ہر سلیم الطبع انسان اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے اور بچوں کوہنستا اور مسکراتادیکھ کر اپنے دل میں فرحت کو محسوس کرتا ہے۔ بہت سے لوگ غیروں کے بچوں کو ہنستا ‘ کھیلتا دیکھ کر بھی خوشی محسوس کرتے ہیں اور معاشرے میں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں‘ جو بچوں کی تعلیم وتربیت میں غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ بھی ہیں‘ جنہوں نے بے سہارا بچوں کے لیے شیلٹر ہومز بنانے اور ان کے لیے مناسب تعلیم وتربیت کا بندوبست کرنے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے۔ اس کے برعکس معاشرے میں بعض ایسے اخلاق سے گرے ہوئے لوگ بھی دیکھنے کو مل جاتے ہیں‘ جو بچوں کے بارے میں برے تخیلات اور منفی جذبات رکھتے ہیں۔ یہ لوگ بچوں کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے کئی مرتبہ ان کی معصومیت کو بھی پامال کر دیتے ہیں۔ جب بھی کبھی بچوں سے زیادتی کا کوئی واقعہ منظر عام پر آتا ہے تو معاشرے کے حساس طبقات اس سے بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ اس قسم کے واقعات کے نتیجے میں کئی کئی دن تک پریشان اور مضطرب رہتے ہیں۔ معاشرے کا بڑا حصہ ‘ایسے لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتا ہے ‘جو بچوں کی معصومیت اور کم عمری کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی ہوس کو پورا کرتے ہیں۔
پاکستان میں جب بھی کبھی بچوں کے ساتھ کوئی سانحہ رونما ہوا‘ معاشرے کے تمام طبقات نے اس حوالے سے بھرپور ردّ عمل کا مظاہرہ کیا۔ پشاور اے ‘پی ‘ایس واقعہ پر پوری قوم دکھی اور رنجیدہ ہو گئی تھی‘ اس لیے کہ اس سانحے کا نشانہ بننے والے کمسن اور معصوم بچے تھے۔ اے پی ایس کے بعد پوری قوم ایک ہی مطالبہ تھا کہ معصوم بچوں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے درندوں کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے۔ ماضی میں کئی مرتبہ بچوں کی عصمت دری کے مختلف واقعات رپورٹ کیے جاتے رہے ہیں۔ کچھ برس قبل حسین خانیوالہ ضلع قصور کے حوالے سے جس وقت یہ اطلاعات موصول ہوئیں کہ حسین خانیوالہ میں بڑے پیمانے پر بچوں کا جنسی استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ویڈیوز بنا کر بیچی جارہی ہیں تو پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اس موقع پر میں خود بھی حسین خانیوالہ کے گاؤں میں موقع پر پہنچا اور مجھے بعض متاثرہ گھرانوں کے سرپرستوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ حسین خانیوالہ کے سانحے کے موقع پر بھی علاقے ‘ ضلع اور ملک بھر کے باشعور افراد کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کو کڑی سزا ملنی چاہیے اوران کو نشان عبرت بننا چاہیے۔ بدقسمتی سے حسین خانیوالہ میں ہونے والے سانحے میں ملوث افراد کسی نہ کسی طریقے سے سیاسی اور سماجی اثرورسوخ کا استعمال کرنے میں کامیاب ہو گئے اور انہیں کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکا۔ سانحہ حسین خانیوالہ کے بعد ضلع قصور ہی میں معصوم بچی زینب کے ساتھ ہونے والی درندگی اور اس کے خون ناحق پر پورے معاشرے میں دکھ‘ تکلیف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی اور لوگ تعزیت کے لیے جوق در جوق مظلوم خاندان کے پاس پہنچے۔ میں بھی اس موقع پر معصوم زینب کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ رہائش گاہ کے باہر عوام کا جم غفیر اور اشتعال دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہ تھا کہ لوگ اس قسم کے واقعات پر کس قدر بے چینی ‘ دکھ اور کرب کو محسوس کرتے ہیں۔ بعدازاں زینب کا استحصال کرنے و الا مجرم گرفتار ہوا اور اس کو سزائے موت سنائی گئی۔ اس سزائے موت پر پوری قوم نے اطمینان کا اظہار کیا۔ معصوم بچوں کے ساتھ ہونے والے استحصال کی روک تھام کے لیے ماضی میں مختلف طرح کی تجاویز سامنے آتی رہی ہیں۔ دینی طبقات کے ساتھ ساتھ معاشرے کو جنسی جرائم سے بچانے کے خواہشمند بہت سے سیاسی زعماء اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کا بھی یہی موقف تھا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ اس قسم کے واقعات میں ملوث مجرموں کو کڑی سزائیں دی جائیں۔ گو معاشرے میں این جی اوز سے وابستہ بعض نمایاں افرادنے ہمیشہ سزائے موت کی مخالفت کی ہے‘ لیکن اس مخصوص جرم کے حوالے سے این جی اوز کے مختلف نمائندگان کا بھی یہی موقف تھا کہ ایسے مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور ان کو عبرت کا نشان بناناچاہیے‘ تاکہ معاشرے میں منفی ذہن رکھنے و الے افراد کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
