"AIZ" (space) message & send to 7575

اچھی صحبت کی اہمیت

انسان زندگی میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے اور اس دوران اُس کا واسطہ دوسرے انسانوں سے رہتا ہے۔ پچپن سے لے کر جوانی تک اور جوانی سے لے کر بڑھاپے اور اس کے بعد موت تک انسان کی تعلیمی ‘کاروباری اور سماجی ضروریات کے حوالے سے مختلف لوگوں سے پالا پڑتا رہتا ہے۔ زندگی کے اس سارے سفر کے دوران انسان بہت سے لوگوں کو اپنا دوست بناتا ہے۔ بعض لوگ اچھی فطرت اور طبیعت کے ہوتے ہیں؛ چنانچہ وہ اچھے دوستوں کا انتخاب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بعض لوگ دین اور اخلاق سے بہت دور ہوتے ہیں اور وہ اپنے ہی مزاج کے مطابق دوستوں کا انتخاب کرتے ہیں‘ تاہم زندگی میں اس کے برعکس معاملات بھی دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ بسا اوقات اچھی صحبت میں بیٹھنے والا انسان بھی بری دوستی کو اختیار کر لیتا ہے اور یہ دوستی اس کے اخلاق اور کردار کے بگاڑ کا باعث بن کر اس کی تباہی پر منتج ہو جاتی ہے۔ اسی طرح بہت سے بری صحبت میں بیٹھنے والے لوگ کسی اچھی سیرت اور کردار والے دوست کی صحبت کو اختیار کرکے برے اخلاق اور بدکرداری کے راستے سے دور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اس دوستی کے سبب سیدھے راستے پر گامزن ہو کر دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو جمع کر لیتے ہیں۔
مشہور انگریزی محاورہ ہے: A man is known by tha company he keeps. ''آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے‘‘ انتہائی معنی خیز ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے راویت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیک اور برے دوست کی مثال مشک ساتھ رکھنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے ( جس کے پاس مشک ہے اور تم اس کی محبت میں ہو ) وہ اس میں سے یا تمہیں کچھ تحفہ کے طور پر دے گا یا تم اس سے خرید سکو گے یا ( کم از کم ) تم اس کی عمدہ خوشبو سے تو محظوظ ہو ہی سکو گے اور بھٹی دھونکنے والا یا تمہارے کپڑے (بھٹی کی آگ سے ) جلا دے گا یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار بدبودار دھواں پہنچے گا۔
یہ حدیث مبارکہ دوستی اور مجلس کی حقیقت کو نہایت احسن انداز میں واضح کرتی ہے کہ اچھی صحبت کے انسان کی سیرت وکردار پر لازماً اچھے اثرات اور بری صحبت کے انسان کی سیرت وکردار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں؛ چنانچہ انسان کو حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے کہ اچھے اور مخلص دوستوں کی صحبت کو اختیار کرنے کی کوشش کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف کی آیت نمبر 28میں ارشاد فرمایا: ''اور روکے رکھیں اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ جو پکارتے ہیں اپنے رب کو صبح اور شام‘ وہ چاہتے ہیں اس کی خوشنودی اور نہ تجاوز کریں آپ کی آنکھیں ان سے‘ آپ چاہتے ہیں دنیوی زندگی کی زینت کو۔ اور نہ اطاعت کریں (اس کی) جسے ہم نے غافل کر دیا‘ اس کے دل کو اپنے ذکر سے اور اس نے پیروی کی اپنی خواہش کی ہے اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا۔‘‘
سورہ کہف کی اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ اہل ایمان سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ انہیں ان لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے‘ جو اپنے پروردگار عالم کو صبح وشام پکارتے ہیں اور ایسے لوگوں کی صحبت سے اعراض کرنا چاہیے‘ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد سے غافل اور اپنی خواہشات کے اسیر بنے ہوئے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ توبہ میں مومنوں اور منافقوں کی ترجیحات کا ذکر کیا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 71میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ان کے بعض دوست ہیں ‘بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے۔) وہ حکم دیتے ہیں‘ نیکی کا اور روکتے ہیں برائی سے اور وہ قائم کرتے ہیں نماز اور ادا کرتے ہیں زکوٰۃ اور وہ اطاعت کرتے ہیں اللہ اور اُس کے رسول کی۔ یہی (لوگ ہیں کہ )عنقریب رحم فرمائے گا اُن پر اللہ بے شک اللہ بہت غالب‘ نہایت حکمت والا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اہل ایمان ایک دوسرے کی دوستی کو اختیار کرتے ہیں اور ان میں مندرجہ ذیل اوصاف پائے جاتے ہیں: 
1۔ وہ معروف کام کا حکم دیتے ہیں ۔ 2۔ برائی سے روکتے ہیں ۔ 3۔نمازوں کو قائم کرتے ہیں ۔ 4۔ زکوٰۃ کو ادا کرتے ہیں۔ 5۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان پر رحمت فرماتے ہیں اور یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ زبردست حکمت والے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں اہل ایمان کے لیے جہاں اپنی رحمت کو طے کر لیا ہے ‘وہیں پر آخرت میں بھی اہل ایمان کے لیے جنتوں کو تیار کر لیا ہے؛ چنانچہ سورہ توبہ کی آیت نمبر72 میں ارشاد ہوا: ''وعدہ کیا ہے اللہ نے مومن مردوں سے اور مومن عورتوں سے (ایسے ) باغات کا (کہ) چلتی ہیں اُن کے نیچے سے نہریں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں‘ اُن میں اور پاکیزہ مکانوں کا ہمیشگی کے باغات میں اور خوشنودی اللہ کی طرف سے سب سے بڑھ کر ہو گی‘ یہ ہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ منافقوں کا طرزعمل اور انجام اہل ایمان کے برعکس ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اسی سورہ کی آیت نمبر67 ‘68میں اس امر کا اعلان فرماتے ہیں: '' منافق مرد اور منافق عورتیں اُن کے بعض بعض سے ہیں‘ وہ حکم دیتے ہیں برائی کا اور منع کرتے ہیں نیکی سے اور بند رکھتے ہیں اپنے ہاتھوں کو(خرچ کرنے سے)ـ اُنہوں نے بھلا دیا اللہ کو تو اُس نے (بھی) بھلا دیا انہیں بے شک منافق ہی نافرمان۔ وعدہ کیا ہے اللہ نے منافق مردوں سے اور منافق عورتوں سے اور کافروں سے جہنم کی آگ کا ‘ ہمیشہ رہنے والے ہیں اُس میں وہ کافی ہے اُنہیں اور لعنت کی اُن پر اللہ نے اور ان کے لیے عذاب ہے ہمیشہ رہنے والا۔‘‘جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کے باہم دوست ہونے کا ذکر کیا ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے قیامت کے روز بھی اہل ایمان کی باہم دوستی کا ذکرسورہ زخرف کی آیت نمبر 67 میں اس طرح کیا ہے۔ ''سب دلی دوست اس دن ان میں سے بعض بعض کے (یعنی ایک دوسرے کے) دشمن ہوں گے سوائے متقیوں کے (کہ وہ باہم دوست ہی رہیں گے۔)‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قیامت کے دن ناکام لوگوں کی ناکامی کی وجوہات کا بھی ذکر کیا‘ جن میں سے ایک وجہ بری دوستی بھی ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 29میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس دن دانتوں سے کاٹے گا ظالم اپنے ہاتھوں کو اورکہے گا اے کاش! میں اختیار کرتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے بربادی کاش میں نہ بناتا فلاں کو دلی دوست۔ بلاشبہ یقیناً اس نے مجھے گمراہ کردیا (اس) ذکر (یعنی قرآن) سے اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس۔ ‘‘
جب ہم تاریخ مذاہب اور تاریخ انسانیت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سابقہ انبیاء کے ساتھیوں کے بالمقابل نبی کریم ﷺ کے رفقاء اور ساتھی وفاداری کے اعتبار سے بلند مقام پر فائز تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جا کر لڑئیے ہم تو یہاں پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر جب ابتلا کا وقت آیا تو آپ کے قریبی ترین پطرس نے بھی آپ سے لاتعلقی کو اختیار کر لیا اسی طرح یہودہ اسکرودتی چاندی کے چند سکوں کے عوض باقاعدہ بے وفائی پر آمادہ ہو گیا تھا۔ اس کے مدمقابل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء اور ساتھی آپ کے ساتھ ہجرتوں کو کرنے والے‘ آپ کی ہمراہی میں جنگوں کو لڑنے والے اور آپﷺ کے حکم پر ہر قسم کی قربانیوں کو دینے کے لیے آمادہ وتیار رہا کرتے تھے۔ مہاجر اور انصار صحابہ اللہ کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لیے بھی دیدہ و دل فراش راہ رہا کرتے تھے۔ سورہ حشر کی آیت نمبر 7‘8میں یوں ارشاد ہوا: ''(یہ مال) ان محتاج ہجرت کرنے والوں کے لیے ہے جو نکالے (جدا کر دیے) گئے اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے وہ تلاش کرتے ہیں اللہ کی طرف سے فضل اورخوشنودی وہی (لوگ) ہی سچے ہیں اور (ان کے لیے بھی) جنہوں نے جگہ بنالی (اس) گھر (یعنی مدینے) میں اورایمان میں ان (مہاجرین)ـ سے پہلے ‘ وہ محبت کرتے ہیں (اُن سے) جس نے ہجرت کی ان کی طرف اور وہ نہیں پاتے اپنے سینوں میں کوئی خواہش (اور خلشـ) اس سے جو وہ دیے جائیں اور وہ ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں پر اور اگرچہ ان کو سخت ضرورت ہی ہو اور جو بچالیا گیا اپنے نفس کے حرص (یا بخیلی) سے تو وہی (لوگ) ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی رفاقت اور بے مثال کردار کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو تاریخ انسانیت میں امر کر دیا۔ مہاجر اور انصار صحابہ کے اگر کردار پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کو اپنے دینی‘ اعتقادی اور فکری دوستوں کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ وتیار رہنا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ دوستوں کا ایک دوسرے پر یہ بھی حق ہے کہ جب وہ دنیا سے چلے جائیں تو ہمیشہ اُن کے لیے دعائے خیر کرتے رہنا چاہیے‘ اسی طرح اپنے والدین اور بزرگوں کے دوستوں کے لیے بھی دعائے خیر کرنی چاہیے۔جیسا کہ سورہ حشر کی آیت نمبر10 میں اللہ تبارک وتعالیٰ مہاجر اور انصار صحابہ کے بعد آنے والے اہل ایمان کا یوں ذکر فرماتے ہیں: ''اور (ان لوگوں کے لیے) جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں؛ اے ہمارے رب ! ہمیں بخش دے اور ہمارے (ان) بھائیوں کو جنہوں نے ہم سے پہل کی ایمان لانے میں اور نہ ڈال ہمارے دلوں میں کوئی کینہ ان (لوگوں)ـ کے لیے جو ایمان لائے (اے) ہمارے رب! بے شک تو بہت شفقت کرنے والا بڑامہربان ہے۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اچھے اور مخلص دوست عطا فرمائے اور بری صحبت سے بچائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں