اس دنیائے فانی سے ہر شخص نے رخصت ہونا ہے‘ مگر بعض ایسے لوگ بھی دنیا سے چلے جاتے ہیں کہ جن کی عظمت کے نقوش طویل عرصہ تک انسانوں کے اذہان اور قلوب پر نقش رہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دو ایسی شخصیات دنیا فانی سے کوچ کر گئیں کہ جن کی عظمت کا ایک زمانہ معترف ہے۔ مجھے ان دونوں شخصیات کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا ہے۔
پہلی شخصیت ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی ہے ‘جوکہ 24جون بروز بدھ کے روز اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ یہ عظیم ماہر ابلاغیات‘ تعلیم ‘ تدریس‘ علم ‘ فکر اور دین داری کے حوالے سے غیر معمولی شخصیت تھے۔ 1994ء میں جب میں نے ایم ۔ اے ابلاغیات میں داخلہ لیا تو مجھے اس عہد کے بہت سے ماہرین ابلاغیات کے سامنے زانوے تلمذ کو طے کرنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر مسکین علی حجازی ‘ ڈاکٹر شفیق جالندھری‘ڈاکٹر اے ۔ آر خالد‘ مجاہد منصوری اور ڈاکٹر احسن اختر ناز جیسے عظیم اساتذہ سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ 1994ء سے 1996ء کے دو برس سے میری بہت سی قیمتیں یادیں وابستہ ہیں۔
جب میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی کلاس میں داخل ہوا اور کلاس میں حاضری لگنے لگی‘ جب میری باری آئی تو ڈاکٹر مغیث الدین شیخ میرے لہجے کو سن کر ایک دم ٹھٹھک گئے اور مجھے کہنے لگے کہ آپ کی آواز ہمارے ایک مرحوم دوست حافظ احسان الٰہی ظہیر سے بہت ملتی ہے۔ جب انہیں پتا چلا کہ میں علامہ احسان الٰہی ظہیر ہی کا بیٹا ہوں تو وہ اس بات پربہت خوش ہوئے۔
اور ڈاکٹر مغیث الدین شیخ صاحب نے والد گرامی کے حوالے سے تحریک نظام مصطفی ؐ کے دور کی بہت سی یادیں میرے سامنے رکھیں کہ کس طرح وہ اس دور میں ہونے والے جلسوں میں شرکت کرتے رہے اور ان جلسوں میں ہونے والی تحریکی اور فکری گفتگو سے کس انداز میں مستفید ہوتے رہے۔
ڈاکٹر مغیث الدین ایک انتہائی باصلاحیت استاد تھے ۔ وہ بہت ہی خوبصورت اُردو کے ساتھ ساتھ انتہائی مہارت کے ساتھ انگریزی بولا کرتے تھے۔ دو برس تک ان سے ابلاغیات پڑھنے کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اپنے مضمون پر ان کو مکمل عبور تھا اور طلبہ کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور اشکالات کو بہت ہی خوبصورت انداز میں حل کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی سلاست روانی اور مضمون پر گرفت طالب علم کی توجہ کو کلی طور پر سمیٹے رکھتی تھی اور طلبہ آپ کے لیکچر کو بہت ہی انہماک سے سنا کرتے تھے اور ان کی ایک ہی خواہش ہوتی تھی کہ سمندر کی تیر رفتار لہروں کی طرح بہتے ہوئے علم سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر لیا جائے۔
میں ڈاکٹر مغیث الدین شیخ صاحب سے کلاس کے علاوہ بھی اُن کے ذاتی کمرے میں جا کر ملاقاتیں کرتا رہا اور استاد اور شاگرد کا تعلق ایک بڑے بھائی اور چھوٹے بھائی کے تعلق میں تبدیل ہو تا چلا گیا۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ صاحب جن دنوں ہاسٹل کے سپریڈنٹ تھے‘ میں ان ایام میں کئی مرتبہ آپ کے گھر جاتا اور ہم آپ کے گھر کے باہر موجود لان میں بیٹھ کر تفصیلی گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس گفتگو کے دوران کئی مرتبہ وہ میرے نکات کو سن کر مسکرا اُٹھتے اور کئی مرتبہ اختلافی نکات کی وجہ سے برہمی کا اظہار بھی کیا کرتے ‘لیکن اس برہمی میں تلخی‘ رنجش یا بحیثیت استاد دباؤ نہیں ہوتا تھا ‘بلکہ اپنے نقطۂ نظرکی سچائی پر اعتماد اور یقین کی ایک کیفیت ہوا کرتی تھی۔
ایم ۔ اے سے فارغ ہوجانے کے بعد جب میں نے ایم۔ فل ابلاغیات میں داخلہ لیا توا س موقع پر بھی مجھے آپ کے علم سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ میں ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کے ساتھ ایم ۔ فل کے بعد بھی رابطے میں رہا اور آپ کی محبتوں اور شفقتوں کو سمیٹتا رہا۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بہت سے نجی ٹی وی کے مذاکروں میں میری کارکردگی پر اطمینان کااظہار کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر مغیث الدین کی اچانک وفات نے میرے شعور اور احساسات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اورمیرے ذہن میں اس خیال کو ایک مرتبہ پھر پختگی کے ساتھ راسخ کر دیا کہ یقینا اپنے عہد کے عظیم ترین لوگوں کو بھی بلاخر دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا۔ میں نے اس جمعہ مرکز قرآن وسنہ میں آپ کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا۔ جس میں آپ کے بڑے بیٹے بھی شامل تھے۔ اس موقع پر میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ میرے اس عظیم استاد کی مغفرت فرما دے!
دوسری عظیم شخصیت سید منور حسن کی ہے۔ مرحوم قاضی حسین احمد کے دور سے ہی میرا جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ایک قریبی تعلق استوار ہو چکا تھا اور مرحوم قاضی حسین احمد ساری زندگی مجھ سے اپنے بیٹوں کی طرح برتاؤ کرتے رہے۔ آپ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد سید منور حسن سے بھی بہت ہی گرمجوش تعلق رہا۔ مجھے اُن کے ہمراہ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے بہت سے پروگرامز میں شرکت کرنے کا موقع ملا۔ میں نے سید منور حسن کو انتہائی جرأت مند‘ دین دار‘ جہاد کا حامی اورسامراج کا مخالف رہنما پایا۔ سید منور حسن‘ جس بات کو حق اورسچ سمجھتے اپنی زبان پر لے آتے تھے اور اس حوالے سے معاشرے میں موجود لوگوں کی نہ تو آپ کو مداح کی پروا ہوا کرتی تھی اور نہ ہی آپ ان کی تنقیص اور تردید سے دل چھوٹا کیا کرتے۔ ایک مرد درویش اور راست باز شخصیت کی حیثیت سے اپنے موقف کو برملا اور کھل کر بیان کر دینا‘ آپ کا عظیم خاصا تھا۔ سید منور حسن‘ غلبہ دین‘ اسلام کے نفاذ اور سامراج دشمنی میں پوری زندگی پیش پیش رہے اور اس حوالے سے آپ نے موقف کو بڑے ہی واضح اور وَاشگاف انداز میں بیان کرنے کا سلسلہ جاری وساری رکھا۔
سید منور حسن ‘قاضی حسین کے عہد میں سیکرٹری جنرل تھے اور اس کے بعد آپ جماعت اسلامی کے امیر بھی رہے۔ اپنے عہد ِامارت میں آپ نے جماعت اسلامی کی نظریاتی اور فکری تربیت پر بھرپور توجہ دی اور اس کو سیاسی اور عوامی جماعت سے بڑھ کر نظریاتی اور اسلامی جماعت کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں رہے۔
سید منور حسن کے اسلوب سے بہت سے لوگوں کو اختلاف بھی ہوا ‘لیکن ہر شخص اس بات کو سمجھتا تھا کہ سید منور حسن وہی الفاظ اپنی زبان سے ادا کرتے ہیں‘ جس بات کو وہ درست اور سچ سمجھتے ہیں۔ سید منور حسن ‘ایک مرتبہ ہی جماعت اسلامی کے امیر رہے اور اس دوران آپ نے ملک کے طول وعرض میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ مختلف پلیٹ فارمز پر ہونے والے ان جلسوں‘تقریبات اور سیمینارز میں کئی مرتبہ میں آپ کے ساتھ ہوتا۔ ان جلسوں میں ہونے والی میری بعض تقاریر کو آپ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ سراہا کرتے تھے‘ کئی مرتبہ مختصر سا تبصرہ بھی فرما دیتے۔
سید منور حسن‘ مجھ سے بڑے بے تکلفانہ انداز میں گفتگو کرتے۔ آپ کی گفتگو میں بڑی اپنائیت ہوتی اور یوں محسوس ہوتا‘ جیسے بڑا بھائی چھوٹے بھائی سے گفتگو کر رہا ہے۔ میں نے آپ کی نجی مجالس میں بیٹھنے کے بعد اس بات کو محسوس کیاکہ آپ ہمیشہ با مقصد گفتگو کیا کرتے تھے اور بلا مقصد گپ شپ میں اپنے وقت کو ضائع نہ ہونے دیتے۔الغرض سید منور حسن ہمہ وقت شرکا ئے مجلس کی فکری رہنمائی کے لیے بے تاب اور یکسو رہا کرتے تھے۔
سید منور حسن ‘جماعت اسلامی کی امارت کے بعد بھی اپنی بساط کی حد تک اپنے نظریات کے ابلاغ میں مصروف رہے اور جب بھی کبھی میڈیا یا ذرائع ابلاغ پر آپ کو تبصرہ کرنے کا موقع ملتا آپ بڑے وَاشگاف انداز میں اپنے نظریات کا ابلاغ کر دیا کرتے تھے۔ کئی لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ سید منور حسن کی گفتگو کو سن کر آپ کے ہمنوا حوصلہ پکڑتے اور آپ کے ناقدین پریشانی کا شکار ہو جایا کرتے تھے۔
سید منور حسن کے انتقال سے یوں محسوس ہوا گویا کہ حق اور سچ کے ابلاغ کا فریضہ انجام دینے والا ایک عظیم رہنما دنیا سے رخصت ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس ہوا گویا کہ ایک قریبی عزیز آج دنیا میں نہیں رہا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ان دونوں عظیم شخصیات کو غریق رحمت فرما کر اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان اور ارادت مندوں کو بالخصوص سید منور حسن کے انتقال پر جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور جن مثبت افکار کی انہوں نے نشرواشاعت کی ہمیں بھی انہیں پھیلانے والا بنا دے۔ (آمین)