جب سے انسان اس زمین پر آبادہے‘ مردوزن کے باہمی ربط کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضرت آدم ؑ کو تخلیق کیا تو اُن کی پسلی سے ان کی اہلیہ ماں حواؑ کو بھی تخلیق کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام جب جنت سے زمین پر منتقل کیے گئے تو آپ کی اہلیہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔ آدم وحوا کے عہد سے لے کر آج تک اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار مردوں اورعورتوں کو پیدا کیا۔ مرد اور عورت کے مختلف روپ اورکردار ہیں۔ جس طرح ایک مرد باپ ‘ بیٹے‘ بھائی اور شوہر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو ادا کرتا ہے‘ اسی طرح عورت ماں ‘ بہن‘ بیٹی اوربیوی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتی ہے۔ عورت کا ہر روپ اپنی حیثیت میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ ماں کے روپ میں عورت احترام‘ محبت اور پیار کی ایک ایسی علامت ہے کہ جس کی عظمت اور تقدس کا احساس دنیا کے ہر ذی شعور فرد کے دل میں موجود ہے۔ جن لوگوں کی مائیں زندہ ہیں‘ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی ماؤں کی زندگی میں برکت عطا فرمادے اور جن کی مائیں دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں‘ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اپنی ماؤں کی کمی کو محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر انسان کو والدین کا ادب کرنے کی کی تلقین کی ہے‘ وہیں پر انسان کی ولادت میں ماں کے کردار کو نہایت احسن انداز سے بیان فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ لقمان کی آیت نمبر 14میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسن سلوک کی) اُٹھائے رکھا‘ اُسے اُس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری (کے باوجودـ) اور اُس کا دودھ چھڑانا دوسالوں میں (اور) یہ کہ تو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا میری ہی طرف (تم سب کا) لوٹنا ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے فرامین مبارک میں بھی ماں کی عظمت اور اہمیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں اجا گر کیاگیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔
1۔صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا'' اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں اور باپ کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا‘ ( واجب حقوق کی ) ادائیگی نہ کرنا اور ( دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر ) دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول گفتگو کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبیرہ گناہوں کے متعلق پوچھا گیا ‘تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا‘ ماں باپ کی نافرمانی کرنا‘ کسی کی جان لینا اور جھوٹی گواہی دینا‘‘۔
3۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: '' اللہ کے رسول! حسن سلوک ( اچھے برتاؤ ) کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں ‘ پھر پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں ‘ پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا باپ ‘ پھر پوچھا: اس کے بعد کون حسن سلوک ( اچھے برتاؤ ) کا سب سے زیادہ مستحق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر جو ان کے بعد تمہارے زیادہ قریبی رشتے دار ہوں‘ پھر اس کے بعد جو قریبی ہوں‘‘ ۔
ماں کے ساتھ ساتھ عورت کو دیگر حوالوں سے بھی اسلام میں بلند مقام عطا کیا گیا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹی کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ تکویر کی آیت نمبر 8‘9میں اس حوالے سے ارشاد فرمایا : ''اور جب زندہ دفن کی گئی (لڑکی) سے پوچھا جائے گا کہ کس گناہ کے بدلے وہ قتل کی گئی۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہی یہ قبیح رسم ختم ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ انتہائی پیار کیا کرتے تھے۔ خصوصاً حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓاور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ محبت تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓکے باہمی پیار اور محبت کے حوالے سے صحیح بخاری میں مذکور ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ اُحد کے دن زخم لگے تو علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے خون دھویا۔
سنن ابی داود میں حدیث ہے کہ عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ‘ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیٔت ‘ سیرت و صورت اور ایک روایت میں ہے‘ بات چیت میں فاطمہ ؓ سے زیادہ کسی کو مشابہ نہیں پایا ‘ جب وہ آتیں تو آپ ﷺان کا استقبال کرتے ‘ آپﷺ ان کا ہاتھ پکڑتے اور ان کا (پیشانی پر) بوسہ لیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھاتے ‘ اور جب آپ ﷺان کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ بھی آپ ﷺکا استقبال کرتیں ‘ آپﷺ کا ہاتھ پکڑتیں اور آپﷺ کا بوسہ لیتیں اور آپﷺ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں ۔ زمانہ جاہلیت میں لڑکی کی رضا مندی کے بغیر اس کا نکاح کر دیاجاتا تھا‘ لیکن آپﷺ نے جہاں پر ولی کی اہمیت کو اجاگر کیا‘ وہیں پر آپﷺ نے لڑکیوں کی رضا مندی کو بھی نکاح میں اہمیت دی؛ چنانچہ اس حوالے سے صحیح بخاری میں ایک حدیث درج ذیل ہے:۔
''جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ایک خاتون کو اس کا خطرہ ہوا کہ ان کا ولی ( جن کی وہ زیر پرورش تھیں ) ان کا نکاح کر دے گا؛ حالانکہ وہ اس نکاح کو ناپسند کرتی تھیں؛ چنانچہ انہوں نے قبیلہ انصار کے دو شیوخ عبدالرحمن اور مجمع کو جو جاریہ کے بیٹے تھے ؛کہلا بھیجا‘ انہوں نے تسلی دی کہ کوئی خوف نہ کریں‘ کیونکہ خنساء بنت خذام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے والد نے ان کی ناپسندیدگی کے باوجود کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو رد کر دیا تھا۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹی کا وراثت میں حصہ مقرر کرکے اس کے اقتصادی مستقبل کو بھی محفوظ فرما دیا۔ بہن انسان کی غیرت کی علامت ہے اور گھر میں رہتے ہوئے مجموعی طور پر بھائیوں کو بہنوں پر فوقیت دینے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ بعض لوگ خواہ مخواہ بہنوں پر رُعب جماتے اور ان کو نفسیاتی طور پر دبائے رکھتے ہیں یہ طرزِ عمل اسلامی اعتبارسے قطعاً درست نہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ بیوی کی حیثیت سے بھی عورت کو نمایاں مقام دیاگیا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ٔنساء کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرمایا : ''اور زندگی بسر کرو‘ اُن کے ساتھ اچھے طریقے سے پھر اگر تم ناپسند کرو اُن کو تو ہوسکتا ہے کہ تم ناپسند کرو کسی چیز کو اور رکھ دی ہو اللہ نے اُس میں بہت سے بھلائی۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے بہترین سلوک فرماتے رہے اور آپ ﷺنے اپنی اُمت کو بھی اپنے اہلخانہ کے ساتھ بہترین سلوک کی تلقین کی۔ نبی کریمﷺ کے اہل خانہ میں حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ اپنے وفا کے اعتبار سے اور حضرت عائشہ ؓ اپنی محبت اور رفاقت کے اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان خواتین نے جس انداز میں نبی کریم ﷺ کا ساتھ دیا اور جس انداز میں اپنی رفاقت کا حق ادا کیا اس میں یقینا اہل اسلام کیلئے بہترین نمونے والی باتیں موجود ہیں۔ عورت کے یہ تمام روپ ہی انتہائی خوبصورت ہیں‘لیکن یہ مقام تاسف ہے کہ بعض لوگ عورت کو اس کی اصل سے ہٹا کر اس کو چادر اور چار دیواری سے نکال کر اس کے تقدس کو مجروح کرنا چاہتے ہیں۔ اس کو ایسے حقوق کے حصول کے لیے اُکسانا چاہتے ہیں ‘جو کسی بھی پاکدامن اور شریف خاتون کے لیے کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہیں۔ عورت کا یہ حق ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اس کی عزت کی جائے ۔ماں کی حیثیت سے اس کی خدمت کی جائے‘ بیوی کی حیثیت سے اسے پیار کیا جائے‘ بیٹی کی حیثیت سے اس کو جائز حق دیا جائے‘ اس کی معاشی کفالت کی جائے اور وراثت میں اس کا جو حق مقرر ہے ا س کو ادا کیا جائے اور شادی بیاہ کے موقع پر لڑکی کی رائے کو اس سے پوچھا جائے ‘لیکن حقوق کی آڑ میں فحاشی‘ عریانی‘غیر مردوں سے شناسائی اور آزادانہ اختلاط کو کوئی بھی مذہبی اور مہذب معاشرہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہو سکتا۔
8 مارچ کو ہونے والے مارچ کے حوالے سے مذہبی طبقات کے یہی تحفظات ہیں کہ عورت کے حقوق کا تعین اللہ تبارک وتعالیٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے اور ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور غفلت کی انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے‘ لیکن ایسے مطالبے کو کسی بھی طور پر اسلامی معاشرے میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا ‘جن کے نتیجے میں عورت کا پردہ ‘حیاء ‘ شرم ‘ عفت‘ عظمت اور تقدس مجروح ہو؛ چنانچہ ہمارے معاشرے میں عورت کے حقوق کی بحالی کے لیے جو شخص بھی کردار ادا کرنا چاہتا ہے‘ اس کو کتاب وسنت میں بیان کردہ حقوق کی معرفت کو حاصل کرنا چاہیے اور ان کی ادائیگی کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے‘ تاکہ معاشرے کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی معاشرہ بنایا جا سکے!۔