اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ذاریات کی آیت نمبر56 میں ارشاد فرمایا : ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرنا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اسی بندگی کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ہماری زندگی میں آتا ہے۔روزہ بھی بندگی ہی کا ایک خوبصورت انداز ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سابقہ امتوں کی طرح اُمت مسلمہ پر بھی روزے کو لازم فرمایا؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183میں ارشاد ہوا:''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو فرض کئے گئے ہیں تم پر روزے جیسا کہ فرض کئے گئے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے (تھے) تاکہ تم بچ جاؤ (گناہوں سے)‘‘۔ روزے جیسی عظیم عبادت کی انجام دہی کے لیے رمضان المبارک کے ماہِ مبارک کا انتخاب فرما گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185میں ارشاد فرماتے ہیں:''رمضان کا مہینہ وہ ہے جو نازل کیا گیا ہے اس میں قرآن (جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور (حق وباطل) کے درمیان) فرق کرنے کے پس جو موجود ہو (گھر میں) تم میں سے کوئی (اس) مہینے میں تو اُسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اس (مہینے) کے اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے چاہتا ہے اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا اور وہ نہیں چاہتا تمہارے ساتھ سختی کرنا اور تاکہ تم پورا کر لو گنتی (تعداد) کو اور تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس (احسان) پر جو اس نے ہدایت دی تم کو اور (اس لیے بھی) تاکہ تم شکر ادا کرو‘‘۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ اخلاقی انحطاط اور مادہ پرستی کے عروج کے باوجود بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نہایت دلچسپی کے ساتھ روزوں کو رکھتی ہے۔ روزہ اپنی ظاہری صورت میں چند گھنٹے کے لیے کھانے پینے اور جائز جبلی خواہشات سے رُک جانے کا نام ہے‘ لیکن حقیقت میں روزہ انسان کو اس بات کا سبق دیتاہے کہ جس پروردگار عالم کے حکم پر چند گھنٹوں کے لیے اپنی جائز خواہشات کو دبا دیا گیا ہے اس پروردگار عالم کے حکم پر سال بھر کے دوران اپنی ناجائز خواہشات سے بھی رُکنا ہو گا؛ چنانچہ دودھ ‘ پانی اور دیگر حلال مشروبات سے اللہ کے حکم پر رُک جانے والا یقینا شراب اور نشہ آور چیزوں سے رُکنے کے بھی قابل ہو جاتا ہے‘اسی طرح من پسند اورانواع وقسم کے کھانوں سے رُک جانے والا اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر سود خوری ‘ ناجائز منافع خوری اور دوسروں کی حق تلفی سے بھی رُک جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں روزے کی حقیقی روح کو سمجھ جانے والے روزے کے مقاصد اور نتائج کو پانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل کچھ ایسے روزے دار بھی نظر آتے ہیں جو روزہ رکھنے کے باوجود فسق وفجور کے راستے پر ہی گامزن رہتے ہیں۔ یہ لوگ روزے کے مقصد سے جہاں غافل رہتے ہیں وہیں پر اس کے اُس اجروثواب سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو روزے دار کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے تیار کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: ''صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بات کرنا اور فریب کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑے‘‘۔ا س کے بالمقابل روزے کو صحیح طریقے سے رکھنے کے حوالے سے صحیح بخاری ہی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ روزہ دوزخ سے بچنے کے لیے ایک ڈھال ہے اس لیے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس کا جواب صرف یہ ہونا چاہیے کہ میں روزہ دار ہوں‘ (یہ الفاظ) دو مرتبہ (کہہ دے) اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ اور پاکیزہ ہے‘ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) بندہ اپنا کھانا پینا اور اپنی شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے‘ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور (دوسری) نیکیوں کا ثواب بھی اصل نیکی کے دس گنا ہوتا ہے۔
یہ دونوں احادیث اس حقیقت کو واضح کر دیتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو فقط انسان کے کھانے پینے سے رُکنے کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں سے تقویٰ کو طلب کرتے ہیں اور جو شخص روزہ رکھنے کے بعد تقویٰ والی زندگی کو اختیار کرتا ہے درحقیقت وہی شخص روزے کے مقاصد اور نتائج کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اگرہم اپنے گردوپیش میں نظر دوڑائیں توروزے داروں کی ایک تعداد ایسی بھی نظر آئے گی جو چاند رات کو ہی روزے کی مقاصد کو یکسر بھلا دیتی ہے اور عید کو فقط نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا دن سمجھ کر رمضان المبارک کے تقاضوں کو یکسر فراموش کر دیتی ہے جب کہ اس کے بالمقابل بہت سے لوگ عید کے دن کو غلط نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کا دن سمجھنے کی بجائے اس دن کو روحانی خوشیوں کے احساس سے لبریز ہو کر گزارتے ہیں۔
عید کا دن درحقیقت ہمارے لیے اس وجہ سے خوشی کا دن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم عبادت کی انجام دہی کا موقع فراہم کیا۔ خوشی کے اس دن کو نافرمانیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس دن کو شکر گزاری کے احساس سے لبریز ہو کر گزارنا چاہیے۔ کفرانِ نعمت کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کو دعوت دیتے اورجو لوگ نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مزید نعمتوں کے حق دار بن جاتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں یوں فرمایا ہے :''اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا اور بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو) بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کاکفران کئی مرتبہ نعمتوں کے چھن جانے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کو حاصل نعمتیں کفران نعمت کی وجہ سے چھن گئی تھیں اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد فرماتے ہیں :''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اطمینا ن والی آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔
چنانچہ عید کی حقیقی خوشیوں کے حصول کے لیے ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی بجائے تابعداری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور کفران نعمت کی بجائے شکرانِ نعمت کی راہ پر چلنا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے کرم اور انعامات میں اضافہ فرما دے۔ اس دفعہ کی عید جس طرح اپنے جلو میں حسب سابق بہت سی خوشیوں کو لے کر آئی ہے وہیں پر ان ایام میں ایک عالمگیر وبا نے بھی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ کورونا وائرس کے مرض کے دباؤ کی وجہ سے انسانیت پریشان نظر آ رہی ہے اور مختلف مقامات پر ہونے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کے کاروبار کے ساتھ ساتھ قومی معیشت کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے اندیشے لاحق ہو چکے ہیں۔ اس عالمگیر وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقوام اور حکومتیں اپنے اپنے انداز میں حکمت عملی کو تیار کیے ہوئے ہیں۔ اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے جہاں پر احتیاطی تدابیر اور علاج ومعالجہ کی اہمیت کو بکثرت اجاگر کیا جا تا ہے وہیں پر اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں آنے والی مشکلات درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم اور علم کے مطابق رونما ہو رہی ہیں؛ چنانچہ ان مصائب اور مشکلات سے نکلنے کے لیے ہمیں انابت الی اللہ کا راستہ اختیار کرنا چاہیے اور عید کے دن کو یوم تجدید عزم کے طور پر گزارنا چاہیے کہ ہم آنے والے ایام میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی بجائے تابعداری کا راستہ اختیار کریں گے ‘اپنے گناہوں پر نادم ہو کر سچی توبہ کریں گے ۔اللہ تبار ک وتعالیٰ کی مغفرت کے حصول کے لیے استغفار کے ساتھ تمسک اختیار کریں گے اور مشکلات کو حل کروانے کے لیے اس ہی کی بارگاہ میں آکر دعاؤں اورالتجاؤں کو پیش کریں گے۔ اگر ہم نے عید کو اس انداز میںگزارا تو عید کی خوشیاںدو چند ہو جائیں گی اور اگر عید کو فقط مادی مسابقت‘ بے پردگی‘ اختلاط اور منہ زور نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں صرف کر دیا تو شاید ہم نفسانی خواہشات کو تو عارضی طور پر پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن اس کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کو مول لے کر دنیا اور آخرت کی ناکامی کے راستے پر چل نکلیں گے۔ عید کے اس موقع پر ہمیں کشمیر‘ فلسطین ‘ برما اور دنیا کے دیگر مقامات پر موجود مسلمانوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرنی چاہیے کہ وہ دنیا بھر کے مجبور اور مقہورمسلمانوں کوعید کی حقیقی خوشیاں نصیب فرمادے۔ آمین