انسان ساری زندگی دو حالتوں سے گزرتا ہے۔ بہت سے لوگ گھر بار‘ اولاد اور مال ودولت اور صحت کی نعمت سے بہرہ ور ہوتے ہیں تو اس کے مقابلے میں بہت سے لوگ بے اولادی‘ معاشی تنگی ‘محرومیوں اور بیماریوں کا شکار نظر آتے ہیں‘ اسی طرح یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ مختلف طبقات کے انسان جہاں پر مختلف انداز میں زندگی گزارتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ وہیں پر ایک ہی انسان کی زندگی مختلف ادوار سے گزرتی ہے‘ اسی انسان پر کبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی فروانی ہوتی ہے اور وہی انسان کسی دوسرے موقع پر تنگی دستی‘ غربت اور افلاس کی دلدل میں اترا ہوا نظر آتا ہے۔ زندگی کی یہ بدلتی ہوئی حالتیں درحقیقت انسان کی کمزوری اور ناتوانی پر دلالت کرتی ہیں‘ اگرانسان کے بس میں ہو تو وہ کبھی بھی تنگدستی‘ بدحالی‘بیماری اور پریشانی کی زندگی کو اختیار کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہو اور ہر آن اور ہر لمحہ خوشحالی ‘ فراوانی اور نعمتوں بھری زندگی کو ہی اپنے لیے چن لے‘ لیکن یہ معاملات درحقیقت انسان کے اختیار میں نہیں ‘بلکہ اللہ کے قبضہ واختیار میں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان دو حالتوں کے ذریعے انسان کی آزمائش کرتے ہیں اور اس حقیقت کا ذکر سورہ انبیاء کی آیت نمبر 35میں کچھ یوں کیا ہے: ''ہر جان چکھنے والی ہے موت کو اور ہم مبتلا کرتے ہیں تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمانے کیلئے اور ہماری طرف ہی تم سب لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ملک کے شروع میں بھی موت وحیات کے مقصد کو بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نظام کو درحقیقت انسانوں کو آزمانے کے لیے بنایا‘ تاکہ وہ دیکھ لے کون احسن عمل کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ملک کی آیت نمبر 1‘2 میں ارشاد فرماتے ہیں ''بہت برکت والا ہے وہ جو (کہ) اس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی‘ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (وہ) جس نے پیدا کیا موت اور زندگی کو‘ تاکہ وہ آزمائے تمہیں (کہ) تم میں سے کون زیادہ اچھا ہے عمل کے لحاظ سے۔‘‘ خوشحالی کی حالت میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا اوربدحالی میں اس کے فیصلوں پر صبر کرنا مردِ مومن کا شیوہ ہے‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ تکلیف میں بے صبری ‘ بے قراری اور مایوسی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘جب کہ نعمتوں کو پا لینے کے بعد شکر گزاری کی بجائے نافرمانی کے راستے پر چل نکلتے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی میں آنے والی ابتلاؤں اور مصائب پر صبر کرنے والے لوگوں کو کامیاب اور کامران قرار دیاہے۔سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155سے 157میں ارشاد ہوا ہے : '' اور البتہ ضرور ہم آزمائیں گے‘ تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے ‘انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں (کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
مذکور آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تکالیف پر صبر کرنے کے نتیجے میں انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمتوں وعنایات کا حق دار ٹھہرتا اور ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے‘ جب کہ اس کے مدمقابل وہ لوگ جو تکالیف پر مایوسی کا اظہار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف انابت اختیار کرنے کی بجائے اس کے احکامات سے روگردانی کرتے ہیں وہ ناکام اور نامرادہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورہ حج کی آیت نمبر11 میں ارشاد فرماتے ہیں '' اور لوگوـں میں سے (کوئی ایسا ہے) جو عبادت کرتا ہے‘ اللہ کی ایک کنارے پر‘ پھر اگر پہنچے اسے کوئی بھلائی (تو) مطمئن ہو جاتا ہے اس پر اور اگر پہنچے اسے کوئی آزمائش (تو) الٹا پھر جاتا ہے اپنے منہ کے بل ۔ اس نے نقصان اُٹھایا دنیا اور آخرت کا یہ ہی واضح خسارہ ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت اور نصرت سے مایوس ہو جانے والے لوگوں کے بارے میں سورہ حج ہی کی آیت نمبر 15میں ارشاد فرمایا : ''جو شخص (یہ) گمان کرتا ہے کہ ہر گز نہیں مدد کرے گا‘ اللہ اُس (رسول) کی دنیا میں اور آخرت میں تو چاہیے کہ وہ دراز کرے ایک رسی کو آسمان تک پھر چاہیے کہ وہ کاٹ دے (اسے) پھر چاہیے کہ وہ دیکھے کیا واقعی لے جاتی ہے‘ اس کی تدبیر (اس چیزکی) جو غصہ دلاتی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی مایوسی درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کو دعوت دیتی ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو وہ اُس سے شکریہ کو طلب کرتے ہیں‘ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اُس پر نعمتوں کو مزید بڑھا دیتے ہیں؛چنانچہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں ارشاد ہوا'' اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا ۔