"AIZ" (space) message & send to 7575

اولادکے حقوق !

ہمارے معاشرے میں والدین اوربزرگوں کے حقوق کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہتی ہے‘ لیکن بالعموم اولاد کے حقوق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے نوجوان اس رائے کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ شاید اسلام میں اولادکو خاطر خواہ حقوق  نہیں دیئے گئے۔جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس حوالے سے بہت سی مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ 
کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بہت سی برگزیدہ ہستیوں نے اپنی اولاد کی ولادت سے قبل ہی اپنی اولاد کے صالح اور پاکیزہ ہونے کی دعا مانگی؛ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے صالح بیٹے کی دعا مانگی‘ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی۔ سیدہ مریم علیہا السلام کی والدہ نے سیدہ مریم علیہا السلام کی ولادت سے قبل ہی اپنی ہونے والی اولاد کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے وقف کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے نیک ارادے کو کچھ یوںقبول فرمایا کہ حضرت مریم ؑ اپنی پاکیزگی اور پرہیز گاری کے سبب کائنات کی ممتاز ترین عورتوں میں شامل ہوئیں۔ آپ کو اللہ کی طرف سے بے موسم کے پھل ملنے لگے اور آپ کے یہاں پر بن باپ کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر نبی کی ولادت ہوئی۔کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اولاد کی ولادت کے بعد ان کے بہت سے حقوق ہیں جو والدین کے ذمہ واجب الادا ہیں‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں: 
1۔ اچھا نام رکھنا: اولاد کا اچھا نام رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ احادیث مبارکہ میں اولاد کے ناموں کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی گئی ہے ۔ اس حوالے سے ایک اہم ترین حدیث ِ مبارکہ درج ذیل ہیں:۔ 
صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ''تمہارے ناموں میں سے اللہ تعا لیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبد اللہ اور عبدالرحمان ہیں‘‘ ۔
اس حدیث مبارک سے معلوم ہوتا ہے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں؛چنانچہ والدین کو نام رکھتے ہوئے ان ناموں کو ترجیح دینی چاہیے‘ اسی طرح والدین کو ابنیاء علیہم السلام ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صلحا کے نام پر اپنی اولادوں کے نام رکھنے چائیں اور ایسے ناموں سے بچنا چاہیے ‘جن میں تکبر اور اپنی بے جا پاکیزگی کا اظہار ہو۔ 
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین نام اور حدیث کے راوی سفیان نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ روایت اس طرح بیان کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بدترین ناموں میں اس کا نام ہو گا‘ جو ''ملک الاملاک ‘‘یعنی شاہان شاہ اپنا نام رکھے گا۔‘‘ اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فخر اور غرور والے ناموں کو نا پسند فرماتے ہیں۔ 
2۔ عقیقہ کرنا: اولاد کی پیدائش کے بعدا ن کی طرف سے عقیقہ کرنے کو بھی غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہے:۔
1۔صحیح بخاری میں سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''کہ لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ لگا ہوا ہے ‘اس لیے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے گندگی دور کرو ( سر منڈا دو یا ختنہ کرو ) ۔‘‘
2۔جامع ترمذی میں سلمان بن عامرؓہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''لڑکے کی پیدائش پر عقیقہ ہے‘ لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ ( جانور ذبح کرو ) اور اس سے گندگی دور کرو‘‘۔
3۔جامع ترمذی میں حضرت ام کرز ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ''لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی‘ وہ جانور نر ہو یا مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ 
3۔ رضاعت: ماں کو اپنے بچے کی پیدائش کے بعدا س کو دو برس تک دودھ بھی پلانا چاہیے‘ یہ بچے کا حق ہے اور بلاسبب بچے کو اس حق سے محروم کرنا کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ آج کل بہت سی مائیں بغیر کسی معقول وجہ کے اولاد کو اس حق سے محروم کر دیتی ہیں‘ اسی ماؤں کی اصلاح کرنی چاہیے۔
4۔ تعلیم وتربیت کا اہتمام : اولاد کی مناسب تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اولاد کودنیاوی اور اخروی اعتبار سے تعلیم دلانا اور ان کو اچھے اخلاق سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے۔ بہت سے لوگ اپنی اولاد کی تعلیم اور تربیت کے بارے میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ان کی اولادیں بداخلاقی اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمان ؑکا بحیثیت باپ بڑے خوبصورت انداز میںذکر کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو بہت ہی خوبصورت نصیحتیں کیں تھیں۔ ان نصیحتوں میںشرک سے اجتناب‘ والدین کا احترام‘ نمازوں کا قیام‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی انجام دہی‘ صبر کی تلقین‘ چال میں میانہ روی‘ بے جافخر سے اجتناب اور آواز کو پست رکھنے جیسی خوبصورت نصیحتیں شامل ہیں۔ 
5۔ اولاد کو کارِ خیر میں شریک کرنا اور نیکی کا حکم دینا: والدین کو اپنی اولادوں کو خیر کے کاموں میں اپنے ساتھ شریک رکھناچاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر بیت اللہ کے واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب بیت اللہ کی تعمیر فرمائی توا س کارِخیر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی شریک کر لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اس بات کی تلقین کی ہے کہ انسان خود بھی نیکی کے کام کرے اور اپنی اولادوں کو بھی ان کاموں کا حکم دے؛چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طہٰ کی آیت نمبر 132میں ارشادفرماتے ہیں: ''اور حکم دیں اپنے گھروالوں کو نماز کا اور آپ (خود بھی) پابند رہیں‘ اس پر نہیں ہم سوال کرتے آپ سے رزق کا ہم (ہی تو) رزق دیتے ہیں آپ کو اور (اچھا) انجام تقویٰ (والوں ہی) کا ہے۔‘‘ اسی طرح سورہ تحریم کی آیت نمبر 6میں ارشاد ہوا ''اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے (کہ) اُس کاایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔‘‘
6۔ اولادکو بری صحبت سے بچانا: اولاد کو بری صحبت سے بچانا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ بری صحبت کے نقصانات واضح ہیں اور قرآن مجید کی سورہ فرقان سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت کے دن بری صحبت پر انسان پچھتائے گا؛ چنانچہ والدین کو اپنی اولادوں کی صحبت پر گہری نظر رکھنی چاہیے اورا ن کو برے دوستوں سے بچانے کے لیے بھرپور انداز میں جستجو کرتے رہنا چاہیے۔ 
7۔ نکاح کرنا:اولادوں کے جوان ہونے کے بعد ان کے جبلی‘ نفسیاتی اور طبعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے اچھے رشتوں کا چناؤ کرنا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ بعض والدین اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں‘جس کی وجہ سے اولادیں بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ 
8۔اولاد کے لیے دعا کرنا: مقدور بھراولاد کی تربیت کے لیے کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کو اولاد کے لیے دعا خیر بھی کرتے رہنا چاہیے۔ سورہ ابراہیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت سے دعاؤں کا ذکر کیا‘ جس میں انہوں نے اپنی اولادکے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کی دعا مانگی تھی۔ 
9۔وصیت: دنیا سے رخصت ہوتے وقت اولادکو خیر کے کاموں کی تلقین کرنااور نیکی پر استقامت اختیار کرنے کا سبق دینا بھی والدین کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 132‘133میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی وصیتوں کا ذکر کیا‘ جو انہوں نے اپنی اولادوں کی کیں تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور وصیت کی اس (دین) کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے (اپنے بیٹوں کو) اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے انتخاب کیا ہے تمہارے لیے دین تو تم ہرگز نہ مرنا‘ مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔ کیا تم تھے گواہ جب آئی یعقوب پرموت جب کہا انہوں نے اپنے بیٹوں سے کس کی تم عبادت کرو گے‘ میرے بعد وہ کہنے لگے؛ ہم عبادت کریں گے‘ تیرے معبود کی اور تیرے آباء واجداد ابراہیم ؑ اور اسماعیلؑ کے معبود کی اور اسحاق ؑ کے (یعنی)ایک معبود کی اور ہم اُسی کے فرمانبردار ہیں۔‘‘
اگر ان نکات پر عمل کر لیا جائے‘ تو اولاد کی دنیااور آخرت میں کامیابی کے امکانات پیداہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی اولادوں کو دنیا اور آخرت میں کامیاب فرمائے۔ (آمین )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں