حالیہ ایام میں کورونا وائرس کے حوالے سے پوری دنیا میں مختلف طرح کی خبریں اور افواہیں گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ان خبروں اور افواہوں کی وجہ سے لوگ مختلف آراء کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے معاشرے کے مختلف طبقات مختلف طرح کی سوچ اور فکر کے حامل ہیں۔ ماضی میں بھی قدرتی آفات اور حادثات کے وقت عوام کی سوچ وفکر کچھ اسی انداز میں تقسیم رہی ۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان حادثات کو اتفاقات کے ساتھ تعبیر کرتی ہے اور ان واقعات کی کوئی نہ کوئی سائنسی وضاحت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ماضی میں آنے والے زلزوں کے دوران بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کو فالٹ لائن یا زمین کی پلیٹوں کی گردش کا نتیجہ قرار دیتی رہی۔ حالیہ ایام میں بھی کورونا وائرس کی شدت اور انتشار کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی ہے اورایک مرتبہ پھر اس کے اسباب اور تدارک کے لیے سائنسی معلومات کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جب بھی کبھی کوئی آفت یا حادثہ رونما ہوتا ہے‘ یقینا اس کا کوئی نہ کوئی سائنسی یا طبعی سبب بھی ہوتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس حقیقت کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سائنسی اسباب از خود متحرک نہیں ہوتے ‘بلکہ ان کو تحریک دینے والی ذات بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم ہی سے زمین کی پلیٹیں گردش کرتیں اور اس کے حکم ہی سے جراثیم ‘ بیکٹیریا اور وائرس وغیرہ کی آمدورفت ہوتی ہے۔ زمین میں ہونے والے واقعات اور حادثات کو خود کار سمجھنا اور ان کے بارے میں یہ تصور کرنا کہ یہ تمام چیزیں ازخود ہو رہی ہیں؛ یہ تصور ایک ملحد‘ دہریے اور دین سے نہ بلد شخص کا تو ہو سکتا ہے ‘لیکن ایک ایسا شخص‘ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت ِکاملہ اور اس کے تصرف پر یقین رکھتا ہو اس کی کبھی بھی یہ سوچ وفکر نہیں ہو سکتی کہ زمین پر رونما ہونے والے حوادث اور تبدیلیاں خود کار ہیں‘بلکہ وہ ان تمام چیزوں کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات اور امر ہی سے کرتا ہے۔
قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم ہی سے یہ تمام کی تمام تبدیلیاں اور واقعات رونما ہوتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم ہی سے ان چیزوں کو دور کیا جاتاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قوم نوح پر آنے والے سیلاب‘ قوم عاد پر آنے والی آندھیوں‘ قوم ثمود پر آنے والی چنگھاڑ‘ قوم لوط پر برسنے والے پتھروں اور قوم مدین پر مسلط ہونے والی چیخ کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ کیا ہے۔ اگر ان تمام واقعات کی سائنسی توضیح کرنے کی کوشش کی جائے تو لا محالہ کوئی نہ کوئی سائنسی توجیہ کے امکان باقی رہیں گے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے کے سارے واقعات امر الٰہی ہی سے رونما ہوئے؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 38سے 40میں اس حقیقت کا ذکر کچھ ان الفاظ میں فرماتے ہیں: ''اور عاد کو اور ثمود کو (ہم نے ہلاک کیا) اور یقینا واضح ہو چکی تم پر (یہ بات)اُن کے (اُجڑے) گھروں سے اور مزین کر دیا اُن کے لیے شیطان نے اُن کے اعمال کو پس اُس نے روک دیا انہیں (اصل) راستے سے حالانکہ وہ تھے‘ بصیرت رکھنے والے۔ اور (ہم نے ہلاک کیا) قارون اور فرعون اور ہامان کو اور بلاشبہ یقینا آئے اُن کے پاس موسیٰ علیہ السلام واضح دلائل کے ساتھ‘ تو انہوں نے تکبر کیا زمین میں اور نہ تھے وہ آگے نکل جانے والے (یعنی بچ نکلنے والے) تو ہر ایک کو ہم نے پکڑا اس کے گناہ کے سبب پھر اُن میں سے (کوئی ایسا تھا) جو (کہ) ہم نے بھیجی اُس پر پتھراؤ کرنے والی آندھی اور اُن میں سے (کوئی وہ تھا) جو (کہ) پکڑا اُسے چیخ نے اور اُن میں سے (کوئی وہ تھا) جو (کہ) ہم نے دھنسا دیا اُس کو زمین اور اُن میں سے (کوئی وہ تھا) جسے ہم نے غرق کر دیا اور نہیں تھا‘ اللہ (ایسا) کہ وہ ظلم کرتا اُن پر اور لیکن تھے وہ (خود) اپنے نفسوں پر ظلم کرتے۔‘‘ ان آیات مبارکہ پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ تمام مشکلات اور عذاب جن کی بظاہر کوئی نہ کوئی سائنسی توجیہ کی جا سکتی ہے‘ فقط اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم ہی سے اُن اقوام کے اوپر مسلط کر دیے گئے‘ جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف میں آل فرعون پر آنے والے مختلف عذابوں کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 130سے 133میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور البتہ تحقیق ہم نے پکڑا آل فرعون کو قحط سالیوں سے اور نقصان کرکے پھلوں سے‘ تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ تو جب آئی اُن پر خوشحالی (تو) کہتے ہیں: ہمارا (حق) ہے یہ اور اگر پہنچتی اُنہیں کوئی تکلیف (تو) نحوست کا باعث ٹھہراتے ہیں‘ موسیٰ علیہ السلام کو اور (اُن کو) جو اُن کے ساتھ ہیں۔ خبردار درحقیقت اُن کی نحوست (تو) اللہ کے پاس ہے اور‘ لیکن اُن کے اکثر نہیں جانتے۔ اور انہوں نے کہا جو بھی تو لائے گا ہمارے پاس اُس کو کوئی نشانی تاکہ تو جادو کرے ہم پر اُس کے ذریعے تو نہیں ہیں ہم آپ پر ایمان لانے والے؛ چنانچہ ہم نے بھیجا اُن پر طوفان اور ٹڈی دل اور جوئیں اور مینڈک اور خون (جو) نشانیاں تھیں الگ الگ پھر (بھی) اُنہوں نے تکبر کیا اور تھے وہ مجرم لوگ۔‘‘ ان آیات مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ زمین پر رونما ہونے والے جملہ حوادث‘ مشکلات اور تکالیف اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم ہی سے رونما ہوتی ہیں اور ان کے تدارک کے لیے جہاں پر انسان کو حتیٰ المقدور تدابیر اور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے ‘وہیں پر ان عذابوں اور تکالیف کو دور کر نے کے لیے ان اسباب پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ‘جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرنے والے ہوں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیات مبارکہ میں آل فرعون پر آنے والے جملہ عذابوں کا ذکر کرنے کے بعد ان مشکلات کو دور کرنے والے ایک اہم سبب کو بھی بڑے ہی خوبصورت انداز میں سورہ اعراف کی آیت نمبر 134‘135میں کچھ یوں بیان کیا ہے: ''اورجب واقع ہوتا اُن پر عذاب (تو) کہتے اے موسیٰ ! دعا کر ہمارے لیے اپنے رب سے اس واسطے سے جواُس نے عہد کر رکھا ہے تیرے ہاں البتہ اگر تودورکر دے ہم سے (یہ) عذاب (تو) یقینا ہم ضرور ایمان لائیں گے۔ آپ پر اور یقینا ضرور ہم بھیجیں گے تیرے ساتھ بنی اسرائیل کو‘ پھر جب ہم دور کر دیتے اُن سے عذاب کو ایک وقت تک (کہ) وہ پہنچنے والے ہوتے اُس کو (تو) اچانک وہ عہد توڑ دیتے۔‘‘
ان آیات مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کا ذکر کیا کہ آل فرعون جب اس حقیت کو بھانپ گئے کہ ان پر آنے والی مشکلات من جانب اللہ ہیں تو انہوں نے اس عزم کا اظہارکیا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام ان کے لیے دُعا کر یں اور ان کی یہ مشکلات دور ہو جائیں تو وہ اپنی اصلاح کر لیں گے‘ مگر جب بھی کبھی ان سے عذاب دور کیا جاتا تو وہ دوبارہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی پر آمادہ وتیار ہو جاتے۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے حتمی عذاب کو ان پر مسلط کر دیا‘ جس کا ذکر سورہ اعراف کی آیت نمبر 136میں کچھ یوں کیا گیا ہے ''چنانچہ ہم نے انتقام لیا اُن سے تو ہم نے غرق کر دیا‘ اُنہیں سمندر میں اس وجہ سے کہ جھٹلایا انہوں نے ہماری آیات کو اور وہ تھے اس سے غافل۔‘‘
قوم نوح‘ قوم عاد‘ قوم ثمود‘ قوم لوط ‘ قوم مدین ‘ہامان ‘ قارون اورفرعون کے ان واقعات میں اہل فکر ونظر کے لیے عبرت کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔ان ایام میں اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ طبی ماہرین کی آراء ایک نقطے پر آکر اہل دین اور دانش کے ساتھ ٹکرا جاتی ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ طبی ماہرین کو اس بات پر اصرار ہے کہ کورونا وائرس کے تدارک کے لیے احتیاطی تدابیر اور طب کی مشاورت پر اکتفا کرنا ہی کافی ہے‘ جبکہ اہل دین و دانش کی ایک بڑی تعداد طبی ماہرین کی آراء اوران کی مشاورت کو بسر وچشم قبول کرنے پر آمادہ وتیار ہونے کے باوجود اس حقیقت پر مصر ہے کہ یہ وبائیں اور حادثات درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے رونما ہوتے ہیں؛ چنانچہ ان کے تدارک کے لیے ان تدابیر کوبھی اختیار کرنا چاہیے‘ جن کو کتاب وسنت میں واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ آفات‘ حادثات اور وباؤں کے تین بنیادی اسباب ہوتے ہیں۔ یہ مجرموں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کا کوڑا ہوتی ہیں اورا ن میں پیچھے رہنے والوں کے لیے عبرت کا ایک سامان ہوتا ہے۔ ان وباؤں اور حادثات میں غافلوں اور کوتاہی کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہوتی ہیں اور ان کو رجوع ا لی اللہ کی دعوت دی جاتی ہے؛ چنانچہ ایسے لوگوں کو توبہ ‘ استغفار‘ تقویٰ‘ دعا اور صدقات کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ جب کہ یہ پختہ ایمان والے مقربین کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہیں اور انہیں اس موقع پر صبر اور توکل کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ہم حادثات اور وباؤں کا تدارک کرنے کے لیے جملہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ پریشانیوں کے تدارک کے اصل ذریعے‘ یعنی رضائے الٰہی کے حصول کی کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ العزیز اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں قدرتی آفات‘ وباؤں اور حادثات سے ضرور نجات دیں گے۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُـمت مسلمہ اور جمیع انسانیت سے اس آفت کو دور فرمائے۔(آمین)