‘‘اسی آیت کے آخری حصے میں کہا گیا بے شک اگر تم ناشکری کرو گے (تو )بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انفال میں اس حقیقت کو واضح کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کسی قوم سے اس وقت تک نعمت کو نہیں چھینتے جب تک وہ اپنی بدعملی کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کو دعوت نہیں دیتی۔ سورہ انفال کی آیت نمبر 53میں ارشاد ہوا '' یہ اس وجہ سے ہے کہ بے شک اللہ نہیں ہے‘ بدلنے والا کسی نعمت کو (جو) اُس نے انعام کی ہو‘ اُسے کسی قوم پر یہاں تک کہ وہ بدل دیں جو اُن کے دلوں میں ہے اور بے شک اللہ خوب سننے والا‘ خوب جاننے والا ہے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کو اللہ نے رزق‘ امن اور اطمینان جیسی تین عظیم نعمتیں دیں‘ لیکن جب انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا کفران کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن پر بھوک اور خوف کو مسلط کر دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 112میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی‘ امن والی اطمینان والی آتا تھا‘ اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی ‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس سے وجہ سے جو وہ کرتے تھے۔‘‘
سورہ سبا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے سبا کی بستی کا ذکر کیا‘ جس کی نعمتوں کے چھن جانے کی وجہ ان کی نافرمانیاں تھیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے بہترین باغات کی نعمت واپس لے کر انہیں بدلے میں ایسے باغات دے دیے جن کے پھل بدذائقہ تھے۔ ''بلاشبہ یقینا (قومِ) سبا کے لیے اُن کے رہنے کی جگہ میں ا یک نشانی دو باغ دائیں اور بائیں جانب (تھے) (ہم نے انہیں حکم دیا تھا) کھاؤ اپنے رب کے رزق سے اور اُس کا شکر ادا کرو پاکیزہ شہر ہے اور بہت بخشنے والا رب ہے‘ پھر انہوں نے منہ موڑ لیا تو ہم نے بھیجا اُن پر زور کا سیلاب اور ہم نے اُن کو بدلے میں دئیے اُن کے دو باغوں کے عوض میں (اور) دوباغ بدمزہ میوے والے اور جھاؤ کے درختوں والے اور کچھ تھوڑی سی بیریوں والے تھے۔ یہ ہم نے بدلہ دیا انہیں اس وجہ سے جو انہوں نے کفر کیا اور نہیں ہم سزا دیتے ‘مگر اُسے جو بہت ناشکرا ہو اور ہم نے بنا دیں (یعنی آباد رکھیں) اُن کے درمیان (وہ) جو ہم نے برکت کی تھی اُن میں کچھ بستیاں (بنا دیں جو) سامنے نظر آنے والی تھیں اور ہم نے مقرر کر دی تھیں (منزلیں) اُن میں چلنے کی (ہم نے کہا) چلو اُن میں راتوں اور دنوں کو امن سے۔ پس‘ انہوں نے کہا اے ہمارے رب تو دوری پیدا کر دے ہمارے سفروں کے درمیان اوراُنہوں نے ظلم کیا ‘اپنی جانوں پر تو ہم نے بنا دیا‘ اُنہیں کہانیاں اور ہم نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا‘ انہیں مکمل طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنا؛ بلاشبہ اس میں یقینا نشانیاں ہیں ہر بہت صبر کرنے والے بہت شکر کرنے والے کیلئے۔‘‘
ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قوموں کے زوال اور ان سے نعمتوں کے چھن جانے میں ان کا کفران نعمت نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا حق دار بننے کے لیے اس کی نعمتوں کے آنے پر شکر کرنا اور نعمتوں کے چھن جانے پر صبر کرنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔ اس کے بالمقابل نعمتوں کے آ جانے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکموں سے اعراض کرنیوالے اور چھن جانے پر مایوسی کا راستہ اختیار کرنے والے لوگ کبھی بھی حقیقی کامیابی نہیں پا سکتے۔
آج ہمیں بھی اپنے قومی معاملات کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا‘ ہمیں ہر طرح کے موسم عطا کیے ‘ ہمیں معدنیات کے ذخائر سے نوازا‘ ہمیں زرعی زمینیں عطا کیں ‘کیا ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ نعمتوں کی شکر گزاری کی یا ناشکری والے راستے پر رہے؟ اگر ہمارا طرز عمل ناشکری والا تھا تو ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے اور آئندہ آنے والی زندگی میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا حق دار بننے کے لیے ان اصول وضوابط کو اپنانے کی ضرورت ہے ‘جو قوموں کو عروج کی طرف لے جاتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سوچ وفکر کی صلاحیتیں عطا فرما دے ‘ عمل صالح کی توفیق دے اور ہماری انفرادی اور اجتماعی پریشانیوں کو دُور فر ما دے۔ (آمین )