تیسرے پارے کا آغاز بھی سورہ بقرہ سے ہوتا ہے۔تیسرے پارے کے شروع میں اللہ نے اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ کے بعض رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے‘ ان میں سے بعض نے اللہ کے ساتھ کلام کیا اور بعض کے درجات کو اللہ نے بلند فرمادیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام رسولوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام ہمارے نبی ﷺ کا ہے ۔
اس پارے میں آیت الکر سی ہے‘ جو کہ قرآن مجید کی سب سے افضل آیت ہے ۔آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ‘ شیاطین کے حملوں سے محفوظ فرما لیتے ہیں ۔
تیسرے پارے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ پہلا واقعہ جناب ابراہیم کا دربار نمرود میں اُس کے ساتھ اللہ کی ذات کے بارے میں مناظرانہ مکالمے کا ہے۔ جس وقت ابراہیم دربار نمرودمیں جاکراللہ کی توحید کی تبلیغ کرتے ہیں ‘تو ابراہیم اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں کہتے ہیں: میرا پروردگا ر زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ جواب میں نمرود کہتا ہے کہ میں بھی مارتا ہو ں اور زندہ کرتا ہوں ۔اس ظالم نے ایک مجرم کو آزاد کر دیا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ ابراہیم اس کے مکر کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تُو اس کو مغرب سے لے کر آ۔یہ بات سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی‘ اس لیے کہ وہ جانتا تھاکہ اس مطالبے کو پورا کرنا نا ممکن ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر کے اس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ایک اجڑی ہو ئی بستی کے پاس سے گزرے اور کہا کہ یہ بستی کیوں کر دوبارہ زندہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے عزیرکو سو برس کے لیے سلا دیااور پھر ان کو دوبارہ زندہ کردیا ۔
حضرت عزیر اور جناب ابراہیم کا واقعہ یہ بات سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قیامت کے دن مردوں کو زندہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کو زندہ ہونے کا حکم دیں گے‘ تو مردہ انسان بالکل صحیح حالت میں اٹھ کر کھڑے ہوں گے ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیلت کا بھی ذکر کیا ہے اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیے گئے مال کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا کر کے پلٹائیں گے اور کئی لو گوں کو اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا ۔ اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے سود کی بھی مذمت کی اور کہا کہ جو لوگ سود کھانے سے باز نہیں آتے ‘ان کا اللہ او ر اس کے رسول کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔
سورہ بقرہ کے بعد سو رہ آلِ عمران ہے ۔سورہ آلِ عمران کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ‘جو کہ سابقہ کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور اس سے قبل اس نے تورات اور انجیل کو نازل فرمایا تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ وہ رحم مادر میں انسانوں کو جس طرح چاہتا ہے ‘صورت عطا فرما دیتا ہے‘ وہ بغیر رنگ‘ روشنی اورکینوس کے دھڑکتے ہوئے دل والا انسان بنا دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی بتلایا کہ قرآن مجید میں دو طرح کی آیات ہیں‘ ایک محکم اور دوسری متشابہ۔ فرمایا کہ محکم آیات کتاب کی اصل ہیں اور متشابہا ت کی تاویل کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ متشابہات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور اہل ایمان کہتے ہیں ‘جو کچھ بھی ہمارے رب نے اتارا ہمارا اس پر کامل ایمان ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس لیے جو آخرت کی فلاح و بہبود کا خواہشمند ہے‘ اس کو اسلام کا راستہ اختیار کرنا ہو گا ۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ نے آدم ‘ نوح ‘آل ابراہیم اور آلِ عمران کو دنیا پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔سورہ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے جنابِ عمران کی اہلیہ کی کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے منت مانی کہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں گی۔ آپ کے یہاں پر بچے کی بجائے بچی کی ولادت ہوئی۔ جناب عمران کی اہلیہ نے اپنی منت کو بچی ہونے کے باوجود پورا کیا اور آپ کا نام مریم رکھ کر آپ کو جناب زکریاں کی کفالت میں دے دیا ۔اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما لیااور آپ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام ایام اللہ کی بندگی میں صرف ہوتے رہے‘ یہاں تک کہ بارگاہ الٰہی سے آپ کے لیے یہ کرامت بھی ظاہر ہوئی کہ آپ کے پاس بے موسم کے پھل آنے لگے ۔حضرت زکریا جو مریم کے خالوبھی تھے‘ ایک دن اس محراب میں داخل ہوئے ‘جہاں سیدہ مریم عبادت میں مشغول رہتی تھیں۔ انہوں نے سیدہ مریم سے پوچھاکہ آپ کے پاس یہ بے موسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں۔ کہا: اللہ کی طرف سے آتے ہیں ‘وہ جس کو چاہتا ہے‘ بلا حساب رزق دیتا ہے۔حضرت زکریا ں بے اولاد تھے اور آپ کی بیوی بانجھ تھیں۔ سیدہ مریم کے پاس بے موسم کے پھل دیکھ کر جناب زکریا ں بھی رحمت ِالہٰی سے پُرامید ہوگئے اور آپ نے دعا مانگی :اے میرے پروردگار! مجھے بھی اپنی طرف سے پاک اولاد عطا فرما ۔حضرت زکریاں محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے کہ فرشتے نے آپ کو پکارکر کہا: ''اے زکریا!آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یحییٰ نامی پارسا اورسردار بیٹے کی بشارت ہو‘‘۔ حضرت زکریا اس کے بعد تین دن تک خلوت نشین ہوکر اللہ کے ذکر اور تسبیح میں مشغول رہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے جناب مریم کے ہاں سیدنا عیسیٰ کی معجزاتی ولادت کا ذکر کیا ہے۔ سیدہ مریم کادل اس بات کو قبول نہیں کررہا تھا‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کوبن شوہر کے ایک بیٹا عطا کیا ‘جو اللہ کے حکم سے کوڑھ اور برص کے مریضوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفایاب ہوجاتے۔ حضرت عیسیٰ بنی اسرائیل کے لوگوں کو اللہ کے حکم سے گھر میں کھائے جانے اور باقی رہ جانے والے کھانے کی بھی خبر دیتے تھے ۔حضرت عیسیٰ کی معجزاتی پیدائش کی وجہ سے عیسائی ان کو اللہ کا بیٹا قرار د ینے لگے ۔اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم جیسی ہے‘ جن کو اللہ نے بن باپ اور بن ماں کے مٹی سے پیدا کیااور کہا ہوجا تو وہ ہوگئے۔اس سورہ میں اللہ نے یہ بھی بتلایا کہ کفا رحضرت عیسیٰ کی جان کے درپے تھے ۔اللہ نے حضرت عیسیٰ کو بشارت دی کہ میں آپ کو زندہ اٹھا لوں گا اور کفار آپ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکیں گے ۔
اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں رسول کریمﷺ کے مقام کا بھی ذکرکیا ہے کہ عالم ارواح میں اللہ نے انبیا ء کی روحوں سے اس بات کا عہد لیا تھا کہ اگر ان کی زندگی میں رسول اللہ ﷺ آجائیں تو پھر ان پر ایمان لانا اور ان کی حمایت کرنا گروہ انبیاء پرلازم ہوگا ۔اس پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کفر پر مرنے والے؛ اگر زمین کی مقدار کے برابر سونا بھی لے کر آئیں‘ تو اللہ تعالیٰ اس سونے کے بدلے میں انہیں معاف نہیں کریں گے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا ۔
تیسرے پارے کے شروع میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ کے بعض رسولوں کو دوسرے رسولوں پر فضیلت حاصل ہے‘ ان میں سے بعض نے اللہ کے ساتھ کلام کیا اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ تمام رسولوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام ہمارے نبی ﷺ کا ہے ۔ اس پارے میں آیت الکر سی ہے‘ جو کہ قرآن مجید کی سب سے افضل آیت ہے ۔ آیت الکرسی کی تلاوت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ‘ شیاطین کے حملوں سے محفوظ فرما لیتے ہیں۔