کم سن اور معصوم بچے ہر سلیم الطبع انسان کو بھلے معلوم ہوتے ہیں اور اچھا انسان بچوں کو کھیلتا اور مسکراتا دیکھ کر اپنے دل میں خوشی اور مسرت کی لہر کو اُبھرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ جو لوگ اولاد کی نعمت سے محروم ہوتے ہیں‘ ان کی زندگی کی ایک بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی جھولی میں اپنی اس عظیم نعمت کو ڈال دے۔ بچہ‘ اگر کوئی شرارت یا ناگوار حرکت بھی کر دے تو لوگ اس کی شرارت کو اس کے بچپن کی وجہ سے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ دیکھنے میں آیاہے کہ والدین بھی بچوں کی شرارت پر کئی مرتبہ ان کو ڈانٹنے کی بجائے مسکرانا شروع ہو جاتے ہیں‘ لیکن معاشرے میں بعض بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں ‘جو بچوں سے پیار اور محبت کرنے کی بجائے بچوں کو اپنی ہوس‘ درندگی اور شہوانی خواہشات کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسے عناصر انسانوں کے روپ میں درندے ہوتے ہیں اور معاشرے کے امن وسکون اور پاکیزگی کو برباد کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ بچوں کو بری نگاہ سے بچانااور ان کے تحفظ کو یقینی بنانا ہر اچھی فطرت والے دل اور ضمیر کی آواز ہے‘ لیکن ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میںوقفے وقفے سے بچوں کا جنسی استحصال جاری وساری ہے۔
کچھ عرصہ قبل حسین خانوالہ میں معصوم بچوں کو برائی کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیوز کو پوری دنیا میں نشر کیا گیا‘ اسی طرح چند روز قبل قصور شہر میں ایک معصوم بچی کو بے آبرو کر دیا گیا‘ اسی طرح چند روز قبل کھڈیاں میں ایک حافظ قرآن لڑکے کو برائی کے اوپر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی اور انکار پر اس کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ جمعرات کے روز میں مقتول حافظ سمیع الرحمن کے والد قاری خلیل الرحمن سے ملاقات کے لیے کھڈیاں جا رہا تھا تو راستے میں مجھے یہ خبر ملی کہ اوکاڑہ کے علاقے حجرہ شاہ مقیم کے نواح میں ایک سات سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا ہے۔
یہ خبر سن کر میں چونک اُٹھا‘ میں نے دکھ اور غصے کی ایک طاقتور لہر کو اپنے وجود میں اترتے ہوئے محسوس کیا۔ میں نے دیپالپور روڈ پر واقعہ ایک بڑے مدرسے کے مہتمم اور مایہ ناز عالم دین ڈاکٹر عبید الرحمن محسن سے رابطہ کیا کہ ہمیں اس سانحے پر مظلوم خاندان کے ساتھ ضرور اظہار یکجہتی کرنا چاہیے اور اس ظلم کے خلاف بھرپور انداز میں اپنی آواز کو اُٹھانا چاہیے۔ڈاکٹر عبیدا لرحمن محسن نے متعلقہ علاقے میں رابطہ کرنے کے بعد یہ بات کہی کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اورمیرے ہمراہ مظلوم گھرانے کے ساتھ تعزیت کرنے کے لیے باجماعت روانہ ہوں گے۔ کھڈیاں سے بھی بعض دوست حجرہ شاہ مقیم کے لیے میرے ہمراہ ہو گئے۔ الہ آباد سے بھی بعض دوستوں نے اس سفر میں جانے کا عندیہ ظاہر کیا۔ راجوال پہنچنے پر ڈاکٹر عبیدا لرحمن محسن اور ان کے رفقاء کی ایک بڑی تعداد حجرہ شاہ مقیم جانے کے لیے تیار نظر آئی۔حجرہ شاہ مقیم پہنچنے پر وہاں کے مقامی دوست بھی شریک سفر ہو گئے۔ ہم جب نواحی گاؤں پہنچے تو دوستوں اور رفقاء کی ایک بڑی تعداد ہمارے ساتھ تھی۔ دیہات پہنچنے پر جو واقعہ سننے کو ملا اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بچی کا باپ صدمے سے نڈھال اور غم کی کیفیت میں مبتلا تھا ۔اس نے یہ بات بتلائی کہ اس کا چھوٹا بیٹا اور سات سالہ بیٹی باہر کھیلنے کے لیے نکلے تھے‘ تو علاقے کے ایک اوباش نوجوان نے اس کی بیٹی کو درندگی کا نشانہ بنا دیا۔ چھوٹابچہ دوڑتا ہوا گھر آیا تو اس کے ہمراہ اس کی بہن نہیں تھی‘ والد بچی کی تلاش میں گھر سے باہر نکلا تو کھیت میں بچی کی لاش کیچڑ میں لت پت پڑی ہوئی ہے ۔ یہ منظر باپ کے لیے ناقابل ِ ِبرداشت تھا اور اس منظر نے اُس کے ہوش وحواس کو معطل کر دیا۔ اس موقع پر بچی کی ماں نے بھی شدید دکھ اور تکلیف کا اظہار کیا اور یہ بات کہی کہ اس کی بچی کے سلسلے میں اسے انصاف ملنا چاہیے ۔ بچی کی ماں زاروقطار رو رہی تھی اور فریاد کر رہی تھی کہ ہمیں انصاف چاہیے! ہمیں انصاف چاہیے۔ وہ وزیراعلیٰ‘ وزیر اعظم اور مقامی پولیس سے استدعا کر رہی تھی کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔ اس منظر کودیکھ قافلے میں موجود تمام لوگوں کی آنکھیں پر نم ہو گئیں۔ڈاکٹر عبیدا لرحمن محسن نے اس موقع پر قتل وغارت گری اور ظلم وتشدد کی شدید انداز میں مذمت کی اور کتاب وسنت کے دلائل سے واضح کیا کہ خون ِناحق کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ انہوں نے اس موقع پر بتلایا کہ قتل کے جرم میں خواہ انسانو ں کی ایک بڑی تعداد بھی ملوث ہوتو ان کو اس جرم کی پاداش میں دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن جب گفتگو کر رہے تھے تو موقع پر وہاں موجود تمام افراد آپ کے لب ولہجے دردناکی کی وجہ سے پرنم ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن کے بعد مجھے بھی اپنی گزارشات کو وہاں پر موجود لوگوں کے سامنے رکھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس موقع پر جن خیالات اظہار کیا‘ ان کے خلاصے کو کچھ کمی وبیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:۔
