"AIZ" (space) message & send to 7575

علماء کا بیانیہ

18 اپریل کا دن اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ صدر پاکستان کی دعوت پر ٹیلی لنک کے ذریعے ملک کے چاروں صوبوں کے گورنر ہاؤسزز میں ملک کے نمایاں علماء کو جمع کرکے مساجد میں نمازوں کی ادائیگی ‘جمعہ کے خطبات اور رمضان المبارک میں نماز تراویح کے حوالے سے خصوصی مشاورت کا اہتمام کیا گیا۔ اس حوالے سے یہ اجلاس غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا کہ جو لوگ سارا سال مساجد سے دور رہتے ہیں‘ وہ بھی رمضان المبارک کے مہینے میں خصوصیت سے مساجد کا رُخ کرتے ہیں اور روزے کو رکھنے کے ساتھ جہاں پر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کے طلب گار بن جاتے ہیں‘وہیں پر نماز تراویح کی ادائیگی کے دوران ان کے اذہان وقلوب میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس عبادت کی ادائیگی کی وجہ سے ان کی ماضی کی خطاؤں کو معاف کر دے گا۔
2020 ء کا آنے والا رمضان اس اعتبار سے ایک منفرد رمضان ہے کہ اس کی فیوض وبرکات سے فیض یاب ہونے کے حوالے سے جہاں پر مسلمانوں میں بیتابی کی ایک لہر پائی جاتی ہے‘ وہیں پر دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے مساجد کی آبادکاری کے حوالے سے بھی مختلف آراء کا اظہار کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ جو دین سے شغف نہیں رکھتے‘ وہ ان ایام میں مساجد میں حاضری کو یکسر غیر ضروری خیال کرتے ہیں‘ لیکن بہت سے ایسے لوگ جو مساجد میں حاضری کو اپنی زندگی کا ایک اہم جزو سمجھتے ہیں ‘وہ بھی اس حوالے سے ایک تشویش کا شکار ہیں کہ کہیں مساجد میں نماز کی ادائیگی کے سبب بیماری کے پھیلاؤکی لپیٹ میں نہ آجائیں یا بیماری کے انتشار کا سبب نہ بن جائیں۔ اطبا اور سائنسی ماہرین کے تجزیات کی روشنی میں اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ جملہ احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے باوجود کورونا وائرس کی وبا کے پھیلنے کے امکانات بہرحال موجود رہتے ہیں۔ اس لیے کہ امکان کی حد تک احتیاط کرنے کے باوجودبھی طبی ماہرین کے مطابق‘ یہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے انسانوں تک سماجی روابط کے ذریعے منتقل ہو جاتا ہے۔ہر انسان بیماری سے بچنا چاہتا ہے‘ لیکن اس کے ساتھ زندگی کے دیگر لوازمات کی اہمیت بھی مسلّم ہے۔ بیماری کا خوف اور خدشہ اپنی جگہ پر ہے ‘لیکن اپنے بال بچوں کے روزگار کا انتظام کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ بالخصوص دیہاڑی دار افراد اس حد تک مجبور اور بے بس ہوتے ہیں کہ چند دیہاڑیوں کے ناغے کی وجہ سے فاقہ کشی اور بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ان تمام معاملات کا جائزہ لینا جہاں پر سماجی طور پر انتہائی اہم ہے‘ وہیں پر کورونا وائرس کے روحانی اسباب پر غور کرنا بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ کورونا وائرس یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ دنیا میں رونما ہونے والی تمام تبدیلیاں ‘حادثات اور آفات درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے اذن اور امر ہی سے رونما ہوتے ہیں؛ چنانچہ علوم شرعیہ پر عبور رکھنے والے جید علماء توبہ‘ انابت اللہ‘ دعا‘ صدقات اور ذکر الٰہی کے ذریعے اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی رغبت دلاتے ہیں۔ سیاسی رہنما اور ملک کے اقتدار پر براجماں لوگوں کا کام عوام کو سہولیات فراہم کرنا اور مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں نے بھی اپنی بساط کی حد تک اس ذمہ داری کو نبھانے کی جستجو کی ہے‘ لیکن اس کے باوجودکاروبار زندگی کو انجام دینے کیلئے کسی نہ کسی سطح پر احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معاملات کو جاری وساری رکھنا ریاست کی مجبوری ہے۔ سبزی منڈی‘ پھلوں کی منڈیوں‘ سپر سٹورز‘ پٹرول پمپوں اور دیگر بہت سے اداروں کو بند ممکن نہیں‘ لیکن نجانے کیا وجہ ہے کہ اس بیماری کے حوالے سے خصوصیت سے مساجد کے بارے میں غیر معمولی تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے‘ جس پر اہل ِدین تحفظات کا شکار ہیں ۔ اس کشمکش کی وجہ سے صدر مملکت ‘تمام صوبوں خصوصاً پنجاب کے گورنر نے ماضی میں بھی علماء سے رابطہ کرنے کی جستجو کی۔ اس بیماری کے ایام میں صدر مملکت نے براہ ِراست مجھ سے ٹیلی فون پر بھی رابطہ کیا اور میں نے ان کے سامنے اس بات کو رکھا کہ جہاںپر دیگر امور کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ انجام دیا جا سکتا ہے‘ وہیں پر مساجد کے معاملہ کو بھی انہیں احتیاطی تدابیر کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے بعض جید علماء اس حوالے سے بہت ذمہ دارانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مساجد کی آبادکاری کے لیے آواز کو مسلسل اُٹھا رہے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ ملک میں بعض مقامات پر ناخوشگوار واقعات بھی دیکھنے کو ملے ہیں اور کئی مقامات پر سرکاری انتظامیہ ‘ خطیب اور امام کے درمیان کشمکش کی اطلاعات بھی سننے کو ملتی ہیں۔ کراچی میں ماضی ایک تلخ واقعات رونما ہوا‘ جس کے نتیجے میں ایک خاتون آفسر اور مسجد کے انتظامیہ کے درمیان کشیدگی کی نوبت پہنچی ‘جس کے بعد ملک بھر میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔ ان تمام معاملات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ‘اس ٹیلی لنک کانفرنس کا انعقاد کیاگیا تھا‘جس میں مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن‘ مولانا حنیف جالندھری‘ یوسف شاہ اور دیگر علماء کرام کو مدعو کیا گیا۔ مجھے بھی لاہور سے اس کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ علماء نے اس موقع پر اپنے مافی ضمیر کو کھل کے صدر مملکت اور وزیر مذہبی اُمور کے سامنے پیش کیا۔ علماء نے جس بیانیے کا اظہار کیا وہ کچھ یوں تھا کہ علماء بنیادی طور پر ریاست کے ساتھ تصادم اور کسی بھی قسم کے تنازعے کے قائل نہیں‘ لیکن درست مشورہ دینا اور حکومت کی جائز رہنمائی کرنا بھی علماء دین کی ذمہ داری ہے؛ چنانچہ وہ اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے سے کبھی بھی پیچھے نہیں رہ سکتے۔ اس موقع پرعلماء نے بڑے جچے تلے الفاظ میں اپنی آراء کا اظہار کیا اور حکومت وقت کے سامنے اس بات کو رکھا کہ اگر ملک کے دیگر بہت سے ضروری اور اہم ادارے احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کر رہے ہیں تو مساجد کو بھی یہ سہولت ضرور دینی چاہیے کہ وہاں پر آکر لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے رجوع کا صحیح طور پر اہتمام کر سکیں۔
اس حوالے سے علماء نے اپنی گزارشات کو کچھ یوں بیان کیا کہ ملک میں اس حوالے سے میرٹ کو قائم کیا جائے‘ اگر دیگر مقامات پر مجبوری کی وجہ سے اجتماعات کو جاری رکھنے کیلئے حکومت احتیاطی تدابیر کا التزام کر رہی ہے تو مساجد میں بھی اس التزام کو جاری وساری رہنا چاہیے۔ تین سے پانچ افراد کی تحدید کرنا خطباء اور آئمہ کے بس کی بات نہیں ‘بلکہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس بات کی رغبت دلائی جا سکتی ہے کہ بیمار اور مشتبہ افراد مساجد میں آکر نماز ادا نہ کریں ‘ جہاں تک تعلق ہے تندرست اور نوجوان افراد کا تو فقط احتمال کی وجہ سے فرائض دینیہ کو معطل نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ ظن غالب کی بنیاد پر صحت مند افراد کو مساجد میں نماز ادا کرنے کی سہولت ضروری ملنی چاہیے۔ ان باتوں کے ساتھ اس موقع پر بہت سے مزید اہم امور کی طرف بھی ریاست کی توجہ مبذول کروائی گئی اور اس بات کا احساس دلایا گیا کہ علماء کسی بھی طور پر ریاست سے تصادم نہیں چاہتے ‘لیکن اس کے باوجود فرائض دینیہ کا اہتمام کروانا اور اس کے اوپر زور دینا اور احتیاطی تدابیر کے تناظر میں اس بات کا جاری وساری رہنا یقینا جہاں پر مساجد کی آباد کاری کیلئے ضروری ہے‘ وہیں پر رضا الٰہی کے حصول کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یقینا کورونا وائرس کی وباکو دور کرنے کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد‘ نصرت اورر حمت کی انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔ لوگ جس خوف ‘ تشویش اور بے چینی کا شکار ہیں‘ اس خوف سے قوم کو باہر نکالنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ اس وبا کے نتیجے میں جو لوگ خطرات کا شکار ہوں گے‘ ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعدا د اس وبا سے بچ جانے کی صورت میں بھی مختلف قسم کے نفسیاتی بحرانوں کا شکار ہو جائے گی۔ میں نے بھی اس موقع پر علماء دین کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ ان شاء اللہ علماء اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور طریقے سے ادا کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر کا التزام کریں گے اور مساجد کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اچھے طریقے سے آباد کریں گے۔ 
دینی طبقات کے بارے میں یہ بدگمانی رکھنا کسی بھی طور پر درست نہیں کہ وہ غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ اس موقع پر میں نے اس بات کا بھی اضافہ کیا کہ کورونا سے مرنے والی میت اچھوت نہیں‘ بلکہ وہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور احتیاط کے ساتھ ان کے جنازے اورو تدفین کااہتمام کرنا بھی اہل دین اور اہل اسلام کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے ریاست کو بھی معاون کا کردار ادا کرنا چاہیے ‘تاکہ کورونا کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہونے والے لوگوں کیلئے صحیح طریقے سے دعائے مغفرت کی جا سکے۔ اس موقع پر صدر مملکت اور وزیر مذہبی امور نور الحق قادری نے تمام علماء کی باتوں کو انتہائی توجہ کے ساتھ سنا اور اس حوالے سے یہ فیصلہ کیا کہ رمضان المبارک کے ماہ مبارک میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ عبادات جاری رہیں گی ۔ ریاست اور علماء کا ایک پیج پر ہونا ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے اور اسی یکسوئی کے نتیجے میں عوام الناس کی صحیح رہنمائی ہو سکتی ہے اور اگر اس حوالے سے کوئی دوری پیدا ہو تو یہ بات یقینا کسی بھی طور پرریاست اور سماج کیلئے بہتر نہیں اور اس کے نتیجے میں جو افراتفری پیدا ہو گی‘ اس کا تدارک کرنا یقینا بہت مشکل ہو جائے گا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں