خواجہ آصف پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہنما ہیں اور مختلف فورمز اور اجلاسوں میں اپنی جماعت کی نمائندگی کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ ایام میں ان کی قومی اسمبلی میں ہونے والی ایک متنازعہ تقریر کے حوالے سے ملک بھر میں ایک نظریاتی اور فکری کشمکش کی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔خواجہ آصف نے اسمبلی کے فلور پر اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ ایسی باتیں کیں جن پر مذہبی طبقات کو شدید تحفظات ہیں۔ خواجہ آصف صاحب نے اپنی تقریر میں اقلیتوں کی حق تلفی کا ذکر کیا اور اس حوالے سے عوام کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی۔ ہمارا ملک ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس میں بالعموم دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے خلاف نفرت اورتعصب دیکھنے میں نہیں آتا اور جو عناصر اس نفرت اور تعصب کی آبیاری کرتے ہیں ‘ رائے عامہ ان کو مسترد کر دیتی ہے۔ ہمارے ملک میں اقلیتیں مثالی زندگی گزار رہی ہیں اور ان کے مذہبی اور سماجی معاملات میں مداخلت نہیں کی جاتی۔ انہیں مخلوط انتخابات کے ساتھ ساتھ جدا گانہ حیثیت میں بھی مقننہ میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ ان کی جان ، مال اور عزت کے تحفظ کا احساس ہر ذی شعور پاکستانی میں موجود ہے۔ خواجہ صاحب کے اس بیان کو مذہبی طبقات مبالغہ آمیزی پر مبنی سمجھتے ہیں اور مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں کا یہ موقف ہے کہ مسلمانوں کے آباد کیے ہوئے علاقوں میں کسی نئے مندر کی تعمیر شرعی اور اخلاقی اعتبار سے درست نہیں‘ بالخصوص جب کہ یہ کام حکومت کی سرپرستی میں ہو رہا ہو۔علماء کا موقف ہے کہ یہ ایک علمی اور فکری مسئلہ ہے اور اس سے اقلیتوں کے بنیادی حقوق پر زدّ نہیں پڑتی۔
خواجہ صاحب نے اپنی تقریر میں چلتے چلاتے یہ بھی کہہ دیا کہ کسی مذہب کو دوسرے مذہب پر کوئی فوقیت نہیں۔ گو بعد میں انہوں نے اپنے اس بیان کی وضاحت کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن مذہبی جماعتوں اور طبقات ان کی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہیں۔معاشرے میں اس حوالے سے ایک رنج اور غم کی کیفیت نظر آتی ہے اور مذاہب کو برابر قرار دینے کے حوالے سے علماء اور دینی رہنما خواجہ آصف کے بیانیہ سے کسی بھی طور پر متفق نہیں ہیں۔
کتاب وسنت کے مطالعہ اور عام مشاہدے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مخلوقات باہم برابر حیثیت کی حامل نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض مخلوقات کو دوسری مخلوقات پر فضلیت دی ہے اور انسان کو اپنی فکر ، ارادے اور عملی صلاحیتوں کی وجہ سے ساری مخلوقات پر ممتاز کیا ہے۔ اس حقیقت کا بیان اللہ تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 70میں یوں فرماتے ہیں : ''اور بلاشبہ یقینا ہم نے عزت دی بنی آدم کو اور ہم نے سوار کیا انہیں خشکی میں اور سمندر (میں) اور ہم نے رزق دیا انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے فضیلت دی انہیں بہت (سی مخلوقات) پر ان میں سے جنہیں ہم نے پیدا کیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے سورہ تین کی آیت نمبر 4میں بھی انسانوں کی فضیلت کو کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ''بلاشبہ یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل وصورت میں۔‘‘ ان آیات سے باقی مخلوقات کے مقابلے میں انسان کی فضیلت واضح ہوتی ہے۔
انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا ہے۔بہت سے لوگ اپنی قوم اور ذات کی نسبت کی وجہ سے اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اسلام نے اس تصور کو قبول نہیں کیا ‘ بلکہ فضیلت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ حجرات کی آیت نمبر 13میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے لوگو! بے شک ہم نے پیدا کیا ایک مرد سے اور ایک عورت (سے)اور ہم نے بنا دیا تمہیں قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بعض خاندانوں کی فضیلت کا ذکر ہے تاہم اُن کی یہ فضیلت تقویٰ اور دین داری سے مشروط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فضیلت کے بہت سے دیگر اسباب کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ مجادلہ کی آیت نمبر 11میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اللہ بلند کرے گا (اُن لوگوں کو) جو ایمان لائے تم میں سے، اور (اُن لوگوں کو) جو علم دیے گئے درجوں میں۔‘‘ اس آیت مبارکہ میں فضیلت کے دو اسباب یعنی ایمان اور علم کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کریں تو فضیلت کے ان دونوں اسباب کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے۔ سورہ الم سجدہ کی آیت نمبر 19،20میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والے لوگوں اور نافرمان لوگوں کے درمیان فرق کو کچھ اس انداز میں واضح کیا ہے: '' تو (بھلا )کیا جو شخص مومن ہو (اس) کی طرح (ہو سکتا ہے) جو نافرمان ہو وہ برابر نہیں ہو سکتے۔ رہے (وہ لوگ) جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے تو ان کے لیے رہنے کے باغات ہیں بطور مہمانی اس کے بدلے جو وہ عمل کیا کرتے تھے۔ اور رہے (وہ لوگ) جنہوں نے نافرمانی کی تو ان کا ٹھکانا آگ ہی ہے جب کبھی وہ ارادہ کریں گے کہ وہ نکلیں اس سے (تو) وہ لوٹادیے جائیں گے اسی میں۔‘‘
قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر علم کی فضیلت کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 9میں ارشاد فرماتے ہیں :''کیا برابر ہو سکتے ہیں وہ (لوگ) جو علم رکھتے ہیں اور وہ(لوگ) جو علم نہیں رکھتے ، بے شک صرف عقل والے ہی نصیحت قبول کرتے ہیں۔‘‘ ٰاگر ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت سے بہرہ ور فرما یا دیا اور اس نعمت علم کی وجہ سے آپ کو فرشتوں پر فوقیت اور فضیلت عطا فرما دی۔ ابلیس نے جب آپ کی فضیلت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو وہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہو گیا۔ اسی طرح حضرت داؤد اور سلیمان علیہما السلام کے حوالے سے اللہ تعالیٰ اس امر کو واضح فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم کی نعمت سے بہرہ ور فرمایا تھا اوراس نعمت علم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو باقی اہل ایمان پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورہ نمل کی آیت نمبر 15میں کچھ یوں فرمایا ہے: ''اور بلاشبہ ہم نے دیا داؤد اور سلیمان علیہما السلام کو ایک علم اور ان دونوں نے کہا سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے فضیلت دی ہمیں اپنے مومن بندوں میں سے اکثر پر۔‘‘
قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب عمل لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے گناہ گاروں پر فوقیت دی ہے۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ سورہ جاثیہ کی آیت نمبر 21میں کچھ یوںفرماتے ہیں:''کیا گمان کر لیا (ان لوگوں نے) جنہوں نے ارتکاب کیا برائیوں کا کہ ہم کر دیں انہیں (ان لوگوں) کی طرح جو ایمان لائے اورا نہوں نے نیک عمل کیے (کہ) ان کا جینا اور ان کا مرنا برابر ہو گا برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اندھا اور بینا، اندھیر اور اجالا، دھوپ اور چھاؤں ، زندہ اور مردہ لوگ برابر نہیں ہو سکتے۔
کچھ یہی معاملہ ادیان کا بھی ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے تو کسی بھی اسلامی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق یعنی جان، مال،عزت اور آبرو کا تحفظ تو ہر شخص کو حاصل ہو گا لیکن جہاں تک تعلق ہے کسی مذہب کے پسندیدہ یا چنیدہ ہونے کا ‘ تو یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو بطور مذہب منتخب فرما لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے :''آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین۔‘‘ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد ہوا : ''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘
مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر آیات اور احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظروں میں پسندیدہ اور چنا ہوادین فقط اسلام ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے ایسی باتیں کہنے سے گریز کرنا چاہیے جن کی وجہ سے معاشرے میں تنازعے اور تشویش کی کیفیت پیدا ہو۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کو الفاظ کے چناؤـمیں بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے اس لیے کہ الفاظ ہی درحقیقت انسان کی فکر اور ما فی ضمیر کی نمائندگی کرتے ہیں اور اگر کوئی انسان نامناسب الفاظ کی ادائیگی کے بعد ان الفاظ کی اصل مراد کی بجائے اپنی ذاتی مراد کو لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہے تو لوگ اس بات پر مطمئن نہیں ہوتے۔
پاکستان اقلیتوں کی جان، مال عزت اور آبرو کے تحفظ کے حوالے سے ایک مثالی ریاست ہے اور دیگر بہت سے ممالک کے مقابلے میں یہاں پر اقلیتوں کو زیادہ حقوق حاصل ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان کے حقوق کی بات کرنے میں کوئی قباحت نہیں تاہم اس گفتگو کے دوران اسلام کی فوقیت اور عظمت پر اگر کوئی حرف آتا ہو تو پاکستان کے مسلمان یقینا اس بات پر تشویش اور اضطراب کا شکار ہوں گے۔اِس قسم کے رویوں اور معاملات کی اصلاح وقت کی ضرورت ہے۔ اُمید ہے کہ سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنے طرز عمل پر غور کریں گے اور پاکستان کے دینی طبقات کی تشویش اور تحفظات کے ازالے کے لیے مستقبل میں اس قسم کے طرز عمل سے اجتناب کریں گے۔