بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی متعصبانہ اور معاندانہ ہے ۔ ان کے سیاسی کیرئیر کی بنیاد ہی مسلمانوں کے ساتھ نفرت اور عصبیت پر استوار ہے۔ اُن پر گجرات میں مسلم کش فسادات میں ہزاروں کی تعداد میںمسلمانوں کے قتل عام کاالزام ہے اورمودی کے ہمنوا آج تک اس الزام کی مدلل انداز میںتردید نہیںکر سکے۔ نریندر مودی نے سابقہ بھارتی حکمرانوں سے کہیں بڑھ کر کشمیرکے مسلمانوںکو بھی ظلم اور بربریت کا نشانہ بنائے رکھا اور آزادی ٔ کشمیر کی تحریک کو کچلنے کے لیے کشمیر کو غیر متنازع علاقہ قرار دے دیا اور اس کی سابقہ متنازع ریاستی حیثیت کو کالعدم کر دیا۔ نریندر مودی نے اس حوالے سے ہندوستانی آئین میںترامیم بھی کروا لیں۔ نریندر مودی نے کچھ عرصہ قبل شہریت ایکٹ میں تبدیلی کے ذریعے ہندوستان میں آبادکاری کے خواہشمند غیر مسلموں کے لیے بہت زیادہ آسانیاں پیداکیں اور اس کے برعکس ہندوستان کی شہریت کے دروازے مسلمان آباد کاروںپربندکردئیے۔ نریندر مودی جہاں پر سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کی شناخت کو مٹانا چاہتے ہیں‘ وہیں پر مسلمانوں کی مذہبی حیثیت اور شناخت کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔اسلام کی دعوت وتبلیغ کے ساتھ بھی نریندر مودی کو شدیدنفرت اور چڑ ہے؛ چنانچہ کچھ عرصہ قبل عالم اسلام کے ممتاز سکالر اور دانشور ڈاکٹرعبدالکریم ذاکر نائیک کی دعوتی سرگرمیوںاور ان کے ادارے کو ہندوستان میں مکمل طور پر بین کردیا گیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک طویل عرصے سے انڈیا میں پر امن انداز میں اسلام کی دعوت وتبلیغ کرنے میں مصروف تھے اور انہوں نے کبھی بھی کسی مقام پر انتہا پسندانہ کاروائیوں کی حوصلہ افزائی کی نہ کبھی ان کا حصہ بنے ۔ ان کی پرامن دعوتی سرگرمیوں کے باوجود ایک منظم اورمذموم سازش کے تحت ان پر دہشت گردی کے الزام لگاکر ہندوستان کی سرزمین کو ان پر تنگ کر دیاگیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بین الاقوامی شہرت یافتہ ادارے آئی آر ایف کے اثاثے ضبط کر کے ان کے بینک اکاؤنٹس کوبھی سیل کر دیاگیا۔ اس سارے عمل کے دوران ڈاکٹر ذاکر نائیک‘ ملک سے باہر تھے۔ ان پر ہندوستان کی زمین کچھ اس انداز میںتنگ کر دی گئی کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا اپنے وطن میںواپس آناانتہائی مشکل ہو گیا۔ ان حالات میں ڈاکٹر ذاکر نائیک نے ملیشیا ء کو اپنا مسکن بنایا اوروہاں پراپنی تبلیغی سرگرمیوں کو از سر نو شروع کر دیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک عالم اسلام کے انتہائی پسندیدہ مبلغ اورداعی ہیںاور دنیائے اسلام میں ان کے چاہنے والے لوگ لاکھوں نہیں‘ بلکہ کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیکچرز کو مسلمان ہی دلچسپی اور شوق سے نہیں سنتے ‘بلکہ دیگر مذاہب کے وہ لوگ جو تقابل ادیان کے مطالعے اورعلم سے دلچسپی رکھتے ہیں ‘وہ بھی ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات سے استفادہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے خطابات کوسننے کے بعدکوئی بھی غیر متعصب انسان اس بات کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسلام ‘اللہ تبارک تعالیٰ کاپسندیدہ دین اور نبی کریمﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک انجیل اور توریت ہی سے نبی کریم ﷺ کی ذات کے حوالے سے پیش گوئیوں کو منظر عام پر لے کر نہیںآئے‘ بلکہ آپ نے ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں سے بھی ان نشانیوں کو لوگوں کے سامنے رکھا‘ جن میںنبی کریمﷺ کی بحیثیت ِآخری رسول ‘دنیا میں آمد کا ذکر ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے لیکچرز کو سن کے دنیابھر میںہزاروںکی تعدادمیں لوگ حلقہ بگوش ِاسلام ہو چکے ہیں۔
چندسال قبل میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دعوتی سرگرمیوں سے متاثر ہونے کے بعد دبئی میںمقیم دوستوں سے اس خواہش کا اظہار کیاکہ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملاقات کرناچاہتا ہوں ۔ وہ پاکستانی دوست جو ڈاکٹر ذاکر نائیک کی دبئی میں آمدورفت کے دوران ان سے مانوس ہو چکے تھے‘ انہوں نے مجھے اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران وہ میری ملاقات ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کروائیں گے۔ چند ہفتے کے بعد ڈاکٹر ذاکر نائیک جب دبئی کے دورے پر تشریف لانے والے تھے تو دبئی کے دوستوں نے مجھے بھی دبئی آنے کی دعوت دی؛ چنانچہ میں ان دوستوں کی دعوت پر دبئی روانہ ہوا۔دبئی کے ایک دیرینہ حاجی نذیر کے خوبصورت دفتر میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ایک خوشگوار ‘بھرپور اور تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں حاجی یونس ‘ برادر منظور ‘خالد غوری ‘ حافظ شفیق اوردیگر دوست احباب موجودتھے۔ اس دورے کے دوران دبئی کے دوستوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک اور میرے لیے ایک بھر پور قسم کے عشائیے کابھی اہتمام کیا۔ دبئی میں واقعہ حاجی یونس صاحب کے خوبصورت ہوٹل میں عشاء کی نماز کے بعد ہونے والی اس تقریب میں دبئی کے بہت سے دوست شریک ہوئے اور انہوں نے بڑے پرتپاک انداز میںہمارا استقبال کیا۔ دبئی کے اس ہوٹل میںہونے والے اس عشائیے میں بہت سے اہم علمی موضوعات پر دوستوں کے ساتھ سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اس کے بعد کئی گھنٹے تک باہمی دلچسپی کے امور پر ڈاکٹر صاحب سے تبادلہ خیال ہوا۔ اس ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک انتہائی سادہ طبیعت کے انسان ہیں اور تکلفات اور ظاہر داری ان میں دور دور تک نہیں ۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کی سادہ اور ملنسار طبیعت سے میں بہت متاثر ہوا اور میرے دل میں ان کی قدرومنزلت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ اس کے بعد بھی کبھی کبھارڈاکٹر صاحب سے رابطہ ہوتا رہا۔
حالیہ دنوں میں ان کے حوالے سے پاکستان کے قومی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ نریندر مودی کے وفد کی ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ملاقات ہوئی ہے اوراس وفد نے ان کو غلط فہمیوں کے ازالے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ میں اس خبر کے مصدقہ ہونے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا۔ میرا تذبذب اس وقت دور ہوا جب اس موضوع پر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا ایک ویڈیو کلپ میری نگاہوںسے گزرا ۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اس کلپ میں اُمت مسلمہ کی رہنمائی والی بہت سی خوبصورت باتیں موجود تھیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے اس ویڈیوکلپ میں یہ بات بتلائی کہ نریندر مودی کے وفد نے ان سے حالیہ دنوں میں ایک تفصیلی ملاقات کی اور ان سے کشمیر میں ہونے والی قانونی تبدیلیوں کے حوالے سے تعاون کو طلب کیا ہے اور اس کے بدلے ان کی وطن واپسی اوران کی دعوتی سرگرمیوں کی بحالی کی یقین دہانی کروائی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے جوابی طور پر نریندرمودی کے وفد کو یہ بات کہی کہ وہ کشمیر میںہونے والے مظالم کی تائید نہیں کرسکتے اور اس حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کو آئین اور حقوق انسانی کی روح کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ انہوں نے اس کلپ میں حیرت کا بھی اظہار کیا کہ انڈیا کے بہت سے مسلمان رہنماؤں نے اس غیر آئینی تبدیلی کی واضح طور پر حمایت کی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا کہنا تھا کہ اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ ہندوستانی مسلمان رہنماؤں کے یہ بیانات ان کو دباؤ میں لا کر یا ان کو ہراساں کر کے دلوائے گئے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے اس موقع انڈیا کے مسلمان رہنماؤںسے اس بات کی اپیل کی کہ اگر وہ مودی کے غیر آئینی اور ظالمانہ اقدامات کی مذمت نہیں کر سکتے تو انہیں کم ازکم مودی کی تائید نہیں کرنی چاہیے‘ اس لیے کہ مسلمان مسلمان پر ہونیوالے ظلم کی کبھی بھی تائید اور توثیق نہیں کر سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ حالات کا جبر کئی مرتبہ انسان کو اس سطح پر لے آتا ہے کہ حق بات کرنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں حق بات کہنا مسلمان کے ایمان اور اسلام کا تقاضا ہے‘ تاہم اگر مسلمان کسی وجہ سے مجبور ہو جائے تو اس کو ظلم کی حمایت کرنے کی بجائے خاموشی کے راستے کو اختیار کر لینا چاہیے‘ لیکن باطل کے ساتھ ہم آہنگی کو کبھی بھی قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کی یہ نصیحت یقینا جہاں پر ہندوستان کے مسلمانوں کے رہنماؤں کے لیے بھی مفید ہے ‘وہیں پرعالم اسلام میں بسنے والے مسلمان رہنماؤں کیلئے بھی اس میں استفادے والی بہت سی باتیں ہیں۔ اس وقت مفاد پرستی‘ خوشامد‘ چاپلوسی کا کلچر اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ لوگ سیاہ کو سیاہ اور سفید کوسفید کہنے سے کتراتے ہیں اور مصلحت کوشی کی روش کو اختیار کرتے کرتے مداہنت تک پہنچ جاتے ہیں اورظلم پر خاموش رہنے کی بجائے ظلم کی ہمنوائی پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے رہنماؤں کو کتاب و سنت کی تعلیمات اوراپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ہمیشہ حق پرستی کے راستے پر گامزن رہنا چاہیے‘ اگر تمام باشعور رہنما اس روش کو اختیار کر لیں تو یقینا ظالموں کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے اور ان کو ان کے ظلم سے باز رکھا جا سکتا ہے۔