جب ہم اسلامی سزاؤں کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام نے کنوارے زانی اور زانیہ کے لیے 100 کوڑوں کی سزا مقرر کیا گیا ہے ‘جب کہ شادی شدہ بدکرداروں کے لیے سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا ہے‘ لیکن جب استحصال کا نشانہ بننے والے معصوم بچے ہوں توان کی سزا میں تعزیراً مزید سنگینی اور شدت کو پیدا کرنے کی گنجائش رہتی ہے۔
قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں حرابہ اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والے والوں کے بارے میں کڑی سزاؤں کا تقرر کیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں بھی جن لوگوں نے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا‘ ان کے لیے سزائے موت ہی کو مقرر کیاگیا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہے:۔
1۔''صحیح بخاری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ ( قبیلوں ) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول کریمﷺ نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ پئیں؛ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول کریم ﷺ کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول کریم ﷺ کے پاس ( اس واقعہ کی ) خبر آئی‘ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق ‘ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور ( مدینہ کی ) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ ( پیاس کی شدت سے ) وہ پانی مانگتے تھے‘ مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ حدیث کے راوی ابوقلابہ نے ( ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے ) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور ( آخر ) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کی۔‘‘
2۔اسی طرح صحیح بخاری میں ہی ایک انصاری لڑکی کا واقعہ بھی مذکور ہے جس کے سر کو ایک یہودی نے پتھروں کے درمیان رکھ کے کچل دیا تھا تو اس کے لیے بھی سزائے موت کو مقرر کیا گیا۔ حضرت انس ؓ سے یہ حدیث یوں مروی ہے:''ایک یہودی نے ایک ( انصاری ) لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان میں رکھ کر کچل دیا تھا۔ لڑکی سے پوچھا گیا کہ تمہارا سر اس طرح کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں شخص نے کیا؟ فلاں نے کیا؟ آخر یہودی کا بھی نام لیا گیا ( جس نے اس کا سر کچل دیا تھا ) تو لڑکی نے سر کے اشارے سے ہاں میں جواب دیا۔ پھر وہ یہودی بلایا گیا اور آخر اس نے بھی اقرار کر لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اس کا بھی پتھر سے سر کچل دیا گیا۔‘‘
بخاری شریف میں مذکور ان احادیث سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ سنگین نوعیت کے جرم کے مرتکب لوگ سزائے موت کے مستحق ہوتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ برائی کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کے عمل شنیع پر آج سے قبل دینی جماعتیں اور معاشرے کے حساس افرادآوازکو اُٹھاتے رہے لیکن یہ خوش آئند بات ہے کہ قومی اسمبلی میں بھی اس حساس اور اہم موضوع پر بحث کی گئی اور کثرت رائے سے یہ قرار داد منظور کر لی گئی کہ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کو سرعام سزائے موت دی جائے گی۔ اس قسم کی سزائیں یقینا جہاں پر مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں‘ وہیں پر ان سزاؤں سے مظلوم گھرانوں کی اشک شوئی اور دلجوئی بھی ہوتی ہے۔ سرعام سزاؤں سے منفی ذہن رکھنے والے افراد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور عام لوگوں کے لیے یہ سزائیں عبرت کا سبب بن جاتی ہیں؛ چنانچہ معاشرے میں اس قرار داد کے حوالے سے ایک مثبت ردعمل سامنے آیا اور لوگوں نے قومی اسمبلی اس کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ قومی اسمبلی ہی میں مختلف جماعتوں کے بعض افراد نے اس سزا کی مخالفت کی ہے ‘لیکن عوام کی اکثریت نے ان کے بیانیے کو مسترد کر دیا ہے اور ان کی رائے سے اتفاق نہیں کیاہے۔ اس قرار دادکی منظوری کے بعد یہ اُمید کی جاتی ہے کہ اس قسم کے دیگر جرائم کی روک تھام کے لیے بھی کتاب وسنت کی روشنی میں قانون سازی کی جائے گی‘ اگر یہ روایت قائم ہو گئی تو معاشرے کو جرائم سے پاک کرکے امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