"AIZ" (space) message & send to 7575

پندرھویں پارے کا خلاصہ

پندرھویں پارے کا آغاز سورہ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''پاک ہے ‘وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی ‘جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں ‘تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں‘ بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
رسول کریمﷺجبرائیل امین کی معیت میں بیت المقدس کی عمارت میں داخل ہوئے‘ جہاں آدم سے لے کر عیسیٰ  تک تمام انبیاء صف باندھے ہوئے موجود تھے۔ رسول اللہﷺنے مصلیٰ امامت پر کھڑے ہو کر نماز کی امامت فرمائی اور تمام انبیاء نے آپ کی امامت میں نما زادا کی اور یوں کائنات کے لوگوں کو یہ بات سمجھائی گئی کہ رسول اللہﷺصرف آنے والوں کے امام نہیں ‘بلکہ جانے والوں کے بھی امام ہیں۔
جب رسول اللہﷺسفر معراج سے واپس آئے تو ابوجہل نے جناب ابوبکر صدیق سے پوچھا کہ کیا کوئی انسان ایک رات میں بیت المقدس کا سفر کر کے واپس آسکتا ہے؟ تو جناب ابوبکر نے کہا: ایسا ممکن نہیں۔ ابوجہل نے کہا ؛پھر جس کو آپ نبی مانتے ہیں‘ انہوں نے اس سے بھی بڑی بات کی ہے کہ وہ بیت المقدس اور اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرکے واپس آگئے ہیں ۔حضرت ابوبکر  نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺنے ایسا کہا ہے تو پھر درست کہا ہے ‘اس لیے کہ رسول اللہﷺکی کوئی بات کسی بھی حالت میں غلط نہیں ہو سکتی ہے۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ یہ قرآن ِمجید نیک اعمال کرنے والے مومنوں کے لیے بشارت ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ‘ان کے لیے دردناک عذاب ہے ۔ 
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے‘ اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو اُف بھی نہیں کہنا چاہیے اور نہ ان کو جھڑکنا چاہیے اور ان کو اچھی بات کہنی چاہیے اور ان کے سامنے محبت کے ساتھ اپنے کاندھوں کو جھکانا چاہیے اور یہ دعا مانگنی چاہیے کہ پروردگار ان پر رحم کر‘ جس طرح وہ بچپنے میں مجھ پر رحم کرتے رہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ قرابت داروں ‘مساکین اور مسافروں کے حق کو ادا کرنا چاہیے اور فضول خرچی نہیں کرنی چاہیے ۔بے شک فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا ناشکرا ہے۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کا بھی ذکر کیا ہے کہ جو خود تو بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے اور ان کی پیدائش کو اپنے لیے باعث عار سمجھتے اور کہتے کہ اللہ نے فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنایا ہوا ہے ۔یعنی ایک تو اللہ کی اولاد بناتے اور اس کے بعدا ولاد بھی وہ بناتے‘ جس کو خودقبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کیا تمہارے رب نے تمہارے لیے بیٹے خاص کر دیے ہیں اور فرشتوں کو اپنی بیٹیاں بنا لیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک بہت بڑی بات کہہ رہے ہو۔
اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر شخص کو اس کے امام کے نام سے بلائیں گے ‘یعنی جس کی پیروی انسان کرتا ہے ‘اسی کی نسبت سے انسان کو بلایا جائے گا۔ اس سورت میں فجر کے وقت قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس وقت قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعث ِ برکت ہے اور اس وقت فرشتے قرآن سننے کو حاضر ہوتے ہیں ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکو تہجد کی نماز ادا کرنے کا حکم دیا کہ یہ نماز نبی ﷺ پر امت کے مقابلے میں لازمی تھی اور اسکا سبب یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ ‘نبی کریم ﷺ کو قیامت کے روز مقام محمود عطا فرمائیں گے ۔
اس سورہ کے آخر میں جا کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو چاہے اللہ کہہ کر پکارو چاہے رحمان کہہ کے پکارو اللہ تعالیٰ کے اچھے اچھے نام ہیں اس کو جس نام سے چاہو پکارا جا سکتا ہے ۔
سورہ بنی اسرائیل کے بعد سورہ کہف ہے ۔سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید بشارت دیتا ہے نیک عمل کرنے والے مسلمانوں کو کہ ان کے لیے بڑے اجرکو تیار کردیا گیا ہے اور ڈراتا ہے ان لوگوں کوکہ جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنایا ہوا ہے‘ اس میں عیسائیوں اور یہودیوں کو ڈرایا گیا ہے‘ جو کہ عیسیٰ  اور عزیر ں کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں ۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں نہ تو ان کے پاس علم ہے اور نہ ان کے آبائواجداد کے پاس علم تھا اور یہ بات گھڑی ہوئی ہے پس یہ جھوٹ بول رہے ہیں ۔
سورہ کہف میں اللہ تعالیٰ نے بعض مومن نوجوانوں کا ذکر کیاہے جو کہ وقت کے بے دین بادشاہ کے شر اور فتنے سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ گزین ہو گئے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کے اظہار کے لیے انہیں تین سونو برس کے لیے سلا دیا اور اس کے بعد جب وہ بیدار ہوئے تو آپس میں بات چیت کرنے لگے کہ ہم کتنا سوئے ہونگے تو ان کا خیال یہ تھا کہ ایک دن یا اس کا کچھ حصہ سوئے ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایسے واقعات بیان کر کے در حقیقت توجہ آخرت کی طرف مبذول کر وائی ہے کہ جو اللہ تین سو نو برس تک لوگوں کو سلا کر بیدار کر سکتا ہے کیا وہ قبروں سے مردہ وجودوں کو برآمد نہیں کر سکتا ۔
اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ  کے واقعہ کابھی ذکر کیا ۔ہوا کچھ یوں کہ جناب موسیٰ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے اجتماع میں موجود تھے کہ آپں سے سوال کیا گیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے تو جناب موسیٰ  نے جواب دیا کہ اس وقت سب سے بڑا عالم میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ  کو بہت بڑ ا مقام عطا کیا تھا‘ لیکن یہ جواب اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق نہ تھا۔اللہ تعالیٰ نے جناب موسیٰ  کو کہا کہ دو دریائوں کے سنگم پر چلے جائیں وہا ں پر آپ کی ملاقات ایک ایسے بندے سے ہوگی جن کو میں نے اپنی طرف سے علم اور رحمت عطا کی ہے۔جناب موسیٰ  دو دریائوں کے سنگم پر پہنچتے ہیں تو آپکی ملاقات جناب خضر سے ہوئی ۔جناب موسیٰ  نے جناب خضر سے پوچھا کہ اگر میں آپ کے ہمراہ رہوں تو کیا آپ رشد وہدایت کی وہ باتیں جو آپ کے علم میں ہیں مجھے بھی سکھلائیں گے۔ جناب خضر نے جواب میں کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔اور آپ ان باتوں کی بابت کیونکر صبر کریں گے جن کو آپ جانتے ہی نہیں ۔موسیٰ  نے جناب خضر کو صبرکی یقین دہانی کرائی تو دونوں اکٹھے چل پڑے ۔کچھ چلنے کے بعد آپ ایک کشتی میں سوار ہو گئے ۔جب اترنے لگے تو خضر  نے کشتی میں سوراخ کر دیا۔ جناب موسیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی کہ جس کشتی میں سفر کیا اس میں سوراخ کر دیا۔ آپ نے کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کر دیا۔ جناب خضر  نے کہا کہ کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے جناب موسیٰ نے کہا کہ آپ میرے بھول جانے پر مواخذہ نہ کریں اور نہ ہی میرے سوالات پر تنگی محسوس کریں۔ جناب خضر  اور موسیٰ پھر چل دیئے‘ کچھ آگے جا کر ایک خوبصورت بچہ نظر آیا جناب خضر نے بچے کو قتل کر ڈالا‘ جناب موسیٰ سے نہ رہا گیا آپ نے پھر جناب خضر کے عمل پر اعتراض کیا۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ جاننے کے لیے اسی مضمون پرسولہویں پارے میں کچھ بحث کریں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پاک پڑھنے‘ سمجھنے اور اس میں مذکور مضامین سے نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ (آمین)
پندرھویں پارے کا آغاز سورہ بنی اسرائیل سے ہوتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کے شروع میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں پاک ہے‘ وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی ‘جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں‘ تاکہ ہم انہیں اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں