عید کا دن اپنے جلو میں بہت سی خوشیوں کو لے کر آتا ہے اور لوگ اس دن کو اپنی اولاد اورا ہل خانہ کے ساتھ خوشی اور مسرت کے ساتھ گزارتے ہیں۔ بچوں کی خوشیاں دیکھ کر انسان کی اپنی خوشی بھی دوچندہو جاتی ہے۔ بسااوقات عید خوشی کی بجائے دکھ اور غم کا پیغام لے کر آتی ہے اور کسی عزیز کی جدائی کی خبر انسان کو عید کے دوران غمزدہ کر جاتی ہے۔ یہ عید بھی جہاں پر بہت سے لوگوں کے لیے خوشی کا پیغام لے کر آئی‘ وہیں پر کھڈیاں میں مسجد کے مدرس قاری خلیل الرحمن کے لیے دکھ اور غم کا پیغام لے کر آئی۔ قاری خلیل الرحمن ایک عرصے سے کھڈیاں میں ایک دینی درسگاہ کے مدرس ہیں اور اپنی شرافت ومتانت کی وجہ کھڈیاں میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ قاری صاحب نے دینی وابستگی اور لگاؤ کو فقط اپنی ذات تک ہی محدود نہیں رکھا‘ بلکہ اپنی بچوں میں بھی منتقل کیا۔ قاری صاحب کا جواںسالہ بیٹا سمیع الرحمن بھی قاری صاحب ہی کی طرح دین سے محبت اور پیار کرنے والا اور قرآن کی تلاوت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھنے والا نوجوان ثابت ہوا اور چھوٹی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کرکے اپنے والدین کی محبت اور توجہات کا مرکز بن گیا۔
بدقسمتی سے کتاب وسنت پر چلنے والے اس خاندان کے چشم وچراغ پر پیٹرولنگ پولیس کے ایک کانسٹیبل نے بری نگاہ کو رکھنا شروع کر دیا اور اس نوجوان کو غلط دوستی کی دعوت دی‘ لیکن نوجوان نے اس دعوت کو کسی بھی طور پر قبول نہ کیا۔ معصوم نامی پولیس کانسٹیبل اس نوجوان کے مسلسل انکار کے باوجود اپنی غلط خواہش کی تکمیل کے لیے مُصر رہا اور عید کے روز اپنے والد قاری خلیل الرحمن کے ہمراہ فجر کی نماز پڑھنے جانے کے لیے جاتے ہوئے اس نوجوان کو ایک مرتبہ پھر برائی کی دعوت دی‘ جس کو اس نوجوان نے مستردکر دیا۔ جس پر سفلی خواہشات کے اسیر سفاک کانسٹیبل نے مشتعل ہو کر سمیع الرحمن کو گولی مار دی۔ گولی نوجوان حافظ قرآن کے سینے پر لگی اور نوجوان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس واقعہ نے اہل کھڈیاں کے اعصاب پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے اور پورے کھڈیاں میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ کھڈیاں کی تاریخ کا تقریباً سب سے بڑا جنازہ عید کے روز مغرب کی نماز کے بعد ادا کیا گیا‘جس میں کھڈیاں کے رہائشیوں کی غالب اکثریت نے شرکت کی۔ اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔ مجھ سے بھی کھڈیاں کے احباب نے شرکت کے لیے رابطہ کیا ‘میں جنازے میں شرکت نہ کر سکا‘ لیکن جنازے کے اگلے روز میں غمزدہ والد کے ساتھ تعزیت کے لیے کھڈیاں پہنچا اور قاری خلیل الرحمن کے جواں سال بیٹے کی رحلت پر ان سے تعزیت کی۔ خون ِناحق پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے حکومت ِپاکستان سے وقت سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ مقتول کے ورثاء کو ہر قیمت پر انصاف دلایا جائے۔ پاکستان میں ایک عرصے سے قتل وغارت گری اور خونیں تشدد کی وارداتیں جاری ہیں‘ لیکن تاسف کا مقام یہ ہے کہ اس حوالے سے اکثر وبیشتر لاپروائی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے پہلی بات جو خصوصی اہمیت کی حامل ہے‘وہ یہ ہے کہ بحیثیت ِمسلمان ہمیں خون ِناحق کے بارے میں کتاب وسنت کے موقف کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی صورت میں قتل ِناحق کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں؛ چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 32میں ارشاد ہوا: ''جس نے قتل کیا کسی جان کو بغیر کسی جان (قصاص) کے یازمین میں فساد مچانے کے تو گویا کہ اس نے قتل کیا تمام لوگوں کو اور جس نے (کسی ناحق قتل سے بچا کر) زندگی دی‘ اُسے تو گویا کہ اس نے زندگی دی تمام لوگوں کو۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ مسلمان کے خون ِناحق کے بارے میں سورہ نساء کی آیت نمبر 93میں ارشاد ہوا: ''اور جو قتل کر ڈالے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اُس کی سزا جہنم ہے‘ہمیشہ رہے گا‘اُس میں اور غضب کیا اللہ نے اُس پر اور لعنت کی اُس پر اور تیارکر رکھا ہے‘ اُس کے لیے بڑا عذاب۔‘‘قرآن مجید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ احادیث ِمبارکہ میں بھی خون ِناحق کی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے جامع ترمذی کی اہم حدیث درج ذیل ہے:
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا زوال اور اس کی بربادی کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کرنے سے زیادہ حقیر اور آسان ہے۔‘‘
قرآن ِمجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے تنازع کا بھی ذکر کیا‘ جن میں سے ایک بھائی نے دوسرے بھائی کو فقط حسد کی وجہ سے قتل کر ڈالا۔ اس واقعہ کی تفصیل قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں بیان کی گئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو یہ خون ِ نا حق کتنا ناپسند آیا؟ اس کا اندازہ صحیح بخاری میں مذکور ایک روایت سے لگایا جا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''جو شخص بھی ظلم کے ساتھ قتل کیا جائے گا‘ اس کے (گناہ کا) ایک حصہ آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر بھی پڑے گا‘‘۔
خون ِناحق کے ازالے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن ِمجید میں قانون قصاص کو بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 178میں ارشادفرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو!جو ایمان لائے ہو‘ فرض کر دیا گیا ہے‘ تم پر قصاص لینا مقتولین (کے بارے) میں آزاد (قاتل) کے بدلے آزاد (ہی قتل ہو گا) اور غلام (قاتل) کے بدلے غلام (ہی قتل ہوگا)اور عورت کے بدلے عورت (ہی قتل کی جائے گی) پس‘ جو (کہ) معاف کر دیا جائے ‘اس کو اپنے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو (لازم ہے اس پر) پیروی کرنا دستور کے مطابق اور ادائیگی کرے‘ اس کو اچھے طریقے سے۔ یہ (دیت کی ادائیگی) تخفیف ہے ‘تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے۔پس‘ جو زیادتی کرے‘ اس کے بعد (بھی) تو اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں قانون ِقصاص کے نفاذ کی وجہ سے معاشرے میں ناحق قتل کاخاتمہ ہو گیا تھا۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک لڑکی چاندی کے زیور پہنے باہر نکلی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر اسے ایک یہودی نے پتھر سے مار دیا۔ جب اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا‘تو ابھی اس میں جان باقی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر (انکار کے لیے) اٹھایا‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہیں فلاں نے مارا ہے؟ لڑکی نے اس پر بھی سر نہ میں اٹھایا۔ تیسری مرتبہ آپ نے پوچھا:فلاں نے تمہیں مارا ہے؟ اس پر لڑکی نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا لیا (اقرار کرتے ہوئے جھکا لیا) ؛چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بلایا‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پتھروں سے کچل کر (اس کے جرم کی وجہ سے) اسے قتل کرایا۔
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ پئیں؛ چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق‘ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر ی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے‘ مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کی۔
کتاب وسنت میں مذکور ان احکامات اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ خونِ ناحق میں ملوث ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے‘ لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں ایک عرصے سے قتل وغارت گری کاسلسلہ جاری وساری ہے‘ لیکن اس حوالے سے حکومت‘ پولیس اور اس سے متعلقہ ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طرح نبھانے سے قاصر ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے حکومت اور پولیس کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے اورحکومت کو اس حوالے سے پولیس کوسیاسی اثرورسوخ سے آزاد کرواکے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کا مینڈیٹ تفویض کرنا چاہیے‘اگر پولیس کو سیاسی اور سماجی اثر ورسوخ سے آزاد کروا کے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں تفویض کردی جائیں‘ تو خون ِناحق کا تدارک کے امکانات پیدا ہو سکتے ہے‘ بصورت ِدیگر معاملات بہتری کی طرف نہیں جا سکتے۔اس واقعہ میں خوش آئند بات یہ ہے کہ قاتل گرفتار ہو چکا ہے ‘لیکن اس کی سزا کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں تشویش اور شکوک شبہات موجود ہیں۔ حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو خون ِناحق کا سلسلہ روکنے کے لیے سنجیدگی سے غوروفکر کرنا چاہیے اور اس حوالے سے سعودی عرب اور برطانیہ کے طرزِ حکمرانی سے استفادہ کرنا چاہیے‘ تاکہ ریاست میں صحیح معنوں میں عوام کے جان‘ مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