فروری کے آخری ہفتے میں ایوان ِ صدر کے سیکشن آفیسر اور اسسٹنٹ ڈائریکٹ نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے بتلایا کہ وزارت ِمذہبی اُمور و بین المذاہب ہم آہنگی اور اسلامی نظریاتی کونسل کے اشتراک سے 2مارچ کو ملک کے جید علمائے کرام اور خطبا و عظام کے ساتھ ایوان ِصدر میں ایک فکری نشست کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس فکری نشست میں ملک کو درپیش بعض اہم مسائل کے حل کے حوالے سے ملک کے جید علمائے کرام کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ وہ اہم عنوان ‘جن پر علمائے کرام سے تبادلۂ خیال کیا جاناتھا ‘درج ذیل ہیں:۔
1۔ پاک وسرسبز پاکستان۔ 2۔ تعلیم۔ 3۔صحت۔4۔ قانون 5۔ من گھڑت خبریں ۔
ان تمام اُمور پر تبادلۂ خیال کرنے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ان اہم عنوانات پر جہاں علمائے کرام کی تجاویز کو حاصل کیا جائے‘ وہیں پر ان اہم معاملات پر عوامی رہنمائی کے حوالے سے ریاست اور علماء کرام کے درمیان رابطے اور ہم آہنگی کو بھی قائم کیا جائے۔ 2مارچ کو ہونے والی اس کانفرنس میں شرکت کے لیے میں یکم مارچ کی سہ پہر 4بجے لاہور سے روانہ ہوا اور 9بجے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں جا پہنچا۔ ہوٹل کے منیجر نے بڑے پرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا اور کانفرنس میں شرکت کے حوالے سے خوش آمدید کہا۔ یکم مارچ کی رات مقامی ہوٹل میں گزارنے کے بعد 2مارچ کو ظہر کی نماز G-6کی مسجد میں ادا کی۔ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب ہوٹل واپس پہنچا تو پریذیڈنٹ ہاؤس کے پروٹوکول آفیسر اجمل حسین علماء کو پریذیڈنٹ ہاؤس لے جانے کیلئے موجود تھے۔ ہم 8 رفقاء پروٹوکول آفیسر کی رفاقت میں چند منٹ کے فاصلے پر موجود ایوانِ صدر میں 2بجے کے لگ بھگ جا پہنچے۔ پریذیڈنٹ ہاؤس پہنچنے پر وہاں کے عملے نے بڑے پرتپاک انداز میں استقبال کیا اور علماء کے لیے پہلے سے طے شدہ نشستوں پر ان کو بیٹھا دیا گیا۔ کچھ دیر بعد وفاقی وزیر مذہبی اُمور نور الحق قادری ایوان ِصدر کے اس ہال میں پہنچے ‘جہاں پر علماء کے ساتھ فکری نشست ہونی تھی۔ پیر نور الحق قادری نے تمام مہمانوں سے فرداً فرداً ان کی نشستوں پر جا کر ملاقات کی ۔ اس موقع پر ان کے ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز بھی موجود تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف الرحمن علوی ‘ایوانِ صدر کے اس مخصوص ہال میں داخل ہوئے ‘جہاں پر علما کرام کے ساتھ فکری نشست طے تھی۔ کچھ برس قبل مجھے سابق صدر مملکت ممنون حسین کی دعوت پر بھی ایوان ِصدر آنے کا موقع ملا تھا۔ ان بڑے بڑے محلات اور ایوانوں کے مکین کچھ برسوں کے بعد بدلتے رہتے ہیں‘ جو کہ درحقیقت انسانی زندگی کی ناپائیداری کی علامت ہے اور اس تبدیلی سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات میں حقیقی حاکم فقط اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی کی ذات ہے کہ جس کے اقتدار کو کسی قسم کا کوئی زوال نہیں۔ انہیں خیالات میں میں غلطاں و پیچاں میں اپنی نشست پر بیٹھا ہوا تھا کہ سٹیج سیکرٹری نے افتتاحی کلمات کہنے کے لیے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کو دعوت دی۔ ڈاکٹر عارف علوی صاحب نے اس موقع پر زیر بحث موضوعات اور عنوانات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے علماء کرام سے اس بات کی اپیل کی کہ علماء کو عوام الناس میں شعور اور آگہی کو بڑھانے کیلئے اپنا موثر اور مثبت کردار کو ادا کرنا چاہیے۔ صدر مملکت کے خطاب کے بعد وفاقی وزیر مذہبی اُمور نور الحق قادری اور اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی علماء اور ریاست کے باہمی ربط کے حوالے سے گفتگو کی۔ اس کے بعد مختلف شعبوں کے ذمہ دارن ان عنوانین سے متعلقہ وضاحت کرنے کے لیے باری باری علماء کے سامنے حقائق اور اعداد وشمار کو رکھتے رہے۔
وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے صحت کے عنوان پر گفتگو کی اور یہ بتلایا کہ پاکستان میں زچہ وبچہ کی صحت کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہیں‘ اسی طرح پاکستان میں وبائی امراض بھی آئے دن پھیلتے رہتے ہیں۔ ان وبائی امراض کے علاج کے لیے متعلقہ ویکسی نیشن کا استعمال کرنے کی بجائے علاج ومعالجہ کی سہولیات فراہم کرنیوالے کارکنان کے خلاف جارحیت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ جوکہ معاشرے کے فکری انحطاط کی دلیل ہے۔ انہوں نے ساتھ ہی اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ صحت فقط بیماری کے عدم وجود کا نام نہیں‘ بلکہ جسمانی ‘ روحانی اور ذہنی اعتبار سے صحت مند ہونا معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اس وقت معاشرے میں ذہنی امراض کا شکار افراد کی تعداد بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ ان تمام معاملات میں علماء کو قوم کی احسن انداز میں رہنمائی کرنی چاہیے۔ اس موقع موسمیاتی تبدیلی کے مشیر ملک امین اسلم نے سرسبز وشاداب پاکستان کے حوالے سے علماء کے سامنے اپنی تجاویز کو رکھا اور انہوں نے یہ بات بتلائی کہ موحولیاتی آلودگی کو دور کرنے اور ماحول کو بہتر کرنے کے لیے شجر کاری کی حوصلہ افزائی فقط ریاست نہیں کر سکتی‘ بلکہ اس کے لیے علماء کو بھی ذمہ دارانہ کردار اداکرنا ہوگا۔ پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون نے بھی اس موقع پر بعض اہم قوانین پر توجہ کو مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں وراثت کے معاملات‘ اسی طرح جنسی ہراسیت کے مسائل اور سماجی سطح پر موجودتنازعات کے حل کے لیے علماء کو اپناکردار اداکرنا ہو گا۔ گو‘ مسئلہ وراثت کو قرآن مجید میں بہت احسن انداز میں بیان کر دیاگیاہے‘ لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میںتاحال وراثت کی تقسیم کے حوالے سے کوتاہی‘ لاپروائی اور غفلت کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛ چنانچہ ان معاملات کی اصلاح ہونا ضروری ہے۔ وفاقی مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس موقع پر من گھڑت خبروں پر تشویش کا اظہار کیا اور یہ بات کہی کہ اگرچہ معاشرے میں جمہوری ترقی کے لیے میڈیا کی آزادی ضروری ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی توجہ دینا ہو گی کہ سوشل میڈیا پر کئی مرتبہ جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں‘ جس سے لوگوں کی نجی زندگی اور سماجی زندگی کو نقصان ہوتا ہے اس حوالے سے بھی علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وزیر تعلیم شفقت محمود نے اس موقع پر تعلیمی حوالے سے حکومت کی پالیسی کو بیان کرنے کے ساتھ مدارس کی معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے کی جانے والی کوششوں کا واضح انداز میںاعتراف کیا اور انہوں نے یہ بات کہی کہ معاشرے میں غریب بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جس انداز میں مدارس کردار ادا کر رہے ہیں‘ اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو شاید معاشرے میں تعلیم کی سطح مزید گر چکی ہوتی۔ انہوں نے اس موقع پر طبقاتی نظام تعلیم پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ ان خطابات کے بعد علماء کو پانچ گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ان تمام امور پر ان سے تجاویز کو پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ گروپوں میں فکری ‘نظریاتی ‘ قانونی اور شرعی اعتبار سے ان موضوعات پر مدلل گفتگو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی اور نماز مغرب کے گروپوں کے سربراہان نے اپنے اپنے موضوع سے متعلقہ تجاویز کو صدر مملکت اور وزراء کے سامنے پیش کیا۔ اس موقع پر قانون کے حوالے سے مجھے گفتگو کرنے کا موقع ملا‘تعلیم کے حوالے سے طاہر محمود اشرفی‘ صحت کے حوالے سے مولانا عارف حسین واحدی ‘پاک وسرسبز پاکستان کے حوالے سے مولانا غلام رسول سیالوی اور من گھڑت خبروں کے حوالے سے پیر امین الحسنات کو اپنے اپنے افکار پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس موقع پر اجلاس کے شرکاء کی آراء کی روشنی میں تمام گروپوں کے سربراہان نے اپنی اپنی تجاویز کو احسن انداز میں پیش کیا۔ جن کا خلاصہ یہی تھا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کتاب وسنت اور نظریہ ٔپاکستان کے ساتھ وابستگی انتہائی ضروری ہے‘ اسی طرح نظام خلافت راشدہ کے قیام اوراحیاء کے لیے جب تک سنجیدہ کوششیں نہیں کی جائیں گی ‘اس وقت تک صحیح معنوں میں ملکی مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ملک میں گندگی اور بیماریوں کو دور کرنے کے لیے جہاں پر حکومتی سطح پر تشہیر کرنے کی ضرورت ہے‘ وہیں پر عوامی رہنمائی کے لیے علماء کو بھی اپنا اپنا کردارادا کرنا ہو گا۔ قانون وراثت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے بھی علماء کو سال بھر میں 3سے 4خطبات اس موضوع پر ضرور دینے چاہئیں ‘تاکہ لوگوں میں اس مسئلے کی اہمیت اور حساسیت کو واضح کیا جا سکے۔ کوروناوائرس کے حوالے سے آئندہ خطبہ جمعہ میں توجہ دلانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ ان تمام اُمور کے ساتھ ساتھ متعلقہ عنوانین سے متعلق مواد کو علماء تک پہنچانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے اگر ریاست اور علماء باہم مربوط ہوں تو ان معاملات میں عوامی رہنمائی کو اچھے انداز میں پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ علماء اور ماہرین کی ان آراء کو صدر مملکت اور علماء نے بڑے ہی احسن انداز میںسراہا اور ان تجاویز کی روشنی میں ایک متفقہ لائحہ عمل کو پیر نور الحق قادری نے پیش کیا اور جس پر شرکاء مجلس نے اطمینان کا اظہار کیا۔ بعدازاں اختتامی کلمات کے لیے دوبارہ صدر مملکت کو دعوت دی گئی اور انہوں نے اس موقع پر علماء کی آمد پر تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا اوراس حقیقت کا اعتراف بھی کیا کہ خلفائے راشدین کا طرز عمل ہمارے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے اور اس حوالے سے انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کی سیرت کے اہم واقعات کو بھی شرکاء مجلس کے سامنے رکھا۔
اجلاس کے بعد اختتامی دعا ہوئی ‘جس کے بعد ایوان صدر میں علماء کرام کیلئے پرتکلف عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ اس عشائیے میں صدر مملکت اپنی کابینہ کے ساتھ بڑے پروقار انداز میں شریک رہے اور علماء کے ساتھ باہمی دلچسپی کے امور پر بھی گفتگو کی۔ الوداعی نشست کے خاتمے پر انہوں نے پرتپاک انداز میں علماء کرام کو الوداع کیا اور والد گرامی کے حوالے سے بھی اپنے خصوصی جذبات کا اظہار کیا۔
یوں ایوان ِصدر میں منعقد ہونے والی یہ تقریب بہت سی خوشگوار یادوں کو لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی!!