکاح‘ لاہور میں رہنے والے ایک دین دار تاجر شبیر صاحب کے فرزند ابراہیم شبیر سے ہوا۔ اس دفعہ بھی مجھے سیالکوٹ کے ایک شادی ہال میں نکاح پڑھانے کا موقع ملا۔ نکاح کی اس تقریب میںسیالکوٹ کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔ تقریب میں پروفیسر ساجدمیر‘ خواجہ آصف‘ اکمل چیمہ کے ساتھ ساتھ بڑی تعدادمیں نمایاں سیاسی اور کاروباری حضرات پر موجود تھے‘ اسی طرح 2 جنوری کو میرے بہنوئی ڈاکٹر رضوان جو کہ پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ کے بیٹے عبدالمومن کا نکاح میرے بڑے بہنوئی ڈاکٹر اکرام کی بیٹی کے ساتھ ہوا۔ نکاح کی ان تقاریب میں میں نے دولہا اور دولہے کے گھر والوں انتہائی شاداں اور فرحاںپایا‘ وہ اپنے گھر میں رونق کے آجا نے پر انتہائی مسرور تھے‘ لیکن جن گھروں سے بیٹیوں کو الوداع کیاگیا ‘وہ اپنی محبت کے بچھڑ جانے پر مغموم تھے۔ انہیںاپنی بیٹیوں کے اچھے رشتوں پر جہاں پر اطمینان اور سکون تھا‘ وہیںپر سالہاسال کی اور محبت اور رفاقت کے بچھڑنے جانے کااحساس بھی ہوا۔ سمجھدار والدین یقینا اپنی اولادوںسے محبت کرتے اورا ن کے مستقبل کے بارے میں حساس ہوتے ہیں ‘لیکن بیٹیوںکے ساتھ اس لیے خصوصی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ وہ یہ بات جانتے ہیںکہ بیٹیوں نے میکے کو چھوڑ کر سسرال کوسدھار جانا ہے۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ تقریبات نکاح کے موقع پر عام طور پر نکاح کی غرض وغایت کو فراموش کر دیاجاتاہے اور اس کو فقط چمک دمک ‘ کھانے پینے اور رسم ورواج پر مبنی تقریب کی شکل دے دی گئی ہے؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک مذہبی سماجی بندھن ہے اور اس سے ایک مسلمان خاندان کا آغاز ہوتا ہے‘ اگر نکاح کی بنیاد حقیقت میں تقویٰ‘ دینداری اور اخلاق پر رکھ دی جائے تو پورا معاشرہ سنور سکتا ہے۔ ذمہ دار باپ اور حساس ماں نسل نو کی تربیت کے لیے مثالی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آج کے والدین اپنے اس کردار کو فراموش کرکے فقط معاشی ترقی کوا پنا ہدف بنا چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ والدین کو اپنے اصل کردار کو پہچاننے کی ضرورت ہے اور دلہا ‘ دلہن کو مستقبل کی ذمہ داریوں کے حوالے سے احساس دلانے کی ضرورت ہے۔ شادی کی اِن تقریب نے جہاں پر خوشی اور مسرت کے ساتھ رشتہ داروں کو مل بیٹھنے کا اچھا ماحول میسر کیا‘ وہیں پر ماضی کی بہت سی یادیں بھی تازہ ہوئیں اور وقت کی تیز رفتاری اور سرعت کا احساس بھی ہوا۔
اِن ایام میںکئی قریبی دوست شادی اور خوشی کی تقریب کے ساتھ ساتھ بعض اداس کرنیوالی خبروں کو بھی سننا پڑا۔ دکھ اور غم کا سبب یہ تھا کہ ان ایام میں قریبی دوست دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پروفیسر ثناء اللہ بھٹی شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی ایک ممتاز علمی شخصیت ہیں اور عرصہ دراز سے مجھ سے شفقت اور محبت والا معاملہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ احساس اور تعلق ان کی اگلی نسل تک بھی منتقل ہو چکا ہے۔ چند روز قبل ان کے بیٹے احسان بھٹی نے بتلایا کہ ان کے چچا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ یہ صدمہ یقینا مولانا ثناء اللہ بھٹی اور ان کے اہل ِ خانہ کے لیے بہت بڑے دھچکے کا باعث تھا‘ اسی طرح اوکاڑہ میںرہنے والے دوست مولانا عبدالسمیع اوکاڑوی بھی انہی ایام داغ مفارقت دے گئے ۔وہ انتہائی متحرک شخصیت تھے اور دینی اورسیاسی حوالے سے اوکاڑہ کی سطح پر ہمیشہ سر گرم رہا کرتے تھے۔ علم دین کے ساتھ دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ قومی ‘ ملی اور سیاسی حوالے سے انتہائی پرجوش ‘ توانا اور متحرک کارکن تھے اور جب بھی کبھی دین ‘ ملک اور ملت سے متعلقہ کوئی اہم معاملہ قومی یا بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر آتا تو اس کا نہایت احسن انداز میںرد عمل پیش کیاکرتے تھے۔ ان کی جدائی یقینا اہل اوکاڑہ کے لیے بہت بڑے صدے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اوکاڑہ کے علاوہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے علماء اور دینی کارکنان نے ان کی جدائی کو بڑے گہرے انداز میں محسوس کیا‘ اسی طرح 3جنوری کی رات کو میرے سکول کے کلاس فیلو ڈاکٹر رضا یونس نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے یہ افسوس ناک خبر سنائی کہ اُن کے والد دنیا سے رخصت ہو چکے ہیںاور اس خواہش کی اظہار کیا کہ 4تاریخ کو ظہر کی نماز کے بعد ان کے والد کی نماز جنازہ کو پڑھاؤں۔ ڈاکٹر رضا یونس کے ساتھ کئی برس کے بعدہونے والا یہ پہلا رابطہ تھا اور رابطہ بھی اس موقع پر ہو رہا تھا‘ جب وہ دکھ اور غم کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ رضا یونس کے والد جنازے میں شرکت کے لیے روانہ ہونے کے دوران اور پھر جنازگاہ میں پہنچ کر نماز جنازہ سے قبل میرے ذہن میں زندگی کے اتار اور چڑھاؤ کے حوالے سے مختلف طرح کے خیالات گردش کر رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ شادی بیاہ کے موقع پر چمکتے ہوئے چہرے ‘ جنازوں کے موقع پر کس قدر مغموم اور اداس ہوتے ہیں۔ زندگی میں انسان خواہ کتنا ہی عروج اور خوشیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے ایک دن اس کو موت کے لمحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے ‘جس سے کوئی بھی فرار نہیں ہو سکتا اور جو شخص بھی دنیا میںآیاہے ‘اس کو ایک دن دنیا سے رخصت بھی ہونا پڑے گا۔ انسان کو اپنی زندگی میں آنے والے عروج کے لمحات کے دوران اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک دن اس کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد اس کو اپنے خالق ومالک کی بارگاہ میں پیش ہونا ہے‘ جہاںپر اس کو اس زمین پر گزرے ہوئے لمحات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ بعض لوگ نعمتوں کا حق ادا کرتے ہیں جب کہ بہت سے لوگ اللہ کی نعمتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔ یقینا ملاقات کے دن صبر وشکر کرنے والے لوگ کامیاب اور کامران ٹھہریں گے اور فخر ‘ غرور ‘ تکبر اور ناشکری کے راستے پر چلنے والے لوگ ناکام ونامراد ٹھہریں گے۔ زندگی انسان کو بہت سے سبق دیتی اور پڑھاتی ہے ‘لیکن بہت سے عاقبت نا اندیش لوگ ان اسباق کو فراموش کر دیتے ہیں‘ لیکن عقل اور شعور رکھنے والے لوگ ان اسباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں ایک انقلاب کو پیدا کرکے مثبت اور صحیح راستے پر چل پڑھتے اوراپنے خالق ومالک سے ملنے کے لیے پوری طرح آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو عارضی اور فانی زندگی کی حقیقتوں کو پہچانتے ہوئے اپنی اخروی زندگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین )
زندگی انسان کو بہت سے سبق دیتی اور پڑھاتی ہے ‘ لیکن بہت سے عاقبت نااندیش لوگ ان اسباق کو فراموش کر دیتے ہیں‘ لیکن شعور رکھنے والے لوگ ان اسباق کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں ایک انقلاب کو پیدا کرکے مثبت اور صحیح راستے پر چل پڑھتے اوراپنے خالق ومالک سے ملنے کے لیے پوری طرح آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عارضی اور فانی زندگی کی حقیقتوں کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