اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بے شمارنعمتوں سے نوازا ہے اور اگر وہ ان نعمتوں کو شمار کرنا چاہے تو شمار بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 34میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور اُس نے دی تمہیں ہر چیز‘ جو تم نے مانگی اُس سے اور اگر تم شمار کرو‘ اللہ کی نعمت کو‘ (تو) نہیں شمار کر سکو گے۔ اُسے بے شک انسان یقینا بڑا ظالم‘ بہت ناشکرا ہے۔‘‘ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ سے کوئی چیز طلب کرتا ہے تو اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں وہ چیز عطا فرما دیتے ہیں ‘وہیں پر انسان کو بغیر مانگے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں‘ لیکن ان نعمتوں کے حصول کے باوجود انسانوں کی بڑی تعداد ظلم اورنا شکری کے راستے پر ہی چلتی رہتی ہے‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ رحمان میں انسانوں اور جنات کو تکرار کے ساتھ مخاطب ہو کر ارشادفرمایا : ''تو اپنے رب کی کون (کون) سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘
سورہ نحل کی آیت نمبر 53سے 55میں اللہ تبارک وتعالیٰ اسی حقیقت کو کچھ اس انداز میں یوں بیان فرماتے ہیں : ''اور جو تمہارے پاس کوئی نعمت ہے تو (وہ) اللہ کی طرف سے ہے پھر جب پہنچے تمہیں تکلیف تو اسی کی طرف تم آہ وزاری کرتے ہو‘ پھر جب وہ دور کر دیتا ہے تم سے تکلیف کو (تو) اچانک ایک گروہ تم میں سے اپنے رب کے ساتھ شریک بنانے لگتے ہیں‘ تاکہ وہ ناشکری کریں (اُن نعمتوں) کی جو ہم نے دی انہیں۔ سو‘ تم فائدہ اُٹھا لو ‘ پس عنقریب تم جان لو گے۔‘‘ ان آیات مبارکہ سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو جملہ نعمتیں اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی طرف سے حاصل ہوتی ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تمام تکلیفوں کو بھی دور فرماتے ہیں ‘لیکن انسانوں کی ایک بڑی تعداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتی رہتی ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ناشکری پر ناراض ہوتے ہیں اور شکر گزاری پر اپنی نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ چنانچہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں ارشاد ہوا: ''اور ‘اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘
انسان جب اپنے گرد وپیش میں نظرڈالتا ہے تو اس کو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کرنے کے مختلف انداز ہیں کئی لوگ فکری اور ذہنی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان گنت نعمتوں سے فیض یاب ہونے کے باوجود ان نعمتوں کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے کرنے کی بجائے اپنے علم و ہنر کے ساتھ کرتے ہیں حالانکہ انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کی نسبت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہی کی طرف کرنی چاہیے‘ اسی طرح بہت سے لوگ زبان سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں اور اچھے خاصے حالات ہونے کے باوجودہر وقت گلے شکوے کرتے رہتے ہیں‘ اسی طرح بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو ضائع کرکے یا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا غلط استعمال کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اسراف و تبذیر کرنے سے منع کرتے ہوئے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 27میں ارشاد فرمایا : ''بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور ہے شیطان اپنے رب کا بہت ناشکرا۔‘‘
ناشکری کے نتیجے میں کئی مرتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو عطا کی گئی نعمتوں کو تلف کر دیتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کا ذکر کیا ‘جس کو ملنے والی نعمتیں کفران ِ نعمت کی وجہ سے چھن گئی تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں اس مثال کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں : ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینان والی آتاتھا اس کے پاس اس کا کھلا رزق ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘ اس کے بالمقابل شکر گزاری کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ شکریہ ادا کرنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ مزید عطا فرمائیں گے ۔ ''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کروگے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا۔‘‘
اسی طرح سورہ نساء کی آیت نمبر 147میں ارشاد ہوا: ''کیاکرے گا اللہ تمہیں عذاب دے کر اگر تم شکر کرو اور (صحیح طور پر) ایمان لے آؤ اور اللہ قدردان خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب انسان ایمان اور شکر گزاری کے راستے پر چل پڑتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ شکرکرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان کے قلب اور فکر میں یہ بات راسخ ہو کہ اس کے پاس جو نعمتیں بھی موجود ہیں‘درحقیقت وہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی عطا ہیں اور ان نعمتوں کا حصول جبھی ممکن ہوا‘ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس پر اپنا کرم فرمایا۔ قلبی اور فکری طور پر شکرکرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو زبان سے بھی ''الحمدللہ‘‘ کے الفاظ جاری رکھنے چاہئیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا پر اس کی تعریف اور شکریے کے الفاظ کہے۔ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 39میں ارشاد ہوا : ''تمام تعریف اللہ کے لیے ہیں‘ جس نے عطا کیے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق‘ بے شک میرا رب یقینا خوب سننے والا ہے دعا کا۔‘‘ احادیث مبارکہ میں بھی شکر کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت انداز میں رہنمائی کی گئی ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں :۔
1۔صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن‘ یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں (یہودیوں) نے بتایا کہ یہ بڑی عظمت والا دن ہے‘ اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے شکر میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام سے ان سے زیادہ قریب ہوں؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم فرمایا۔
2۔صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے‘ ایک یہودی لڑکا (عبدالقدوس) نبی کریم ﷺکی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہو جا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابوالقاسمﷺ جو کچھ کہتے ہیں؛ مان لے‘ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔
3۔صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺاتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا (یہ کہا کہ) پنڈلیوں پر ورم آ جاتا‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے ''کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جملہ نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنی زبان کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ بعض لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کا تو شکریہ ادا کرتے ہیں ‘لیکن اُس کے بندوں کی ناشکری کرتے ہیں یہ عمل بھی درست نہیں ہے ‘اگر کوئی احسان یا نیکی کرے تو اس کیلئے بھی اپنے دل میں شکرگزاری کا احساس ہونا چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جو لوگوں کا شکر یہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرے گا۔‘‘
بعض لوگ تکالیف کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزاری کے راستے کو نہیں چھوڑتے۔ جامع ترمذی میں اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے ۔
ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی؟ تو وہ کہتے ہیں: ہاں‘ پھر فرماتا ہے: تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا؟ وہ کہتے ہیں: ہاں۔ تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے: میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں: اس نے تیری حمد بیان کی اور ''انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فکری ‘ قولی اور عملی حوالے سے اپنے شکر گزار بندوں میں شامل فرمائے۔ (آمین)