انسان کی زندگی میں جب مشکلات آتی ہیں تو وہ اپنے اعزاء واقارب ‘ دوست احباب اور رشتہ داروں سے معاونت طلب کرتا ہے‘ لیکن زندگی میں کئی مقامات ایسے بھی آ جاتے ہیں ‘جب اس کے اعزاء واقارب‘ دوست احباب اور رشتہ دار اس کی مدد سے قاصر ہو جاتے ہیں‘ لیکن ایسے عالم میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات‘ ذکر اور دعا کرنے والوں کے ہمراہ ہوتی ہے۔ دعا کے حوالے سے اس سے قبل میں اپنی گزارشات کو قارئین کے سامنے رکھ چکا ہوں۔آج ذکر الٰہی کے حوالے سے اپنی چند گزارشات کو قارئین کے سامنے رکھوں گا:۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 152میں ارشاد فرماتے ہیں : ''پس تم یاد رکھو مجھے میں یاد رکھوں گا تمہیں اور تم میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے‘ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اس کو یاد کرتے ہیں۔ اس کے بالمقابل جو اللہ تعالیٰ کی یاد کو فراموش کر دیتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے گزران کو تنگ کر دیتے ہیں اور قیامت کے دن اس کو اندھا کر کے اُٹھایا جائے گا؛ چنانچہ سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر 124میں ارشاد ہوا: ''اور جس نے اعراض کیا میرے ذکر سے تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہو گی اور ہم اُٹھائیں گے‘ اُسے قیامت کے دن اندھا (کرکے)۔ ‘‘ان آیات مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر سے اعراض کرنے والے لوگوں کا گزران تنگ ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ذکر کی برکت سے زندگی کے اندھیاروں کو دور فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 41سے 43 میں ارشاد فرمایا: ''اے لوگو !جو ایمان لائے ہو‘ یاد کرو‘ اللہ کو بہت زیادہ یادکرنا اور تسبیح (پاکیزگی) بیان کرو اُس کی صبح وشام۔ وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اُس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں) ‘تاکہ وہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور وہ ہے مومنوں پر بہت رحم کرنے والا۔‘‘ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتا ہے ‘اللہ تبارک وتعالیٰ اسے اندھیروں سے نکا ل کے روشنیوں کے راستے پر چلا دیتے ہیں؛ چنانچہ اہل ایمان کو ان ایام میں خصوصیت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 190‘191میں ان عقل مند لوگوں کا ذکر کیا‘ جو اُٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ ارشاد ہوا : ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں عقل والوں کے لیے ۔ وہ لوگ جو ذکر کرتے ہیں‘ اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں (اور کہتے ہیں) اے ہمارے رب ! نہیں پیدا کیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار‘ تو پاک ہے (ہر عیب سے) پس بچا ہمیں آگ کے عذاب سے۔‘‘ گویا کہ عقلمند انسان کو یہ تین کام کرنے چاہئیں:۔
(1)ذکر الٰہی (2)تخلیق میں غوروفکر (3)آگ سے بچاؤکی دعا۔
ذکر الٰہی کی بنیادی طور پر دو اقسام ہیں:۔
(۱) قرآن مجید (۲)احادیث مبارکہ میں مذکور اذکار۔
قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی معجزاتی کتاب ہے۔ اس میں جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے علم‘ ہدایت ‘نورانیت اور قوانین کو سمویا ہے ‘وہیں پر اس کتاب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے شفاء اور رحمت بھی بنا دیا ہے؛ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82میں ارشاد ہوا: ''اور ہم نازل کرتے ہیں قرآن میں سے جو (کہ) وہ شفا اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔‘‘ اسی طرح سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 44میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیجئے وہ (ان لوگوں) کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفاء ہے ۔‘‘ اسی طرح سورہ یونس کی آیت نمبر 57‘58میں ارشاد ہوا: ''اے لوگو! یقینا آ چکی تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور شفاء ہے (اس بیماری) کی جو سینوں میں ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔کہہ دیجئے (یہ) اللہ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہے تو اسی کے ساتھ پس چاہیے کہ وہ خوش ہوں‘ وہ بہت بہتر ہے‘ اس سے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘
قرآن مجیدکی ان آیات مبارکہ سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے جملہ امراض کی شفاء کو رکھا ہے۔ ویسے تو سورہ فاتحہ سے لے سورۃالناس تک پورا قرآن مجید شفاء ہے‘ لیکن قرآن مجید کی بعض سورتوں اور آیات کو اس حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے‘ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:۔
