"AIZ" (space) message & send to 7575

حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو فرار نہیں اور ہر شخص کو جلد یا بدیر موت کا جام پینا پڑے گا۔ لیکن بعض لوگ ایسی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں کہ ان کی یادوں کے نقوش تا دیر گردشِ دوراں پر ثبت رہتے ہیں۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات ایک عظیم عالم دین حافظ صلاح الدین یوسفؒ دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ حافظ صلاح الدین یوسفؒ کے انتقال کی خبر مجھے اس وقت ملی جب میں گلیات مرکز علامہ احسان الٰہی ظہیر اور دیگر مراکز کے دورے پر اپنے بھائی معتصم الٰہی ظہیر اور ہشام الٰہی ظہیر کے ہمراہ تھا۔ رات دو بجے ڈاکٹر حسن مدنی کی بھرائی ہوئی آواز سنائی دی۔ ڈاکٹر حسن مدنی انتہائی دکھی اور غمزدہ لہجے میں بتلا رہے تھے کہ عصرِ حاضر کے عظیم مفسرِ قرآن حافظ صلاح الدین یوسفؒ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔ حافظ صلاح الدین یوسفؒ کی وفات پر وہ شدید کرب اور دکھ میں مبتلا تھے‘ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ان کا کوئی قریبی عزیز دنیا سے رخصت ہو گیا ہو۔
ڈاکٹر حسن مدنی کے ادارے سے گزشتہ کئی برس سے ایک معیاری علمی ماہنامہ ''محدث‘‘ کی مستقل اشاعت جاری ہے۔ اس رسالے میں حافظ صلاح الدین یوسفؒ تواتر سے اپنے علمی مضامین اور مقالات لکھا کرتے تھے۔ علم دوست لوگوں کی بڑی تعداد ان کی تحریروں سے استفادہ کرتی تھی۔ اس قریبی، علمی اور قلمی تعلق کے سبب ڈاکٹر حسن مدنی کا غمزدہ ہونا سمجھ سے باہر نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی بات سنتے ہی میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے جنازے کو مرکز قرآن و سنہ لارنس روڈ پر ادا کیا جائے۔ میں شہرسے دور تھا اور خود ان کے جنازے میں شریک ہونا چاہتا تھا لیکن فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے بروقت پہنچنے کے امکانات کم تھے۔ لیکن چونکہ حافظ صلاح الدین یوسفؒ ہمارے انتہائی قابلِ قدر بزرگ تھے اس لیے اُن کا جنازہ ہمارے مرکز میں ہونا ہی میرے لیے بہت بڑی سعادت تھی۔ اتوار کے روز ظہرکی نماز کے بعد حافظ صلاح الدین یوسفؒ کے جنازے میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی، اس موقع پر ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر شخص یوں محسوس کر رہا تھا گویا کہ اس کا کوئی قریبی عزیز دنیا سے رخصت ہو گیا ہو۔
حافظ صلاح الدین یوسفؒ کے جنازے کی امامت عصر حاضرکے مشہور محقق اور عالم دین مولانا مسعود عالم صاحب نے کراوئی اور جنازے میں شریک ہزاروں لوگ گڑگڑا کر ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے۔ جنازے کی ادائیگی کے بعد بھی علمائ، طلباء اور عوام کی کثیر تعداد مرکز قرآن و سنہ میں پہنچتی رہی، جس کی وجہ سے دوسری نمازِ جنازہ ادا کرنا پڑی، جس کی امامت عظیم عالم دین شیخ الحدیث ارشاد الحق اثری صاحب نے کرائی۔ مولانا کی وفات پر جہاں علمی حلقوں میں دکھ اور ملا ل کا اظہار کیا گیا وہیں پر دنیا بھر میں مولانا کی تحقیقی کتب کا مطالعہ کرنے والے کتب بین اور علم دوست حلقوں میں بھی آپ کے خلا کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا۔
نفع بخش علم یقینا انسانوں کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسفؒ کی مقبولِ عام تفسیرِ قرآن ''احسن البیان‘‘ دنیا کے ہر کنارے تک پہنچ چکی ہے اور لاکھوں لوگوں نے عصرِ حاضر کی اس بے مثال تفسیر سے استفادہ کیا اور اپنے علم کو جلا دی۔ آپ کی تفسیر معنی، مفاہیم اور مطالب کے ایک سمندر کو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ علمی نکات کے ساتھ ساتھ نثری، ادیبانہ خوبیاں اور سلاست بھی آپ کی اس تفسیر میں پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ حافظ صلاح الدین یوسفؒ بڑے بڑے دقیق نکات کو بڑی خوش اسلوبی سے عام فہم انداز میں اپنی تفسیر میں بیان کر دیا کرتے تھے۔ آپ کی اس جامع تفسیر سے جہاں عام عوام نے استفادہ کیا وہیں اہلِ علم بھی اس سے مستفیض ہوتے رہے۔
آپ صاحبِ قلم وقرطاس تھے اور جہاں پر آپ نے 22سے زائد مفصل تحقیقی اور علمی کتب تحریر کیں وہیں پر بعض مختصر مضامین بھی تواتر اور تسلسل کے ساتھ تحریر فرماتے رہے۔ ماہنامہ محدث میں لکھنے کے ساتھ ساتھ کئی برس تک علمی رسالے ''الاعتصام‘‘ کے مدیر بھی رہے اور آپ کے زیر ادارت نکلنے والے اس رسالے میں چھپنے والے مضامین کا معیار نہایت علمی اور تحقیقی ہوا کرتا تھا اور لوگ بڑے ذوق و شوق سے ان مضامین کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ آپ نے جہاں پر دیگر بہت سے اہم عناوین پر تحاریر رقم کیں‘ وہیں پر حالاتِ حاضرہ اور قومی مسائل پر بھی مستند، باحوالہ اور زبردست تحریر لکھا کرتے تھے اور کتاب و سنت کی روشنی میں قومی مسائل کا بہت ہی خوبصورت انداز میں حل پیش کیا کرتے تھے۔
آپ نے ایک مرتبہ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے خانوادے کے بارے میں بھی ایک تفصیلی تحریر لکھی جس میں جہاں پر علامہ احسان الٰہی ظہیر کے والد گرامی حاجی ظہور الٰہی اور محترم چچا ڈاکٹر فضل الٰہی کا ذکر تھا وہیں پر آپ نے اس مضمون میں میری بھی بہت حوصلہ افزائی کی اور مستقبل کے حوالے سے اچھی توقعات کا اظہار فرمایا۔ یہ آپ کا حسنِ ظن تھا اور میری یہ کوشش ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ مجھے اُن کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق دے۔ مختلف شخصیات اور خاندانوں پر لکھی جانے والی تحریروں سے حافظ صاحب کی شخصیت کا ایک منفرد پہلو سامنے آتا ہے کہ وہ کس انداز میں مختلف دوست احباب سے اپنی وابستگی کا اظہار کیا کرتے تھے۔
حافظ صاحب نے ذاتی اعتبار سے انتہائی سادہ زندگی گزاری، تواضع اور عجز و انکساری آپ کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے۔ آپ لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ طلبہ اور مسائل پوچھنے والوں سے آپ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ گفتگو کیا کرتے۔ میرے قریبی دوست انجینئر محمد عمران کئی مرتبہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے ان کو ان کی رہائش گاہ سے لے کر مسجد پہنچایا کرتے تھے اور وہ ان کے تقویٰ، للہیت اور خشوع و خضوع کے چشم دید گواہ ہیں۔ میں بھی حافظ صاحب سے کئی مرتبہ ملا، والد گرامی کی وفات کے بعد ان کے ساتھ جب بھی ملاقات ہوئی‘ بڑے دھیمے اور مسکراتے ہوئے انداز میں گفتگو کیا کرتے۔ میری ان سے آخری ملاقات دھرم پورہ لاہور میں ہونے والے ایک بڑے جلسے میں 22فروری2020ء کو ہوئی ۔ آپ حسبِ سابق انتہائی پیار اور شفقت سے پیش آئے۔
آپ کی نجی زندگی اور اعلیٰ اخلاق کے حوالے سے آپ کے ہمسایوں کی گواہی نہایت معتبر ہے۔ آپ کے ہمسایوں نے جس انداز میں آپ کی شخصیت کا نقشہ کھینچا اس سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ آپ نے کس قدر نیکی اور تقویٰ والی زندگی گزاری۔ آپ اپنے گرد و پیش میں رہنے والے لوگوں کے مسائل کا حل انتہائی خندہ پیشانی سے پیش کیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی شفقت والا رویہ اپنایا کرتے تھے۔ آپ کی وفات پر آپ کے ہمسایوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا کہ وہ ایک مشفق اور مہربان عالم اور استاد سے محروم ہو گئے اور یہ محرومی یقینا ان کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔
حافظ صاحب کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر علمی اور عملی اعتبار سے ترقی عطا فرمائی وہیں پر دنیاوی اعتبار سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو کئی بڑے مناصب پر کام کرنے کا موقع عطا فرمایا۔ آپ وفاقی شرعی عدالت کے مشیر بھی رہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن کے طور پر بھی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ آپ نے ان مناصب کو ذاتی فوائد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے خالصتاً علمی اور دینی خدمات کے لیے استعمال کیا اور جس بات کو درست اور صحیح سمجھا اسے بلا کم و کاست لوگوں کے سامنے رکھا۔
آپ کی مختصر علالت کے بعد وفات یقینا ایک بہت بڑا خلا ہے۔ جسے مدتِ مدید تک پُر نہیں کیا جا سکے گا۔ آپ کی وفات پر ملک کے صحافتی حلقوں نے جس دکھ کو محسوس کیا اس کا مشاہدہ معروف دانشور اور سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی کے تجزیے سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آپ کی وفات پر مختلف مکاتب ِ فکر اور مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والی بہت سی نمایاں شخصیات نے بھی انتہائی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی حافظ صلاح الدین یوسف صاحب کے علمی مقام کا واضح طور پر اعتراف کیا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ فقط ایک مکتبِ فکر یا ایک نقطہ نظر کے بڑے عالم نہیں تھے بلکہ سماج کے بہت سے حصوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو قبولیت عطا فرمائی تھی۔ آپ نے اپنے لواحقین میں ایک عالم و فاضل فرزند عثمان یوسف کو چھوڑا ہے جن سے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے والد کے علمی اثاثے کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی جستجو کریں گے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی حسنات کو قبول فرمائے‘ سیئات سے درگزر فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کے علمی اثاثے اور ترکے کو سنبھالنے کی توفیق دے۔آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں