انسان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی زمین پر والدین انتہائی قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ والدین کی محبتیں‘ دعائیں اور تمنائیں انسان کی کامیابی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔
انسان جب کسی پریشانی یا اذیت کا شکار ہوتا ہے تو اس کے والدین اس کو دلاسا دیتے اور اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور انسان اگر خوشی ‘ فرحت یا کسی کامیابی سے ہم کنار ہوتا ہے‘ تو اس کے والدین اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ والدین کی زندگی میں کئی لوگ ان کی قدروقیمت کو صحیح طور پر نہیں پہچان پاتے‘ لیکن ان کی رخصتی یا جدائی کے بعد ان کی حقیقی قدروقیمت کا انسان کو اندازہ ہو جاتا ہے۔ بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنے والے لوگ یقینا سعادت مند ہیں ‘لیکن بعض والدین بڑھاپے کی سرحدوں میں داخل ہوئے بغیر ہی انسان کو داغ مفارقت دے جاتے ہیں۔
ایسے والدین کی اگرچہ انسان خودتو خدمت نہیں کر سکتا‘ لیکن اس کو ان کے لیے دعائے مغفرت کرکے اور ان کی نصیحتوں پر عمل پیرا ہو کر ان کے ساتھ نسبتوں کے حق کوا دا کرنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ اس معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تادیر والدین کی رفاقت ‘ ہمراہی اور سرپرستی سے فیضیاب ہوتی رہتی ہے۔ جب کہ لوگوں کا ایک حصہ اوائل عمری ہی میں ان کی شفقتوں‘ محبتوں اور رہنمائی سے محروم ہو جاتا ہے۔
مجھے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولنے کا موقع ملا‘جہاں پر والدین کی بھرپور شفقتیں تھیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کا پیار اور حوصلہ افزائی میرے ساتھ رہی۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر اپنے وقت کے ایک بڑے خطیب‘ قلمکار اور رہنما تھے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کو جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی طرف بلانے میں صرف کی‘ وہیں وہ اپنی اولاد کی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دیتے رہے۔ بچپن میں کئی مرتبہ وہ خود ہمیں سکول چھوڑنے کے لیے چلے جایا کرتے تھے۔ جب میں تھوڑا سا بڑا ہوا تو انہوں نے سکول جانے کے لیے مجھے ایک سائیکل لے کر دی اور کئی مرتبہ خود بھی سائیکلنگ کرتے ہوئے میری سائیکل کے ساتھ اپنی سائیکل کو جوڑ دیا کرتے تھے اور راستے میں بڑے ہی خوشگوار انداز میں کچھ اچھی باتیں اور نصیحتیں بھی کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے ورزش کے لیے پولو گراؤنڈ میں چار گھوڑوں کو رکھا ہوا تھا اور گھڑ سواری کے لیے بھی ایک عرصے تک ہمیں اپنے ساتھ پولو گراؤنڈ کے رائیڈنگ سکول میں لے کر جاتے رہے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے روحانی اور جسمانی اعتبار سے صحت مند ہوں؛ چنانچہ وہ صبح سویرے ورزش کے لیے ہمیں رائیڈنگ سکول لے کر جاتے اور اپنا گھوڑا چلانے کے دوران میرے گھوڑے کو بھی کئی مرتبہ چابک رسید کر دیتے اور میرے گھوڑے کو بھاگتا دیکھ کر مسکرا اُٹھتے۔ انہوں نے اپنے گھر میں مطالعہ کے لیے ایک وسیع لائبریری کو قائم کیا‘جس میں عربی ‘ فارسی اور اردو کتب بکثرت موجود تھیں‘ جس میں وہ اکثر وبیشتر مطالعہ کے لیے اپنے وقت کو صرف کیا کرتے تھے اور اس دوران میں بھی اُن کی لائبریری میں موجوداُردو کتب سے گاہے بگاہے استفادہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا۔ اس مطالعے کے دوران کئی مرتبہ جب میرے ذہن میں مختلف طرح کے اشکالات پیدا ہوتے تو میں والد گرامی سے ان اشکالات کے حوالے سے سوال کرتا تو وہ بہت ہی احسن انداز میں میرے سوالات کا جواب دیتے۔ ان جوابات کو سننے کے بعد اکثر وبیشتر میری تشنگی دُور ہو جایا کرتی تھی۔ مجھے کئی برس ان کے جمعہ کے خطبات سننے کا بھی موقع ملا اور میں جب بھی کبھی چینیانوالی مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کے بعد ان کے ہمراہ فارغ ہو کر نکلتا تو ان کے پُرجوش اور مدلل خطاب کی وجہ سے اپنے اندر نیا حوصلہ اور توانائی کو محسوس کرتا۔ میں زندگی میں بہت دفعہ ان کے ساتھ بیرون شہر جلسوں ا ور اجتماعات میں شرکت کے لیے بھی جاتا رہا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ کی تقریر کو ہمہ تن گوش ہو کر سنا کرتے تھے اور آپ کے خطاب میں جہاں پر علم کی چاشنی موجود ہوتی تھی‘ وہیں پر جذبات کی فراوانی بھی خوب ہوا کرتی تھی اور لوگ آپ کے خطاب کو سننے کے بعد اپنے ایمان کو بڑھتا ہوا محسوس کیا کرتے تھے۔ آپ کو سیرت النبی ﷺ اور عظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بیانات سے خصوصی دلچسپی تھی۔ آپ کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان کے نوجوان نبی کریمﷺ کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرزِ عمل سے رہنمائی حاصل کیا کریں۔ وہ ہمیشہ نبی کریمﷺ کو بطورِ قائد اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطورِ کارکنان لوگوں کے سامنے رکھا کرتے تھے ۔ ان کے نزدیک ایک مثالی قائد کو نبی کریمﷺ کی سیرت کی پیروی کرنے کی ضرورت اور ایک کارکن کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ آپ کی تقریروں کو سن کر لوگوں کے دلوں میں نبی کریمﷺ کی والہانہ محبت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی والہانہ عقیدت پیدا ہو جایا کرتی تھی۔ آپ کی خطابت کا ایک بڑا حصہ ختم نبوتؐ سے متعلق بھی تھا۔
آپ نے اپنی زندگی میں ملکی سطح پر ہونے والی تحریکوں میں بھی نمایاں کردار ادا کیا اور ختم نبوتؐؐ اور تحریک نظام مصطفی ؐ کی تحاریک کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ آپ نے ان دونوں تحریکوں کے دوران ملک کے طول وعرض میں بہت بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور لوگوں کو عقیدہ ختم نبوتؐ اور نظام مصطفی ؐ کی اہمیت سے آشنا کیا۔ آپ نے بھر پور سیاسی زندگی بھی گزاری اور آپ کی سیاست کا مقصد کتاب وسنت کی عملداری تھی اور آپ اس کے لیے پوری زندگی یکسو رہے اور کسی بھی موقع پر آپ اپنے اس نظریے سے دستبردار نہ ہوئے۔
آپ کے نزدیک پاکستان کی بقاء پاکستان کے اساسی نظریات سے وابستہ تھی۔ آپ اس بارے میں شرح صدر رکھتے تھے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس کا مستقبل بھی اسلام اور جمہوریت سے وابستہ ہے؛ چنانچہ جب بھی کبھی پاکستان کے دستور کو معطل کیا گیا اور پاکستان میں آمریت کا دور دورہ ہوا آپ نے بھرپور انداز میں آئین اور شہری حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کی۔ ایوب خان‘ یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے اقتدار خلاف آپ نے بھرپور انداز میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کی جستجو کی اور ا س دوران آپ کو بہت سے مقدمات کو بھی جھیلنا پڑا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں متعدد بار آپ جیل میں بھی گئے‘ لیکن اس کے باوجود آپ اپنے اصولی موقف سے دستبردار نہ ہوئے۔
آپ ایک کشادہ دل کے انسان تھے اور سماجی تعلقات کے راستے میں نظریاتی اختلافات کو بھی حائل نہ ہونے دیتے تھے؛ چنانچہ ملک میں ہر طرح کے سیاسی اورمذہبی نقطہ نظر رکھنے والوں کے ساتھ آپ کے وسیع پیمانے پر تعلقات رہے اور آپ نے اپنے مخالف ذہن اور سوچ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ بھی بھرپور دوستانہ اورگرم جوشی والی زندگی گزاری۔ نواب زادہ نصراللہ خان کے ساتھ آپ کے خصوصی تعلقات تھے اور وہ بھی آپ کے ساتھ بیٹوں والا معاملہ کیا کرتے تھے۔ قومی سطح کے سیاستدانوں اور علماء کے ساتھ ساتھ ملک کے نامور صحافیوں کے ساتھ بھی آپ کے بڑے اچھے اور خوش گوار تعلقات تھے اور وہ آپ کی شخصیت کے معترف اور مداح تھے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی آپ کا حلقہ ارادت اور عقیدت بہت زیادہ وسیع تھا اور آپ بین الاقوامی طور پر بھی مختلف سماجی اور تبلیغی اسفار کو بھی جاری رکھا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کو بڑے متحرک انداز میں گزارا اور گرمی‘سردی اور دیگر موسموں کے دوران تبلیغ دین کے سفر کو جاری رکھا۔
23مارچ 1987ء کو جب آپ زخمی ہوئے تو آپ اس وقت بھی سیرت النبی ؐ کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔ اس اجتماع میں ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں متعدد افراد شدید زخمی ہو گئے اور بہت سے لوگ دنیافانی سے کوچ کر گئے۔ آپ بھی اس حادثے میں جانبر نہ ہو سکے اور چند روز پاکستان میں گزارنے کے بعد شاہ فہد کی دعوت پر آپ کو علاج اور معالجے کے لیے ریاض کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ جہاں پر آپ کا انتقال ہوا اور آپ کی نماز جنازہ ریاض کی مسجد الکبیر میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ ابن باز نے پڑھائی۔ بعدازاں آپ کے جسد خاکی کو مدینہ منورہ منتقل کیا گیا اور آپ کا جنازہ دوبارہ مسجد نبوی شریف میں پڑھایا گیا اور آپ کو مدینہ منورہ کے قبرستان بقیع الغرقد میں دفن کیا گیا۔ جہاں آپ قیامت کی دیواروںتک کے لیے محو خواب ہو گئے؛ اگرچہ آپ دنیامیں نہیں رہے‘ لیکن آپ کے اصول ‘ ضابطے اور نصب العین بالکل واضح ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد آج بھی آپ کے نظریے سے استفادہ کرتے ہوئے کتاب وسنت کے راستے پر چلنے کی جستجو کر رہی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے!