"AIZ" (space) message & send to 7575

آفات اور حادثات کے اسباب

انسان مختلف ادوار میں حادثات‘ آفات‘ پریشانیوں اور بیماریوں کی لپیٹ میں آتا رہا ہے۔ ان قدرتی آفات اور حادثات کے بارے میں مختلف ماہرین اپنے اپنے تجربے‘ مشاہدے اور علم کی روشنی میں غور وفکر کرتے رہتے ہیں۔ زلزلہ‘ سیلاب‘ آفات اور وباؤں کا تجزیہ ماہرین ارضیات اور اطباء اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں اور اس حوالے سے سائنس اور علم کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل میں ان کے تدارک کے لیے بھی کوششیں کی جاتی ہیں۔ ان حادثات‘ آفات اور پریشانیوں کے روحانی تجزیے کی بھی ہمیشہ سے ضرورت محسوس کی جاتی رہی ہے اور ان ایام میں بھی اس امر کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ کر نظر آتی ہے۔ کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان قدرتی حادثات‘ آفات اور پریشانیوں کی تین اہم وجوہات ہیں:۔ 
1۔ مجرموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب : مختلف زمانوں میں قدرتی آفات مجرموں پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا بن کر اترتی رہی ہیں؛ چنانچہ سورہ ہود کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قوم نوح پرسیلاب آیا‘ قوم عاد تیز رفتار آندھیاں کا نشانہ بنی‘ قوم ثمود کے لوگوں پر چیخ اورچنگھاڑ کا عذاب آیا‘ قوم لوط پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان سے پتھروں کی بارش برسائی۔ اسی طرح قوم مدین پر بھی قوم عاد کی طرح چنگھاڑہی کو مسلط کیا گیا۔ آل فرعون پر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے بہت سے عذاب آئے‘ سورۂ عراف کی آیت نمبر 132‘  133میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان عذابوں کا کچھ یوں ذکر فرمایا ہے: ''اور انہوں نے کہا‘ جو بھی تو لائے گا ہمارے پاس کوئی نشانی تاکہ تو جادو کرے ہم پر اُس کے ذریعے تو نہیں ہیں ہم آپ پر ایمان لانے والے؛ چنانچہ ہم نے بھیجا اُن پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک‘ اور خون (جو) نشانیاں تھیں الگ الگ پھر (بھی) اُنہوں نے تکبر کیا اور تھے‘ وہ لوگ مجرم۔‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قارون کا بھی ذکر کیا جس کو اللہ نے بہت بڑے خزانے دیئے تھے لیکن جب اس نے اس خزانے کو 
اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطاسمجھنے کی بجائے اپنے علم سے منسوب کیااور دنیاوالوں سے حسن سلوک کرنے کی بجائے غروراور کبر کا اظہار کرنے لگا تواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اس کے گھر اور خزانے سمیت زمین میںدھنسادیا‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ کہف میں دو باغبانوں کا ذکر کیا ‘جن میں سے ایک باغبان مالی اعتبار سے قدرے کم حیثیت کا حامل ہونے کے باوجوداللہ تبارک وتعالیٰ کا تابع فرمان تھا جب کہ دوسراباغبان اپنے باغ کی وسعت پر نازاںاور فرحاں تھا۔ چھوٹا زمیندار بڑے زمیندار کو ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کو استوار کرنے کی نصیحت کرتا لیکن وہ اس کی نصیحت کو ماننے پر آمادہ وتیارنہ ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ کہف کی آیت نمبر 32سے    42میں اس واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں: ''اور بیان کیجئے ان کے لیے ایک مثال دو آدمیوں کی (کہ) ہم نے بنائے ان دونوں میں سے ایک کے لیے دوباغ انگوروں سے اور ہم نے باڑ لگادی ان دونوں کے اردگرد کھجوروں کی اور ہم نے کی ان دونوں کے درمیان کچھ کھیتی۔ دونوں باغوں نے دیااپنا پھل اور نہ کمی کی اس میں سے کچھ بھی اور ہم نے جاری کر دی ا ن دونوں کے درمیان ایک نہر اور تھااس کے لیے (بہت) پھل‘ تو کہا اس نے اپنے ساتھی سے اس حال میں کہ وہ بات کر رہا تھا اس سے میں بہت زیادہ ہوں تجھ سے مال میں اور زیادہ باعزت ہوں نفری کے لحاظ سے اور وہ داخل ہوا اپنے باغ میں اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والا تھا اپنے نفس سے‘ اس نے کہا؛ نہیں میں گمان کرتا کہ تباہ ہو گا یہ کبھی بھی اور نہیں میں خیال کرتا قیامت کا (کہ وہ) قائم ہونے والی ہے اور واقعی اگر مجھے لوٹا یا گیا میرے رب کی طرف ضرور بالضرور میں پاؤں گا بہتر ان (باغات) سے لوٹنے کی جگہ۔ کہا ؛اس سے اس کے ساتھی نے اس حال میں کہ وہ بات کر رہا تھااس سے کیا تو نے کفر کیا ہے (اس ذات) سے جس نے پیدا کیا تجھے مٹی سے پھر ایک قطرے سے پھر اس نے ٹھیک ٹھاک بنا دیا تجھے ایک آدمی‘ لیکن میں (تو کہتا ہوں) وہ اللہ میرا رب ہے اور نہیںمیں شریک بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو اور کیوں نہ جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں تو نے کہا؛ جو اللہ چاہے (وہی ہو گا) نہیں کوئی طاقت ‘مگر اللہ (کی مدد) سے۔ اگر تو دیکھتا ہے مجھے (کہ) میں کم تر ہوں تجھ سے مال اور اولاد میں۔ تو قریب ہے کہ میرا رب دے مجھے بہتر تیرے باغ سے اور وہ بھیج دے اس پر کوئی 
عذاب آسمان سے پھر وہ ہو جائے صاف میدان یا ہو جائے اس کا پانی گہرا تو ہرگز نہ تو استطاعت رکھے گا اس کو ڈھونڈلانے کی۔ اور گھیر لیا گیا (یعنی تباہ کر دیا گیا) اس کے پھل کو تو اس نے صبح کی (اس حال میں کہ) وہ ملتا تھا اپنی دونون ہتھیلیاں اس پر جو اس نے خرچ کیا اس میں اس حال میں کہ وہ گرا ہوا تھا‘ اپنی چھتوں پر اور وہ کہتا تھا ؛اے کاش! میں‘ شریک نہ بناتا اپنے رب کے ساتھ کسی ایک کو۔ ‘‘ ان واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کو ٹالنا نا ممکن ہے اور اس طرح کے واقعات اور مثالوں سے عبرت حاصل کرکے پیچھے رہ جانے والے انسانوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
2۔ گناہ گاروں کو تنبیہ: اللہ تبارک وتعالیٰ اس طرح کی قدرتی آفات اور حادثات سے گناہ گاروں کو تنبیہ بھی فرماتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی کی وجہ سے ہے ‘جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے۔‘‘اسی طرح انسانوں کی اجتماعی معصیت کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے اُنہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘(یعنی باز آجائیں)‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ایک بستی کا ذکر کیا جوفقط اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پکڑ کا نشانہ بنی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینان والی آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی ‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘ ان واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ درحقیقت انسانوں کی زندگی میں آنے والی تکالیف اور مشکلات کا تعلق انسانوں کے اپنے نامہ اعمال کے ساتھ ہے؛ چنانچہ انسان کو ایسے مواقعوں پر توبہ اور استغفار کے راستے کو شدت سے اختیا ر کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ توبہ اور استغفار کی وجہ سے انسانوں کے تمام گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں چنا نچہ سورہ زمر کی آیت نمبر 53میںارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیجئے اے میرے بندو! جنہوں نے زیادتی کی اپنی جانوں پر نااُمید نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے بے شک اللہ بخش دیتا ہے سب گناہوں کو بے شک وہی بہت بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔‘‘توبہ اور استغفار کے ساتھ ساتھ انسان کو قرآن مجید کی تلاوت‘ ذکر اذکار اور انفاق فی سبیل للہ کے ذریعے اپنی پریشانیوں کو ٹالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان اعمال صالحہ کی برکات سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کی مشکلات کو دور فرما دیتے ہیں۔ 
3۔ نیکو کاروں پر آزمائش: قرآن مجیدکے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان تکالیف اور پریشانیوں کے ذریعے نیکو کاروں کی آزمائش بھی کرتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155سے 157میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں: ''اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میںکمی کرکے اور پھلوں میں(کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘ آیات مذکورہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نیکو کاروں کو مختلف تکالیف سے آزماتے ہیں‘ اگرانسان ان تکالیف پر صبر کرے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی پریشانیوں کو دور کر دیتے ہیں۔ صلحاء کو صبر کے ساتھ توکل کے راستے کو بھی اختیار کرنا چاہیے ‘اس لیے کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ پر توکل کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے کافی ہو جاتے ہیں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں کتاب وسنت میں مذکور نصیحتوں سے تمسک اختیار کرتے ہوئے اپنی بارگاہ میں جھکنے کی توفیق عطافرمائے اور پوری اُمت مسلمہ اور انسانیت کی پریشانیوں اور تکالیف کو دور فرمائے۔ (آمین )

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں