دعا خالق اور مالک کے تعلق کے اظہار کا اہم ترین ذریعہ ہے اور ہر عہد کا انسان اپنے مسائل کے حل کے لیے دعا کا سہارا لیتا رہا ہے۔ دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی ہر قسم کی مشکلات اور مصائب کو دور فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186میں ارشادفرماتے ہیں: ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتادیں) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے ‘‘۔اسی طرح سورہ نمل کی آیت نمبر 62میں ارشاد ہوا: ''(کیا یہ بت بہتر ہیں ـ) یا جو (دُعا) قبول کرتا ہے لاچار کی جب وہ پکارتا ہے اُسے وہ دور کرتا ہے تکلیف کو اور وہ بناتا ہے تمہیں جانشین زمین میں کیا کوئی (اور) معبود ہے اللہ کے ساتھ‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر کیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام شجرہ ممنوعہ کھانے کے سبب اماں حوا کے ساتھ زمین پر اُتارے گئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دُعا مانگی ''اے ہمارے رب! ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر اور اگر نہ معاف کیا تو نے ہمیں اور (نہ) تو نے رحم کیا ہم پر (تو) ضرور ہم ہو جائیں گے خسارہ پانے والوں میں سے‘‘۔اسی حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر37 میں ارشادفرماتے ہیں: ''پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے چند کلمات پس وہ متوجہ ہوا اس پر (یعنی توبہ قبول کر لی) بے شک وہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘‘۔
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے جب آپؑ کی نافرمانی کی تو آپؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر ان کے لیے بددعا کی جس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قمر کی آیت نمبر 9‘10میں یوں کیا : ''ان سے قبل قوم ِنوح نے جھٹلایا پس انہوں نے جھٹلایا ہمارے بندے کو اور انہوں نے کہا یہ دیوانہ ہے اور اُسے ڈانٹا گیا تو اُس نے پکارا اپنے رب کو کہ بے شک میں مغلوب ہوں سو تو بدلہ لے‘‘۔ اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ اسی سورہ کی آیت نمبر 11سے 14میں یوںفرماتے ہیں : ''تو ہم نے کھول دیے آسمان کے دروازے زور سے برسنے والے پانی کے ساتھ اور ہم نے جاری کر دیے زمین سے چشمے تو مل گیا (زمین وآسمان کا ) پانی ایک کام پر (جو) یقیناً مقدر کیا گیا تھا اور ہم نے اُسے سوار کیا تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر جو چلتی تھی ہماری آنکھوں کے سامنے (یہ سب کچھ اس شخص کے) بدلے کے لیے ہے جس کا انکار کیا گیاتھا ‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب عقیدۂ توحید سے وابستگی اور بت پرستی سے برأت کی پاداش میں جلتی ہوئی چتا میں اتارا گیا تو ایسے عالم میں آپ نے کہا :میرے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کار ساز ہے۔ آپ ؑ کی دعا کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جلتی ہو ئی چتا کوسلامتی والی ٹھنڈک میں تبدیل فرما دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے کہ جب وہ پردیس میں تھے توآپ نے دعا مانگی : ''(اے میرے) رب بے شک میں (اس) کا جو تو نازل فرمائے بھلائی سے میری طرف محتاج ہوں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی دعا کو قبول ومنظور فرماتے ہوئے مدین ہی میں آپ کے لیے سکونت اور رشتے کا بہترین انداز میں بندوبست فرما دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کی دعا کا بھی ذکر کیا ہے کہ جب آپ مچھلی کے پیٹ میں تھے تو آپ نے اندھیروں میں یہ دعا مانگی : ''کہ کوئی معبود نہیں تیرے سوا تو پاک ہے بے شک میں ہی ظالموں میں سے ‘‘۔ حضرت یونس علیہ السلام کی فریاد کو قبول کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے غم کو دور فرما دیا اور فقط آپ کے غم ہی کو دور نہیں کیا بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ساتھ یہ بھی نوید سنائی کہ وہ اسی طرح اہلِ ایمان کے غم کو بھی دور فرماتے ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ سورہ انبیاء کی آیت نمبر 83‘84میں حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کے حوالے سے ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ایوبؑ کو (یاد کیجئے) جب اس نے پکارا اپنے رب کو کہ بے شک پہنچی ہے مجھے تکلیف اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے رحم کرنے والوں میں تو ہم نے دعا قبول کر لی اس کی پس ہم نے دور کر دی جو اس کو تکلیف تھی اور ہم نے دیے اسے اس کے گھر والے اور ان کی مثل (اور لوگ بھی) ان کے ساتھ رحمت کرتے ہوئے اپنی طرف سے اور (یہ) نصیحت ہے عبادت کرنے والوں کے لیے‘‘۔ حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے خالو اور ان کے کفیل تھے۔ آپ جب محراب میں داخل ہوتے تو سیدہ مریم کے پاس بے موسم کے پھل پاتے ۔ آپ بے اولاد تھے ‘ اس کیفیت کو دیکھ کر حضرت زکریا علیہ السلام کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سیدہ مریم کو بے موسم کے پھل عطا کر سکتا ہے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے بڑھاپے میں اولاد بھی عطا کر سکتا ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس واقعہ کو کچھ یوں بیان فرمایا: ''تو قبول کر لیا اسے اس کے رب نے احسن طریقے سے اور پروان چڑھایا اسے بہترین (انداز میں) اور سرپرست بنایا اس کا زکریا کو ‘ جب کبھی داخل ہوتے زکریاؑ اس کے پاس حجرے میں (موجود) پاتے اس کے پاس کھانے پینے کی اشیاء (یہ دیکھ کر ایک مرتبہ) پوچھا اے مریمؑ کہاں سے (آتا ہے) تیرے پاس یہ (سب کچھـ) وہ بولیں وہ اللہ کی طرف سے ہے‘ بے شک اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے بے حساب۔ اسی جگہ (اسی موقع پر) دعا کی زکریاؑ نے اپنے رب سے (اور) کہا اے میرے رب! عطا کر مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ (صالح) اولاد بلاشبہ تو دعا کو سننے (قبول کرنے) والا ہے۔ تو آواز دی اسے فرشتوں نے اس حال میں کہ وہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے عبادت گاہ میں کہ بے شک اللہ خوشخبری دیتا ہے آپ کو یحییٰ ؑکی (جو) تصدیق کرنے والے ہیں اللہ کے ایک کلمہ (عیسیٰؑ) کی اور (وہ) سردار اور عورتوں سے بے رغبت ہوں گے اور نبی ہوں گے نیک لوگوں میں سے‘‘۔
نبی کریمﷺ بھی زندگی کے ہر دور میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی آپؐ کے پاس دعائیں کروانے کے لیے آتے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں مذکور ایک اہم واقعہ ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں قحط پڑا‘ آپﷺ خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا: یا رسول اللہﷺ! جانور مر گئے اور اہل و عیال دانوں کو ترس گئے‘آپؐ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے‘ اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ابھی آپﷺ نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپﷺ ابھی منبر سے اترے بھی نہ تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ ﷺ کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ ( دوسرے جمعہ کو ) یہی دیہاتی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہو گئیں اور جانور ڈوب گئے آپؐ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے‘ آپﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے‘ ادھر مطلع صاف ہو جاتا۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناۃ کا نالا مہینہ بھر بہتا رہا اور اردگرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھرپور بارش کی خبر دیتے رہے۔
صحیح بخاری میں دعا کی قبولیت کے حوالے سے سابقہ اُمتوں کا ایک خوبصورت واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی‘ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی‘ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی ( اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا‘ جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے ) اب‘ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔تینوں اشخاص نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعا کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غار کے پتھر کو ہٹا دیا اور تینوں اشخاص غار سے باہر آ گئے۔ ان تمام واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ دعاؤں کی وجہ سے انسانوں کی مشکلات کو دور کرتے ہوئے ‘ ان کے مصائب کو ٹال دیتے ہیں اوران کی ضروریات کو پورا فرماتے ہیں۔ ہمیں بھی ہر حال میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے رہنا چاہیے‘ خصوصاً ان ایام میں جب وبائی امراض کی وجہ سے پوری امتِ مسلمہ اور پاکستان میں اضطراب اور تشویش کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں کثرت سے دعا مانگنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے ملک سے اس آفت کو دور کرے اور تمام مسلمان مریضوں کو شفایاب فرمائے اور جو لوگ تندرست ہیںان کو عافیت عطا فرمائے ۔