سورہ ذاریات کی آیت نمبر 56 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح کر دیا کہ جنات اور انسان کی تخلیق کا حقیقی اور بنیادی مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''اور میں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو‘ مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ اِس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جنات اور انسانوں کو ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ گو انسان کو تسلسل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے لیکن بعض ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کی اہمیت پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جس طرح کہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں مسلمان روزے رکھتے، تراویح پڑھتے، صدقہ اور خیرات کرتے ہیں‘ اُسی طرح ذوالحجہ کا پہلا عشرہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس عشرے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فجر میں دس راتوں کی قسم کھائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فجر کی آیت نمبر1اور 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی (قسم)‘‘۔ مفسر اُمت حضرت عبداللہ ابن عباسؓ کے مطابق ان دس راتوںسے مراد ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔ سورہ فجر میں مذکور دس راتوں کے بارے میں جہاں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے واضح ہے‘ وہیں مفسرین کی اکثریت کے نزدیک بھی ان دس راتوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کے دن ہی سے چار مہینوں کو حرمت والا مہینہ قرار دیا تھا جو رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم ہیں۔ حرمت والے ان چار مہینوں میں ذی الحجہ کی اپنی ایک شان اور مقام ہے۔ اس لیے کہ اس مہینے کی 8تاریخ کو حاجی حج کا قصد کرتے اور 9 تاریخ کو عرفات میں وقوف کرتے ہیں، عرفات کے اس وقوف کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ حاجیوں کی جملہ خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں اور اس مہینے کی 10تاریخ کو دنیا بھر میں حضرت ابراہیمؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حاجی اور غیر حاجی جانوروں کو ذبح کرکے اس بات کا پیغام دیتے ہیں کہ آج جس طرح چھری کو جانور کے گلے پر چلایا جا رہا ہے اُسی طرح اللہ کے حکم پر اپنی عزیز ترین متاع، قیمتی ترین اشیاء اور خواہشات کو بھی قربان کیا جانا چاہیے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر قرآن مجیدکے نزول کی وجہ سے رمضان المبارک کا پورا مہینہ محترم و مکرم و مبارک ٹھہرا‘ اسی طرح حج اور قربانی کی بابرکت عبادات کی وجہ سے جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نویں اور دسویں ذی الحجہ کو خصوصی مقام عطا فرمایا‘ وہیں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے پورے عشرے ہی کو محترم و معزز بنا دیا۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زمانے بھر میں عشرہ ذی الحجہ سے افضل کوئی دن نہیں ہے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں بیان ہوا کہ دنیا کے سب سے افضل یہ دس دن‘ یعنی عشرہ ذوالحجہ ہیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ نزول قرآن مجیدکی یاد دلاتا ہے‘ جبکہ عشرہ ذوالحجہ سے تکمیل دین کی یادیں وابستہ ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے عرفہ کے دن سورۃ المائدہ کی اس عظیم آیت کو نازل فرمایا کہ جس میں تکمیل دین کی بشارت سنائی گئی ہے
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 3 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''آج میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا‘ اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند فرمایا‘‘۔ تکمیل دین کی بشارت اتنی بڑی خوشخبری تھی کہ اِس کی قدر و قیمت کا احساس عہدِ صحابہ کے غیر مسلموں کو بھی تھا۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے : صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ایک یہودی (کعب احبار‘ اسلام لانے سے پہلے) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر ہمارے یہاں سورہ مائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی کہ ''آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا‘‘ تو ہم اس دن کو عید (خوشی) کا دن بنا لیتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ (یعنی یہ دونوں ایام عید (خوشی) ہی کے دن ہیں)۔
رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن کی یاد دلاتا ہے؛ چنانچہ رمضان المبارک کے خاتمے پر مسلمان عید الفطر کی خوشیاں مناتے ہیں جبکہ عشرہ ذی الحجہ تکمیل دین کی یاد دلاتا ہے اور اس میں مسلمان مناسک حج کو ادا کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لاتے ہیں۔ اس عشرے کے آخر میں عید الاضحی کی خوشیاں منائی جاتی ہیں اور انہی دو ایام کو مسلمانوں کے لیے خوشی والے ایام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی اس عشرے کی اہمیت کو بہت زیادہ اجاگر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے دو اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نیکی‘جس قدر ان ایام میں فضیلت والی ہوتی ہے‘ اتنی دیگر ایام میں نہیں ہوتی۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں‘ سوائے اس شخص کے جو اپنی جان اور مال کے ساتھ جہاد کے لیے روانہ ہوا اور اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لایا۔
2۔ مسند احمد میں ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ کی نظروں میں ان ایام سے زیادہ افضل کوئی بھی دن نہیں کہ جن میں کیے جانے والے نیکی کے کام ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں سے زیادہ اللہ کو محبوب ہوں‘‘۔
چنانچہ ان دنوں میں بکثرت تہلیل‘ تکبیر اور تحمیدکرنی چاہیے۔ خاص طور پر یوم عرفہ کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ اس دن کی بہترین دعا جو نبی کریمﷺ اورآپ سے پہلے انبیاء کا ذکر ہے‘ وہ ''لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر‘‘ ہے۔ ان ایام میں روزے رکھنے کی بھی خصوصی فضیلت ہے۔ عرفہ کے روزے کی فضیلت تو واضح ہے کہ اس دن روزہ رکھنے والے کے گزشتہ اور آئندہ آنے والے برس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا: عرفہ کے دن کا روزہ‘ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا اور اگلے سال کے گناہوں کا بھی۔
لیکن باقی ایامِ ذوالحجہ میں بھی روزہ رکھنا باعث ثواب ہے۔ مسند احمد اور سنن ابی داؤد میں حدیث مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ ذوالحجہ کے نو دن اور یومِ عاشورکا روزہ رکھا کرتے تھے۔ اگرچہ اس حدیث کی صحت کے بارے میں محدثین کا اختلاف ہے؛ تاہم عصر حاضر کے مشہور محدث علامہ شیخ البانی کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے۔
ان ایام میں کثرت سے توبہ و استغفارکا اہتمام کرنا چاہیے‘ تاکہ ہماری زندگی میں ہمارے گناہوں کی وجہ سے آنے والی تکالیف اور پریشانیوں کا خاتمہ ہو جائے اور دنیا وآخرت کی فلاح بھی ہمارا مقدر بن جائے۔ ان ایام میں کیے جانے والے نیکی کے کاموں میں سرفہرست عمرہ اور حج ہیں۔ عمرہ اور حج بکثرت کرنے سے جہاں انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں‘ وہیں اس کے رزق میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان ایام میں کیے جانے والا آخری اور اہم کام جانوروں کی قربانی ہے۔ قربانی کا مقصد دکھلاوے کے بجائے اللہ کی خوشنودی کا حصول ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحج میں اعلان فرمایا کہ ''اللہ تعالیٰ کو ہرگز ان (قربانیوں) کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا‘ بلکہ اس کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
سنتِ نبوی شریف صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عشرہ ذی الحجہ کی آمدکے بعد‘ جس نے قربانی کرنا ہو‘ اس کو اپنے بال اور ناخن نہیں کاٹنے چاہئیں۔ صحیح مسلم، سنن ابی داؤد ، سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی میں حدیث مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''جس شخص کے پاس قربانی کا جانور ہو‘ جسے وہ ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہو‘ جب ذی الحجہ کا چاند نظر آجائے‘ تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘ یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں قربانی کر لے‘‘۔
ہمیں اس بات کو یادرکھنا چاہیے کہ حرمت والے مہینوں میں جہاں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی فضیلت دوسرے مہینوں کے مقابلے میں زیادہ ہے‘ وہیں پر ان مہینوں میں نافرمانی کا وبال بھی دوسرے مہینوں سے زیادہ ہے؛ چنانچہ سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو حکم دیا کہ ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ چنانچہ ہمیں ان ایام میں خصوصیت سے نافرمانی اور گناہوں والے کاموں سے بچنا چاہیے۔ ایام ذی الحجہ اپنے جلو میں برکات‘ مغفرت اور رحمت باری کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ بندگی اور عبادت کا اہتمام کرکے اپنے پروردگارکو راضی کرنا چاہیے‘ تاکہ ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے۔ آمین!