جون کا مہینہ اپنے جلو میں بہت سی اہم خبروں کو لے کر آیا‘ جن سے پوری قوم اور خصوصیت سے مذہبی سوچ وفکر کے حامل افراد بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ پہلی اہم خبر پنجاب اسمبلی میں نصابی کتب کے حوالے سے ناموس صحابہ ؓ‘ اہلبیت ؓاور اُمہات المومنین ؓکے بل کا پاس کیا جانا ہے ۔ اس بل کے مطابق ‘پورے صوبے میں ایسی کتب جن کا تعلق بالخصوص نصاب سے ہو اور ان میں مقدسات اُمت کے خلاف منفی مواد ہو ان کی نشرو اشاعت پر پابندی عائد کی جائے گی۔ یہ بل پنجاب اسمبلی میں منظور کر لیا گیا اور اس منظوری پر صوبے بھر میں ایک اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ اگر مقدسات اُمت کیخلاف مواد کی نشرواشاعت کو روک دیا جائے تو ملک سے خودبخود فرقہ واریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر ایک عرصہ قبل تمام مکاتب فکر کے جید علما کرام اس بات پر اتفاق کر چکے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ‘ اُمہات المومنینؓ اور اہلبیت ؓکی تنقیص حرام اور ان کی تکفیر کفر ہے اور علما کرام کے اسی اتفاق کو پنجاب اسمبلی نے قانونی شکل دی ہے ‘جس پر ملک کے دینی طبقات میں ہم آہنگی پائی جا رہی ہے۔ اس لیے کہ ملک میں نفرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کا اصل سبب حقیقت میں مقدسات اُمت کی تنقیص اور تکفیر ہے‘ اگر اس قبیح عمل کو روک دیا جائے تو ملک میں فرقہ واریت اور بدامنی پر احسن انداز میں قابو پانے کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ناموس رسالتﷺ‘ اہلبیتؓ اور صحابہ ؓپر ہمارا سب کچھ قربان ہے‘ اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ہیں۔
دوسری اہم خبر یہ ہے کہ پنجاب کی یونیورسٹیوں میں قرآن کا ترجمہ پڑھنے کو ڈگری کی تکمیل کیلئے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ گورنر پنجاب اور یونیورسٹیز کے چانسلر چوہدری سرور نے تمام یونیورسٹیز میں ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک پڑھانے کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق‘ پنجاب کی جامعات میں قرآن مجید ترجمہ کے ساتھ پڑھے بغیر ڈگری نہیں ملے گی‘پنجاب کی تمام جامعات میں لیکچررز طلبا کو ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھائیں گے۔ہمارے ملک میں بسنے والے شہریوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے‘ لیکن اس کے باوجود یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم قرآن مجید سے بہت دور ہیں۔ ہمیں بحیثیت ِمسلمان قرآن مجید کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بحیثیت ِمسلمان ہمیں اس بات کو سمجھنا ہے کہ قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے پر ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے اور مسلمان ہونے کے ناتے یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن مجید کی بقدر استطاعت تلاوت بھی کرتے رہیں۔ بالعموم مسلمان رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت سے دور رہتے ہیں؛ حالانکہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا جہاں پر بہت بڑی نیکی اور سعادت ہے‘ وہیں پر اس کی تلاوت کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ایمان کی روحانی اور جسمانی بیماریوں کو بھی دور فرما دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے مطالب اور مفاہیم کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمیںاس بات کو سمجھنا چاہیے کہ جو کتاب اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے قلب اطہر پر جمیع انسانیت کی ہدایت کیلئے نازل کی اس کا مفہوم اور مطلب کیا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ مطلب کو سمجھنے پرہی اکتفا نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ اس کے مطالب کو سمجھنے کے بعد اس پر عمل کرنا بھی ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو صرف کرنا بھی ہر مومن ومسلمان کے لیے ضروری ہے‘ اسی طرح تبلیغ پر بھی اکتفا نہیں کیا جا سکتا ‘بلکہ اس کتاب کے عطا کردہ نظام کے قیام کے لیے جستجو اور جدوجہد کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ ان تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے مفہوم کو سمجھنا کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ بد قسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت عصری علوم کی طرف تو بھر پور انداز میں توجہ دیتی ہے ‘جبکہ قرآن مجید کا فہم اور اس کے مطالب ومفاہیم پر تدبر کرنے کے حوالے سے مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کر رہے۔ گورنر پنجاب کے اس قدم کے نتیجے میں علمی اور پیشہ وارانہ ذمہ داری کے تحت اگر مسلمان قرآن مجید کے مفہوم اور مطالب سے آگاہ ہو جاتے ہیں تو اس بات کے امکانات بھی پیدا ہو جائیں گے کہ باقی ذمہ داریوں کو بھی اچھے طریقے سے انجام دے دیا جائے‘اسی طرح جون ہی میں سندھ اسمبلی میں بھی ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور ہوئی ہے‘ جس کے مطابق؛ چونکہ نبی رحمتﷺ آخری نبی ہیں اور ہر وہ شخص مسلمان ہے ‘جس کا نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر ایمان اور یقین ہے؛ چنانچہ موجودہ دور میں بوجہ نبی کریمﷺ کے نام نامی کے ساتھ اس صفاتی نام کا درج کرنا انتہائی ضروری ہے‘ جس میں آپﷺ کی ختم نبوت کو واضح کیا گیا ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر بہت سی سازشوں کو کیا گیا؛ چنانچہ جس مقام پر نبی کریمﷺ کا نام موجود ہو‘ اگر وہاں پر ساتھ خاتم النبیین ﷺکاذکر بھی کر دیا جائے تو اس سے اس عقیدے میں رخنہ ڈالنے والے لوگوں کی جہاں بھرپور انداز میں حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔
جون ہی کے مہینے میں ایک علم دوست شخص ڈاکٹر طاہر اسلام عسکری بھی لا پتہ ہو گئے۔ وطنِ عزیز میں ایک عرصے سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گمشدہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ بہت سے لوگ لمبے عرصے تک گمشدہ رہتے ہیں اور ان کے اہل خانہ ان کی جدائی کی وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی کرب کا شکار ہو جاتے ہیں‘ اسی طرح خاندان کی معاشی کفالت کرنے والے لوگوں کے لا پتہ ہونے کی وجہ سے خاندان معاشی طور پر بھی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہمارا ملک ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس ملک میں نقطۂ نظر کے اختلاف کی وجہ سے کسی شخص کا گم شدہ ٹھہرنا کسی بھی طور پر مستحسن عمل نہیں۔ حکومتِ وقت کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے اور اس مسئلے کے حوالے سے پائی جانے والی تشویش کے ازالے کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے‘ اگر کوئی شہری غیر قانونی اور مشکوک قسم کی سرگرمیوں میں ملوث پایا جاتا ہے ‘تو یقینا اس کا احتساب قانونی اور عدالتی طریقے سے ہونا چاہیے‘ جو کہ ایک سلجھے ہوئے اور تہذیب یافتہ معاشرے کا فرضِ اولین ہے‘ اور کوئی ایسا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے‘ جس سے لوگ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوں۔
جون ہی کے مہینے میں پروفیسر حافظ سعید‘ پروفیسر ظفر اقبال‘ مولانا عبدالسلام بھٹوی‘ حافظ عبدالرحمن مکی کو دہشت گردی کی عدالت میں ٹرائل کے بعد مختلف نوعیت کی سزائیں سنائی گئیں ان کی فکر سے وابستہ افراد کو یقینا جس پر تشویش ہے۔ جناب حافظ صاحب کی پالیسیوں سے اختلاف ممکن ہے‘ لیکن انہوں نے لمبے عرصے تک کشمیر کاز کے لیے بھرپور طریقے سے جو آواز اُٹھائی‘ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یاد آیا‘ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی ایک عرصے سے نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ا‘ن سے دلی وابستگی رکھنے والے کچھ افراد نے رمضان المبارک میں اور گزشتہ جمعہ کو بھی مجھ سے رابطہ کیا اور مطالبہ کیا کہ حکامِ بالا کو ایک عمر رسیدہ بیمار شخص‘ جس نے اپنی زندگی پاکستان کے دفاع کے لیے صرف کی ہو‘ کی نقل و حرکت پر عائد پابندی ختم کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے‘ تاکہ عمر کے اس حصے میں ڈاکٹر صاحب کو معمول کی زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