جمعیت اتحاد العلماء اور جمعیت طلبہ العربیہ‘ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیمیں ہیں‘ جو علماء ‘ مدارس دینیہ اور دینی مدرسوں طالب علموں کی تنظیم سازی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ‘ کالجز اور یونیورسٹیز میں نوجوانوں کو منظم کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہے‘ جبکہ جمعیت اتحاد العلماء اور جمعیت طلبہ العربیہ کے اہداف تو اسلامی جمعیت طلبہ جیسے ہیں ‘لیکن ان کا دائرہ کار اسلامی جمعیت طلبہ سے جدا ہے۔ مجھے ان تنظیموں کے رہنماؤں سے گاہے بگاہے ملاقات کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے اور ان تنظیموں کے پروگراموں میں بھی وقفے وقفے سے اپنی آراء اور تجاویز کو پیش کرتا رہتا ہوں۔ 23جنوری کو جمعیت اتحادالعلماء اور جمعیت طلبہ العربیہ کے زیر اہتمام منصورہ میںایک علماء کنونشن کا انعقاد کیا گیا‘ جس میںتمام مکاتب علماء فکر کے جید علماء کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ پروگرام کا پس منظر الحاد‘ ملک میں بڑھتی ہوئی لادینیت‘ ختم نبوتؐ کے حوالے سے جاری منفی سرگرمیوں کا تدارک کرنا اور مسئلہ کشمیر پر علماء کی متفقہ آراء کو پیش کرنا تھا۔ جمعیت اتحاد العلماء کے نمایاں ساتھیوں نے مجھ سے رابطہ کیا تو میںنے اس اہم پروگرام میں شرکت کی فوراً حامی بھر لی۔ اس کے باوجود جمعیت اتحادالعلماء اور جمعیت طلبہ العربیہ کے رہنما باضابطہ طور پر دعوت دینے کے لیے میرے گھر تشریف لائے اور اس موقع پر ملکی صورتحال اوردینی جماعتوں کے کردار کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ میں نے ایک مرتبہ پھر ان احباب کو اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ میںلازماً علماء کنونشن میںشریک ہوں گا۔
علماء کنونشن کا آغاز مغرب کے نماز سے متصل تھا اور اس کی پہلی نشست مغرب کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک اور دوسری نشست نماز عشاء کے بعد شروع ہونی تھی۔ میںاس پروگرام میںشرکت کرنے والے تمام علماء کے خطاب سے مستفید ہونے کا متمنی تھا‘ لیکن مجھے 23 جنوری کی صبح 10بجے ایک المناک خبر سننے کو ملی کہ کھڈیاں میں رہنے والے قریبی دوست عبدالسمیع کی اہلیہ اور عبدالمنعم کی بھاوج کا انتقال ہو گیا ہے۔ عبدالسمیع بھائی کی اہلیہ کی عمر کچھ زیادہ نہ تھی اور اس جوانی میں دنیا سے رخصت ہونا یقینا ان کے اہلِ خانہ کے لیے بہت بڑے صدمے کا باعث تھا۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اُن کی نماز جنازہ پڑھاؤں۔ جواں سال موت پر دوستوں کو پہنچنے والے دھچکے کے پیش نظرمیں نے اس بات کا اراہ کیا کہ میں جنازہ پڑھانے کے لیے ضرور کھڈیاں جاؤں گا اور ان کے سامنے اس بات کو رکھا کہ میں علماء کنوشن منصورہ سے خطاب کرنے کے بعد جنازے میں شریک ہوسکوں گا؛ چنانچہ جنازے کے وقت کو کچھ موخر کیا جائے۔ جامعہ منصورہ میںہونے والے پروگرام کے منتظمین کو بھی میں نے اس بات سے آگاہ کیا کہ میںتادیر کنونشن میں شریک نہیں رہ سکوں گا اور عشاء کی نماز سے قبل ہی خطاب کرنے کے بعداجازت چاہوں گا۔ تقریب کے منتظمین نے میری گزارش کو قبول کرلیا اور عشاء کی نماز سے قبل ہونیوالی پہلی نشست ہی میں مجھے خطاب کرنے کا عندیہ دیا۔
میں سوا چھ بجے کے قریب منصورہ پہنچا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداداستقبال کے لیے جامع منصورہ کے گیٹ پر موجود تھی۔ میں ان کی ہمراہی میں جامع مسجد منصورہ کی طرف جا رہا تھا تو میرے ذہن میں منصورہ میں ہونیو الے کئی سابقہ اجتماعات کی یاد آنا بھی شروع ہوگئی۔ محترم قاضی حسین احمد مرحوم کے دور سے لے کر آج تک میں منصورہ میں کئی مرتبہ مختلف اجتماعات سے خطاب کرنے کے لیے آ چکاتھا۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ قاضی حسین احمد ایک مشفق ‘ ملنسار اور دردِ دل رکھنے والے انسان تھے اور جب بھی کبھی ان سے ملاقات ہوتی وہ ہمیشہ نفاذ اسلام‘ غلبہ دین اور اتحاد اُمت کے لیے درد کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ کئی مرتبہ طویل نشستیں کرنے کا موقع بھی ملتا اور ان کی پاکستان اسلام اور علامہ اقبالؔ کے افکار کے ساتھ وابستگی کے حوالے سے بہت سی باتیں سننے کا موقع میسر آتا۔ وہ پختہ عمر اور تجربہ کار رہنما ہونے کے باوجود بھی میری گزارشات کو توجہ کے ساتھ سنا کرتے تھے‘ اکثر وبیشتر میری حوصلہ افزائی بھی کیا کرتے تھے اور کئی مرتبہ میرے خطابات کو سننے کے بعد تحسین بھی کیا کرتے تھے ‘ان کے انتقال کے بعد بھی میںمنصورہ میں مختلف اجتماعات میں شرکت کے لیے آتا رہا ۔
جب میں منصورہ کی جامعہ مسجد میں داخل ہوا تو اس کے وسیع وعریض ہال کو دین سے محبت کرنے والے بزرگوں اور نوجوانوں سے بھرا ہوا پایا۔ سٹیج پر جمعیت اتحادالعلماء کے سربراہ شیخ الحدیث مولانا عبدالمالک رونق افروز تھے اور ان کے ساتھ ساتھ مولانا سرفراز اعوان‘ مفتی عاشق حسین‘ مولاناعاصم مخدوم سمیت تمام مکاتب فکر کے جیدعلماء کرام موجود تھے۔ مجھ سے پیشتر بھی مغرب کی نماز سے قبل مختلف علماء اپنی اپنی آراء کا اظہار کرتے رہے ۔عشاء کی نماز سے کچھ دیر قبل مجھے خطاب کی دعوت دی گئی‘ میں نے اپنے اس خطاب میں جن گزارشات کو علماء کرام اور دینی کارکنان کے سامنے رکھا ‘ان کو اپنے قارئین کے بھی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں:۔
کتاب وسنت اور تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ علماء حقیقی معنوں میں انبیاء کے وارث ہیں۔ آئمہ دین اور اکابرین اُمت نے مختلف ادوار میں ہر طرح کی تکلیفوں اور صعوبتوں کو سہنے کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اور پیغام حق کو پوری شدومدسے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ عصر حاضر کے علماء گو اپنے قدوقامت کے اعتبار سے آئمہ دین اور اکابرین اُمت کے ہمسر نہیں‘ لیکن بہر کیف علماء حق اسی راستے کے مسافر ہیں‘ جس پر آئمہ دین اور اکابرین ملت سفر کرتے رہے ہیں۔ بدنصیبی سے اُمت اس وقت مختلف مکاتب فکر اور مسالک میں تقسیم میں ہو چکی ہے اور مسالک کے درمیان بہت سے اصولی اور فروعی اختلافات موجود ہیں‘ لیکن اس کے باوجود یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سے حساس معاملات پر مختلف مکاتب فکر کے جید علماء نے متفقہ جدوجہد کرکے اُمت کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کا بھی اس حوالے سے ایک نمایاں کردارہے کہ تمام مکاتب فکر کے جیدعلماء نے مقدسات اُمت ‘یعنی خلفاء راشدین‘ امہات المومنین‘ اہل بیت عظام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کو حرام اور ان کی تکفیر کو کفر قرار دے کر فرقہ واریت کے دروازے کو بندکرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پاکستان میں کم ازکم تین مواقع ایسے آئے ہیں کہ جب علماء کی مشترکہ کاوشوں کے نتیجے میں ملک بھر میں عوام کو یکسوئی حاصل ہوئی اور لوگوں کے ذہنی الجھاؤ کو دور کرنے میں مدد ملی۔ پہلا مرحلہ عقیدہ تحفظ ختم نبوت کا ہے ۔ تمام مکاتب فکر کے جیدعلماء نے متفقہ موقف کواُمت کے سامنے پیش کیا کہ جو گروہ یا شخص نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ بعدازاں اسی فیصلے کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی ایک متفقہ قرارداد کی شکل میں منظور کیا‘ اسی طرح تحریک نظام مصطفی ؐ میں بھی تمام بھی مکاتب فکر کے جید علماء نے اپنا بیانیہ قوم کے سامنے پیش کیا کہ ملت کے جملہ مسائل کا حل نظام مصطفیﷺ کے نفاذ میں پنہاں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سوشل ازم اور سرمایہ دارانہ نظام کی یلغار کے خلاف بھی تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے اسلام کے نظام معیشت اور اقتصادیات کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ گو‘ عملی طور پر یہ معاشی نظام تاحال مملکت پاکستان میں لاگو نہیں ہوسکا اور فی الوقت پاکستان میں سودی بینکاری کا نظام جاری ہے ‘لیکن فکری اور نظری اعتبارسے علماء اس حوالے سے بھی قوم کی بھرپور انداز میں رہنمائی کر چکے ہیں۔
آج جب ہم پاکستان کودیکھتے ہیں تو اس میں الحاداور جدیدیت اپنے پورے عروج پر نظر آتی ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کے منکرین اپنی سرگرمیوں کو بڑی شدومد سے جاری کیے ہوئے ہیں۔ان ایام میںایک مرتبہ پھر قوم کی رہنمائی کے لیے علماء کو اپنی صف بندی کرنی ہو گی اور ملک کو نظریاتی اور معاشی بحران سے باہر نکالنے کے لیے قوم کے سامنے متفقہ لائحہ عمل پیش کرنا ہو گا۔
پاکستان کے بہت سے خارجی مسائل کے حوالے سے بھی علماء کے اتحادکی ضرورت ہے ۔ مسئلہ کشمیر اس اعتبار سے انتہائی اہم اور سلگتا ہوا مسئلہ ہے کہ کئی عشروں سے یہ قوم وملت کی توجہات کا مستحق ہے۔ مودی کے جارحانہ رویے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے لیے کسی وقت بھی پاکستان کو راست اقدام بھی کرنا پڑ سکتا ہے‘ ایسی صورت میں علماء دینی مدارس کے طلبہ کے ہمراہ جذبہ جہاد سے سرشار ہو کے پاک فوج کی معاونت کے لیے تیار ہیں۔ ان تمام مسائل کا بہترین اور جامع حل یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں پر انحصار کرنے کی بجائے قوم اور ملت کی قیادت کے لیے علماء خود میدان عمل میں نکلیں۔ اگر علماء اس بات کا فیصلہ کر لیں تو یقینا جہاںپر قوم کی رہنمائی ہو سکتی ہے ‘وہیں پر بہت سے قومی مسائل کا سیاسی اور پرامن حل بھی نکل سکتا ہے ۔
جامعہ منصورہ میں ہونے والے اس خطاب کو دوست احباب نے بڑی توجہ کے ساتھ سنا اور خطاب کے بعد علماء بڑی گرمجوشی سے ملے۔ میں برادرم سراج الحق کے فکرانگیز خطاب سے بہرہ ور نہ ہوسکتا‘ تاہم اگلے دن اخبارات کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کے فکر انگیز خطابات کے مندرجات سے استفادہ کرنے کا موقع ملااور حسب ِ سابق ان کے جذبے اور مثبت فکرکی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ علمائے کرام کواُمت کے مشترکہ مفادات میں مل جل کر جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )