والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنے عہد کے ایک بڑے خطیب تھے اور ملک کے طول وعرض میں ان کو مذہبی اور سیاسی اجتماعات سے خطاب کرنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ یہ 23مارچ 1987ء کی بات ہے کہ وہ حسب ِمعمول مینار پاکستان کے عقب میں واقع راوی روڈ پر ایک بڑی سیرت النبیﷺ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس کانفرنس سے خطاب کرنے کے دوران رات 11:30بجے کے لگ بھگ ایک بم دھماکہ ہوا‘ جس میں والد گرامی اپنے دیگر بہت سے رفقاء کے ساتھ زخمی ہوئے اور میو ہسپتال‘ لاہور میں 6دن تک ان کا علاج ہوتا رہا۔ بعدازاں ان کو علاج کے لیے سعودی عرب کے شہر ریاض کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ملٹری ہسپتال میں منتقلی کے چند گھنٹے بعد ہی آپ کی طبیعت میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہو گئی اور آپ 30 اور31مارچ کی درمیانی رات کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ میرے ان دنوں میں میٹرک کے بورڈ کے پیپرز ہو رہے تھے۔ اس سانحے کی وجہ سے میری امتحانی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی اور پریکٹیکلز سے قبل ہی مجھے اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ سعودی عرب جانا پڑا۔ والد گرامی کے سعودی عرب میں مقیم عرب اور غیر عرب دوست احباب محترم چچا ڈاکٹر فضل الٰہی کے گھر تعزیت کے لیے آتے رہے۔ بعدازاں میں اپنی والدہ اور بہن بھائیوں کے ہمراہ مدینہ طیبہ پہنچا۔ مدینہ طیبہ میں بھی والد گرامی کے عقیدت مند اور ان کے چاہنے والوں نے ان کے انتقال پر گہرے رنج وغم کا اظہارکیا۔ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبداللہ صالح العبید مجھے خود قبرستان لے کر گئے جہاں والد مرحوم کی تدفین کی گئی تھی۔
سعودی عرب سے واپسی پر پاکستان کے طول وعرض میں بسنے والے دوست احباب مسلسل رابطہ کرتے رہے۔ والد گرامی کی وفات نے میرے اور تمام اہل ِخانہ کے اعصاب پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے۔ جب بھی کبھی خوشی کا موقع آتا‘ ان کی یاد ستاتی ‘جب بھی کبھی خاندان میں شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہوتی تو ان کے خلاء کو محسوس کیا جاتا۔ دکھ اور تکلیف کے موقع پر بھی آپ کی شفقتیں اور محبتیں یاد آتی رہتیں۔ والد ہ آپ کی جدائی کے کرب کو بڑی شدت سے محسوس کرتیں اور دین اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے صبر اور خاموشی سے کام لینے کی جستجو کرتیں رہئیں ‘لیکن غم اور ذہنی دباؤ نے کچھ اس انداز میں ان کو اندرونی طور پر کھوکھلا کرتا رہا کہ وہ بھی زیادہ عمر نہ پا سکیں اور والد صاحب کی شہادت کے پانچ برس کے بعد ہی 1992ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ دادا اور دادی نے بھی اس صدمے کو بڑی شدت سے محسوس کیا ۔ دادی مرحومہ کی صحت مثالی تھی‘ لیکن اپنے بیٹے کے جاں بحق ہونے کے بعد ان کے اعصاب کمزور ہوتے چلے گئے ‘جس کے نتیجے میں ان کی صحت اور بینائی بھی متاثر ہونا شروع ہو گئی۔دادا مرحوم حاجی ظہور الٰہی ایک مضبوط اعصاب والے انسان تھے اور تجارت اور معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز کو بڑی قریب سے دیکھنے کے سبب آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑی ہمت سے نوازا تھا۔ عبادات میں پابندی اور پرہیز گاری کے سبب بھی آپ کے قویٰ عام لوگوں کے مقابلے میں بہت مضبوط تھے ‘لیکن بیٹے کی جدائی نے ان کو بھی اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیا اور کئی مرتبہ نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹے کے ذکر پر ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں لگ جاتیں۔ جوان بیٹے ‘ باپ یا شوہر کی موت یقینا ایساسانحہ ہے ‘جس کو برس ہا برس تک فراموش نہیں کیا جا سکتا اور مشاہدہ یہ بات بتلاتا ہے کہ جوان اموات رشتہ داروں اور دوستوں کو نفسیاتی طور پر کمزور اور کھوکھلا کر دیتی ہیں۔
والد گرامی کی وفات کے بعد پہنچنے والے صدمہ اور ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی مرتبہ میں سوچتا ہوں کہ کشمیری گزشتہ 73برسوں سے کس قدر ظلم اور بربریت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے ہزاروںگھروں سے جوانوں کے جنازے اُٹھائے جا چکے ہیں۔ ہزاروںبوڑھوں کی ڈاڑھیاں لہو میں تربتر کی جا چکی ہیں اور کثیر تعداد میں ماؤں‘ بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو کو پامال کیا جا چکا ہے۔ کشمیر کے لوگ ایک عرصے سے بے یقینی ‘ خوف اور اضطراب کی زندگی گزار رہے ہیں‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ اس کیفیت سے دوچار ہونے کے باوجود پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی آزادی کے لیے آواز اُٹھا رہے ہیں۔ ذہنی اذیتوں ‘ نفسیاتی دباؤ اور حکومتی ظلم کا نشانہ بننے کے باوجود کشمیریوں نے اپنی آزادی کے لیے آواز کو پوری شدومد سے اُٹھانے کے عمل کو تاحال جاری رکھا ہوا ہے۔ اہل ِکشمیر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی توجہ کے مستحق ہیں‘ لیکن اقوام عالم کا بین الاقوامی مسائل پر دُہرا معیار دنیا کے سامنے ہے۔ سوڈان یا انڈونیشیا کی مسیحی آبادیوں کے حقوق کا مسئلہ ہو تو اقوام عالم پوری شدومد سے آواز کو اُٹھانے کے لیے تیار ہوتی ہیں‘ لیکن کشمیر ‘ فلسطین اور برماکے مسائل کو مذہبی عصبیت اور جانبداری کی وجہ سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ جمہوری اور عوامی مطالبات کو اہل ِمغرب بڑی توجہ کے ساتھ سنتے ہیں؛ حتیٰ کہ علیحدگی کے لیے اُٹھنے والی آوازوں کو بھی نظر انداز کرنے کی بجائے ان معاملات میں عوام کی اکثریتی رائے کو جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے مسئلے کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی جستجو کی گئی‘ لیکن کشمیرکے تنازع پر اقوام عالم اور اقوام متحدہ نے وہ کردار ادا نہیں کیا‘ جس کے کشمیری مستحق تھے۔ اُمت مسلمہ کو بھی مذہبی نسبت سے اہل کشمیر کے مطالبات کو پوری قوت سے اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرصہ رابطہ عالم اسلامی کی سیکرٹری جنرل پاکستان آئے تو ان کے اعزاز میں مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق نے ایک پروقار ظہرانے کا اہتمام کیا۔ اس ظہرانے میں ڈاکٹر عبدالکریم العیسیٰ نے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم کی بھرپور انداز میں مذمت کی‘ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیریوں کو اُمت مسلمہ کی وہ تائید حاصل نہیں ہو سکی‘ جس کے وہ حقدار ہیں۔ او آئی سی جیسے نمائندہ ادارے بھی اس مسئلے کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں کرسکے۔ اقوام عالم اور اُمت مسلمہ کا کردار اپنی جگہ پر ایک دکھ بھری داستان ہے ‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل کشمیر اپنی آزادی کے حوالے سب سے زیادہ پاکستان کی توجہات کو طلب کرتے ہیں۔ کشمیریوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کی ایک بڑی وجہ ان کے مذہب کے ساتھ ان کی پاکستان سے والہانہ وابستگی ہے‘ جس کا اظہار پاکستان اور انڈیاکے درمیان ہونے والے کرکٹ میچز کے دوران بھی ہوتا ہے کہ پاکستان کی ٹیم کے جیتنے پر کشمیر کے لوگ پاکستانیوں سے بھی کہیں بڑھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ بدنصیبی سے پاکستان کے حکمرانوں نے کشمیر کے مقدمے کو اس انداز میں نہیں اُٹھایا جس انداز میں اس کو اُٹھایا جانا چاہیے۔
تحریک انصاف کے دور حکومت میں کشمیر کاز کے لیے بھر پور آواز اُٹھانے والے حافظ سعید صاحب کی تمام سرگرمیاں معطل ہو چکی ہیں اور بھارت نے کشمیر کی متنازع ریاستی حیثیت کو فراموش کرکے اسے کشمیر لداخ اور جموں میں تقسیم کردیا ہے ۔ بھارت اس وقت کشمیریوں کی جدوجہد کو قصہ پارینہ بنانے کی حکمت عملی کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ 5فروری کو دنیا بھر میں کشمیری اپنی آزادی کے لیے آواز اُٹھاتے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان کے بھی طول وعرض میں پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے‘ اس موقع پر کشمیر کے مسئلے کو اُٹھایا جاتا ہے۔ رائے عامہ ‘ مذہبی طبقات اور سیاسی جماعتیں تو اس مسئلے میں بڑے جوش وخروش کا اظہار کرتی ہیں‘ لیکن جب تک کشمیر کے مقدمے کو ریاستی سطح پر آگے نہیں بڑھایا جائے گا ‘اس وقت تک کشمیر کا مسئلہ معلق رہے گا۔ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے ماضی قریب میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرنے کا اشارہ دیا تھا‘ لیکن یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی مؤثر اقدامات نہیں اُٹھائے جا سکے۔
کشمیر کے لوگ اس اعتبار سے تحسین کے حقدار ہیں کہ انہوں نے نا مساعد اور ابتر حالات میں اب تک اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا ہوا ہے اور ان کی طرف سے قربانیاں دینے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ مذہب ‘ تاریخ اور سیاسیات کا مطالعہ ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ کشمیریوں کی یہ مسلسل قربانیاں ظلم وستم کی اندھیری رات کویقینا ایک دن ختم کر دیں گی‘لیکن اس رات کی طوالت کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی حکومت اور اہل پاکستان کو اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنا ہوگا۔