معاشرے کی تعمیر وترقی میں جو لوگ کلیدی کردار اداکرتے ہیں‘ ان میں اساتذہ سرفہرست ہیں۔ عام طور پر باشعور لوگ اپنے والدین کے احسانات کو تسلیم کرتے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی کوشش کرتے ہیں اور اس حوالے سے اسلامی شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کو ضروری سمجھتے ہیں‘لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان ترقی حاصل کرنے اور عروج پا لینے کے بعد بالعموم اپنے اساتذہ کے کردار کو فراموش کر دیتا ہے ؛حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاں پر والدین انسان کی تربیت اور ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں‘ وہیں پراساتذہ کا بھی اس حوالے سے نمایاں کردار ہوتا ہے۔ تعلیم یافتہ لوگوں کے بچپن سے لے کر جوانی تک وقت کا ایک بڑا حصہ درس گاہوں میںگزرتا ہے اور اس دوران وہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں ‘اس میں ان کے اساتذہ کاایک بہت بڑاحصہ ہوتا ہے۔
میںنے اپنی زندگی میںجب بھی کبھی محبت اور احترام کو حاصل کیا تو میں جہاں پر اپنے والدین کے احسانات کا معترف ہوا‘وہیں پر مجھے اپنے اساتذہ کی یادبھی ضرور آئی۔میں اس لحاظ سے اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتاہوں کہ مجھے ایام طالب ِعلمی میں بہت سے اچھے اساتذہ میسر آئے۔ مجھے ابھی تک یادہے کہ آٹھویں جماعت تک مجھے حساب کو سمجھنے میں بہت زیادہ دقت پیش آتی تھی ۔ نویں جماعت میں مجھے حساب پڑھانے والے بہترین استاد اشرف صاحب میسر آئے‘ اشرف صاحب نے حساب کے حوالے سے میری الجھنوں کو کچھ اس انداز میں دُور کر دیا کہ اس کے بعد مجھے حساب اور ریاضی میں کبھی دقت پیش نہیں آئی حتیٰ کہ میں انجینئر بننے کے قابل ہو گیا۔ میں جب بھی کبھی کچھ لکھنے بیٹھتا ہوں تو مجھے اپنے اُردو کے استاد گیلانی صاحب ضرور یاد آتے ہیں‘ اسی طرح لغاری صاحب ‘عبدالستار اور نثار صاحب کی شفقتوں کا احساس آج بھی میرے دل ودماغ پہ چھایا ہوا ہے‘ اسی طرح مجھے بہت سے علوم وفنون پڑھانے والے اساتذہ کی نیکیاں بھی یادآتی رہتی ہیں ‘جن میں ڈاکٹر مسکین علی حجازی‘ ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ‘ مجاہد منصوری اور احسن اختر ناز سمیت دیگر بہت سے اساتذہ شامل ہیں۔ ان تمام اساتذہ نے میری تعلیم وتربیت میں نمایاں کردارادا کیا۔
عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ اپنے اساتذہ کے احسانات اور نیکیوں کو یاد رکھتے ہیں اور ان کی سختی کے باوجود ان سے احترام والا معاملہ کرتے ہیںاور جب بھی کبھی ان کو قرآن وسنت کی تعلیم دینے والے اساتذہ ملتے ہیں تو ان کے ساتھ بڑی عقیدت اور احترام کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘ان کا ذکر خیر کرتے ہیں اور ان کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں۔ اس کے مد مقابل دنیاوی تعلیم حاصل کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد دعلم حاصل کرنے کے بعد اپنے اساتذہ کو فراموش کردیتی ہے۔ یہ لوگ اپنی کامیابی کی نسبت اپنی محبت اور لگن کے ساتھ تو کرتی ہے‘ لیکن اساتذہ کے احسانات کو فراموش کر دیتے ہیں۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تواس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ استاد کا مقام کس قدر بلند ہے اور استاد معاشرے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ استاد درحقیقت اپنی اہمیت اور ذمہ داری کے اعتبار سے اس مقام پر فائز ہے کہ دنیا میںکوئی دوسرا شخص اس کی عظمت اور مقام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کتاب وسنت اور تاریخ اسلام کا مطالعہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینا اس قدر اہم ہے کہ یہ فریضہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے سب سے اہم ہستیوں ‘یعنی انبیاء علیہم السلام نے انجام دیا اور لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر اور احکامات سے بہترین طریقے سے آگاہ فرماتے رہے۔ انبیاء علیہم السلام کی صحبت کو پانے والے اور ان سے علم حاصل کرنے والے لوگوں نے فقط اپنی زندگیوں ہی کو نہیںسنوارا ‘بلکہ اپنے ماحول کو بھی نورانی تعلیمات سے منور کردیا۔
نبی کریمﷺ کائنات کے سب سے بڑے معلم ہیں اور آپ ؐ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کتاب حکمت کی تعلیم دیتے رہے۔ آپؐ سے تعلیم حاصل کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بعدازاں پوری کائنات کو کتاب وسنت کی تعلیم سے بہرہ ور کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میںسے ان صحابہ کا مقام خصوصی حیثیت اور اہمیت کا حامل ہے ‘جنہوں نے علم کی نشرواشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ ‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ‘ حضرت عائشہؓ ‘ حضرت انس بن مالک ؓ ‘ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ‘ حضرت جابربن عبداللہؓ‘ حضرت ابو سعیدخدریؓ‘ حضرت عبداللہ بن عمرو العاصؓ ‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ‘ صحابہ کرام میں سے اس اعتبار سے نمایاں مقام رکھتے ہیں کہ انہوں نے علم کی نشرواشاعت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ معلم پر کئی اہم ذمہ داریاں ہیں‘ جن میں سے کچھ اہم درج ذیل ہیں: ۔
1۔ علم کو پوری طرح آگے پہنچانا: معلم خواہ دینی علم کو پڑھانے والا ہو یا سماجی ‘سیاسی اور عمرانی علوم کو۔ اس کو علم کی ترسیل صحیح طریقے سے کرنی اور تدریس کے دوران علم اور معلومات کو نہ تو چھپانا چاہیے اور نہ ہی ان میں کمی بیشی کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں علم کو چھپانے یا اس میں کمی بیشی کرنے کی بڑے سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 42 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور خلط ملط نہ کرو‘ حق کوباطل کے ساتھ اور حق کو (نہ) چھپاؤ ؛حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘اسی طرح سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 159اور 160 میں ارشاد ہوا ''بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں ‘اسے جو ہم نے نازل کیا ‘واضح دلائل اور ہدایت کو اس کے بعد کہ ہم نے کھول کر بیان کر دیا‘ اسے لوگوں کے لیے (اس) کتاب میں وہی لوگ ہیں(کہ) لعنت کرتا ہے ان پر اللہ اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے‘ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کرلی اور اصلاح کرلی اور بیان کردیا (جسے چھپاتے رہے) تو وہی لوگ ہیںکہ میں توبہ قبول کرتاہوںان کی اور میںہی توبہ قبول کرنے والا ‘ نہایت مہربان ہوں۔‘‘اگر استاد علم اور معلومات صحیح طریقے سے طلبا تک نہ پہنچائے تو طالب علموں کے علم میں کجی اور کمزوری رہ سکتی ہے‘ جس کے نتیجے میںوہ خود بھی بھٹک سکتے ہیںاور لوگوں کو بھٹکانے کا بھی سبب بن سکتے ہیں۔
2۔طلباء پر توجہ دینا:اساتذہ کو اپنے طالب علموںپر بھرپور انداز میں توجہ دینی چاہیے اور اس بات کے لیے کوشاںرہنا چاہیے کہ ہر طالب علم تک علم کو صحیح طریقے سے منتقل کیا جائے۔ نبی کریمﷺ نے بحیثیت معلم اپنے صحابہ سے انتہائی پیار اور شفقت والا معاملہ کیااور ہر طالب علم پر بھرپور انداز میں توجہ دی۔ آپﷺاصحاب صفہ کے ساتھ خصوصی شفقت والا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔
3۔طلباء کے سوالوں کاتسلی بخش جواب: اساتذہ کو طالب علموں کے سوالوںکا تسلی بخش جواب دینا چاہیے اور اس سلسلے میں اسوہ رسول ؐ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ نبی کریمﷺ سوال پوچھنے والے ہر سائل کو اس کے سوال کا بہترین طریقے سے جواب دیاکرتے تھے اور سائل پر مسئلے کو پوری طرح واضح فرما دیا کرتے تھے۔
4۔ علمی نکات کی دہرائی اور تکرار: اساتذہ کو باریک اور دقیق نکتوں کو دہرانا چاہیے‘ تاکہ تمام باریک اور مشکل نکات طالبعلموں کے ذہن میں اُتر جائیں۔ نبی کریمﷺ کے اسوہ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہم علمی نکات کو دُہرا کر طالب علم کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔
5۔علم پر عمل: اساتذہ جس چیز کی تعلیم دے رہے ہوں‘ ان کا اس پر عمل بھی ہونا چاہیے ‘بالخصوص دین کی تعلیم دینے والے اساتذہ کے علم اور عمل میں مکمل ہم آہنگی ہونی چاہیے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44میںاس بات کو بیان فرما دیا ''کیا تم حکم دیتے ہو لوگوں کو نیکی کا اور تم بھول جاتے ہو اپنے آپ کو؛ حالانکہ تم تلاوت کرتے ہو کتاب کی کیا پس تم عقل نہیں کرتے۔ ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ صف کی آیت نمبر 2 اور 3میں اس بات کو بیان فرمایا ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو کیوں‘ تم کہتے ہو (وہ بات) جو تم نہیںکرتے ہو۔ (یہ) بہت بڑی (بات) ہے ناراضی کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک کہ تم (وہ بات) کہو جو تم نہیں کرتے ہو۔‘‘
ان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کے کچھ حقوق بھی ہیں ‘جو درج ذیل ہیں:
1۔ طالب علموں کو ان کا ادب کرنا چاہیے۔ 2۔ ان کی باتوں کو توجہ کے ساتھ سننا چاہیے۔ 3۔ ان کا ذکر خیر کرنا چاہیے۔ 4۔ اپنی کامیابیوں میں ان کے حصے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ 5۔ ان کے لیے دعائے خیر کرنی چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والا اور ہمیں ان کے احسانات کو تسلیم کرنے والا بنادے۔( آمین)