ہمارا معاشرہ مسلسل اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ہم معصوم بچوں کے حرمت اور تقدس کو بھی فراموش کر چکے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے انسانیت کو بیٹی کو زندہ درگور کرنے سے روکا تھا‘ لیکن آج نبی کریم ﷺ کے اُمتی خود اپنے ہاتھوں سے بیٹیوں کو زندہ درگور کر رہے ہیں۔ یقینا یہ سانحہ ہر اعتبار سے دردناک ہے‘ لیکن ہمیں اس سانحے کے محرکات پر بھی غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے اپنے معاشرے میں اخلاقی اقدار کی بحالی کے لیے مؤثر کردار ادا نہیں کیا۔ معاشرے میں قرآن وسنت‘ حجاب‘ حیا اور پاکیزگی کی بجائے اختلاط ‘ محرب الاخلاق لٹریچر‘ غلط ویب سائٹس اور منفی مواد بکثرت موجود ہے‘ جس کی وجہ سے نوجوانوں کے اذہان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور نوجوان اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہمیں معاشرے میں اخلاقی اقدار کی بہتری کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے اور حجاب اور حیا کے فروغ کے لیے ہر طبقے کو اپنی ذمہ داریوـں کو بطریق ِاحسن نبھانا چاہیے۔ حیا اور حجاب کے کلچر کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں صنفی بدامنی کو پیدا کرنے والے عناصر کو کڑی سزائیں ملنی چائیں۔ جو لوگ بچوں کا استحصال کرکے ان کو قتل کر دیتے ہیں‘ وہ کسی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ درحقیقت یہ لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں اور فسادفی الارض کے مرتکبین کے بارے میں قرآن ِمجیدکا فیصلہ بالکل واضح ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر33 میں ارشادفرماتے ہیں : ''بے شک سزا ان لوگوں کی جو جنگ کرتے ہیں‘ اللہ اور اس کے رسول سے اور کوشش کرتے ہیں‘ زمین میں فساد مچانے کی (یہ ہے) کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا دیے جائیں یا کاٹ دیے جائیں ‘ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف (سمتوں) سے یا وہ نکال دیے جائیں‘ زمین (ملک) سے یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘ اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عکل یا عرینہ (قبیلوں) کے مدینہ میں آئے اور بیمار ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لقاح میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہاں اونٹوں کا دودھ پئیں؛چنانچہ وہ لقاح چلے گئے اور جب اچھے ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے وہ جانوروں کو ہانک کر لے گئے۔ علی الصبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (اس واقعہ کی) خبر آئی۔ تو آپ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے۔ دن چڑھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پکڑ کر لائے گئے۔ آپ کے حکم کے مطابق‘ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دئیے گئے اور آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیر دی گئیں اور (مدینہ کی) پتھریلی زمین میں ڈال دئیے گئے۔ (پیاس کی شدت سے) وہ پانی مانگتے تھے ‘مگر انہیں پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ ابوقلابہ نے (ان کے جرم کی سنگینی ظاہر کرتے ہوئے) کہا کہ ان لوگوں نے چوری کی اور چرواہوں کو قتل کیا اور (آخر) ایمان سے پھر گئے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی۔
مذکورہ بالا آیت اور حدیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانیت سوز افعال کے مرتکبین کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک قرار داد کو منظور کیاگیا تھا کہ معصوم بچوں کی آبروریزی کرکے ان کو قتل کرنے والے افرادکو سرعام سزائے موت دی جائے۔ ان حالات میں اس قرار داد پر عمل کرنا وقت کی پکار ہے۔پاکستان کے تمام طبقات سے وابستہ افراد کی غالب اکثریت بچوں کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائے موت دینے پر متفق ہے۔ حکومت ِوقت کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے اور زینب اور اُس جیسی دوسری بچیوں کے والدین کی آہ وبکااور گریہ زاری پر توجہ دینے چاہیے ‘تاکہ معاشرے میں موجود بدکرداروں اور اس طرح کے افعال کی ترغیب دینے والے عناصر کی بیخ کنی کرکے معاشرے کو امن وسکون اور پاکیزگی کا گہوارہ بنایا جا سکے!