1۔سورہ فاتحہ : سورہ فاتحہ کے بارے میں صحیح بخاری میں حضرت ابو سعیدؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺکے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں‘ لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی‘ بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا‘ قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی‘ لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو؛ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی‘ لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا‘ لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا‘ آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور ''الحمد للہ رب العالمین‘‘ پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورہ فاتحہ صرف روحانی امراض کے لیے شفاء ہی نہیں‘بلکہ جسمانی طور پر بھی اگرانسان کو کوئی ضرر پہنچے تو اس کا بھی علاج ہے۔
2۔آیت الکرسی: آیت الکرسی پڑھنے والا انسان بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی حفاظت میں آجاتاہے۔اس کی فضیلت کے حوالے مسند احمد میں سیدنا ابی بن کعب ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے ان سے دریافت کیا: اللہ کی کتاب میں کونسی آیت سب سے زیادہ عظمت کی حامل ہے؟ انہوں نے جواباً عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں‘ لیکن جب رسولﷺنے بار بار یہی سوال کیا‘ تو سیدنا ابی بن کعبؓ نے کہا: وہ آیت الکرسی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ابو المنذر! تمہیں یہ علم مبارک ہو‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں اور یہ اللہ کے عرش کے پائے کے قریب اللہ تعالیٰ کی تقدیس اور پاکی بیان کرتی ہے۔
3۔ سورہ بقرہ کی آخری دو آیات: سورہ بقرہ کی آخری دو آیات اگر رات کو پڑھ لی جائیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی حفاظت میں آجانے کے لیے یہ کافی ہو جاتی ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو مسعود انصاری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ''جس نے رات کے وقت سورہ بقرہ کی یہ آخری دو آیات پڑھیں‘ وہ اس کے لئے کافی ہوں گی‘‘۔
4۔ دعائے یونس: حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں تھے توا نہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی ''لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘ تواللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے غموں کو دور کر دیااور ساتھ یہ بات بھی ارشاد فرمائی کہ وہ اُسی طرح اہل ایمان کے غموں کو دور فرماتے ہیں۔
5۔ معوذتین:معوذتین کی تلاوت سے بھی انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی پناہ میں آ جاتا ہے۔
اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں: ۔
(الف) صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺجب بیمار پڑتے تو اپنے اوپر معوذتین (سورۃالفلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر دم کر لیا کرتے تھے اور اپنے جسم پر اپنے ہاتھ پھیر لیا کرتے تھے‘ پھر جب وہ مرض آپ کو لاحق ہوا‘ جس میں آپ کی وفات ہوئی تو میں معوذتین پڑھ کر آپ پر دم کیا کرتی تھی اور ہاتھ پر دم کر کے نبی کریم ﷺکے جسم پر پھیرا کرتی تھی۔
(ب) صحیح بخاری میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے مجھے حکم دیا یا (آپ نے اس طرح بیان کیا کہ نبی کریمﷺنے) حکم دیا کہ نظر بد لگ جانے پر معوذتین سے دم کر لیا جائے۔
(ج) سنن نسائی میں حضرت عبداللہ ؓسے مروی ہے کہ ایک رات ہلکی سی بارش ہوئی۔سخت اندھیراتھا۔ہم انتظار میں تھے کہ رسول کریمﷺ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں‘پھر آپﷺنماز کے لیے تشریف لائے اور (مجھے)فرمایا: ''پڑھ‘‘میں نے کہا:کیا پڑھوں؟آپ نے فرمایا:‘‘قل ھو اللہ احد اور معوذتین صبح وشام تین تین دفعہ پڑھا کر۔تجھے ہر مصیبت میں کفایت کریں گی۔‘‘
6۔ احادیث میں مذکور اذکار: قرآن مجید کی طرح احادیث طیبہ میں بھی فائدہ مند اذکار موجود ہیں۔ جو ان اذکار پر مداومت اختیار کرے گا اور خصوصیت سے صبح وشام کے اذکار کی پابندی کرے گا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو دکھوں‘ بیماریوں اور پریشانیوں سے نجات دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنا ذکر کرنے والے لوگوں میں شامل فرمائے اور ہم سب کی بیماریوں کو دُور فرمائے۔( آمین)