حسبِ سابق اس دفعہ بھی عید قربان اپنے جلو میں بہت سی خوشیوں کو لے کر آئی اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنی اپنی بساط کے مطابق مختلف جانوروں کو اللہ کی راہ میں قربان کیا۔ دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں اونٹ، گائے، بکرے اور چھترے ذبح کیے گئے۔ عید کے دنوں میں لوگوں نے خود بھی گوشت کھایا، اپنے دوست‘ احباب کو بھی کھلایا اور اپنی اپنی حیثیت اور وسائل کے مطابق غریبوں، مساکین اور یتامیٰ کی بھی مدد کی۔ عید قربان کے موقع پر ہر سال دنیا بھر میں عالمِ اسلام کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی سنتِ ابراہیمی ؑ کا بھر پور طریقے سے التزام کیا جاتا ہے اور ان علاقوں میں بسنے والے مسلمان پورے جوش وجذبے سے عید قربان مناتے ہیں۔
عید قربان سے قبل عیدالفطر کے موقع پر بھی ہر سو خوشیاں پھیلی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن اس بات کا مشاہدہ کرنا کچھ مشکل نہیں کہ عیدین کے موقع پر جس جذبے اور احساس کا تقاضا اُمت مسلمہ سے کیا جاتا ہے‘ وہ جذبہ، احساس اور عزم انسانوں میں کماحقہٗ نظر نہیں آتا۔ رمضان المبارک کا مہینہ نزولِ قرآن کی یادگار ہے اور اس موقع پر روزوں کا التزام کرکے تقویٰ کے حصول کی جستجو کی جاتی ہے اور روزوں کی تکمیل پر عیدالفطر کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ اسی طرح ایام ذی الحجہ میں عبادات کی خصوصی اہمیت ہے۔ یومِ عرفہ تکمیلِ دین کی یادگار ہے اورا س موقع پر لاکھوں کی تعداد میں لوگ حج کرکے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کا التزام کرتے ہیں۔ ایام ذی الحجہ کے دوران دنیا بھر میں باعمل مسلمان اللہ تبارک وتعالیٰ کی پورے انہماک اور توجہ سے عبادت کرتے ہیں اور حاجی حج کے مناسک کی ادائیگی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ ان عبادات کے بعد عید الاضحی یا یوم النحر خوشی کا ایک عظیم الشان موقع ہوتا ہے اور اس موقع پر بھی انسانوں کو درحقیقت اس بات کی رغبت دلائی جاتی ہے کہ وہ اس سوچ و فکر کو اپنے دل و دماغ میں راسخ کریں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو جانوروں کے کاٹے جانے والے گوشت اور بہائے جانے والے لہو کی ضرورت نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے دلوں میں پایا جانے والا تقویٰ دیکھتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے بہت سی قربانیاں دیں، آپؑ نے جوانی میں بت کدے میں کلہاڑا چلایا، دربارِ نمرود میں صدائے توحید بلند کی، اجرام سماویہ کی بے بسی کو واضح فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے محبتوں کی بہت سی قربانیاں دیں اور اللہ کے حکم پر سیدہ ہاجرہؑ کو اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے آب زم زم، پاکیزہ رزق اور انسانوں کی ہمسائیگی کا بہترین انداز میں بندوبست فرما دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کی ایک انتہائی بڑی قربانی سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کے لیے آمادہ و تیار ہو جانا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس ادا کو اس انداز میں قبول و منظور فرمایا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت کے مینڈھے کو ذبح کروا دیا اور رہتی دنیا تک کے لیے آپ کی اس خوبصورت ادا کو مجسم کر دیا۔ آج جس وقت اُمت مسلمہ جانوروں کو ذبح کرتی ہے تو انہیں اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم فقط اس رسم کو ادا کر رہے ہیں یا حقیقی طور پر اپنے دل، دماغ اور جوارح کے اوپر اس احساس اور جذبے کو بھی طاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس جذبے اور احساس کے ساتھ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کا پختہ عزم فرمایا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت اس تقویٰ، جذبے، احساس کے حصول میں کماحقہٗ کامیاب نہیں ہو پاتی اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد قربانی کو فقط ایک رسم کے طور پر ادا کرتی ہے۔ حالانکہ حقیقت میں رمضان المبارک کے روزے ہوں یا ایام ذی الحجہ کی عبادات‘ اور ان کے بعد عید الفطر اور عید الاضحی کے تہوار‘ ان کا اصل اور حقیقی مقصد تقویٰ کا حصول ہے۔ تقویٰ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرتے ہوئے ان امور سے اجتناب کا نام ہے جن سے اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہو۔ تقویٰ کی غیر معمولی اہمیت کئی احادیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ مسند احمد میں ابو نضرہ سے مروی ہے کہ ایام تشریق کے وسط میں رسول اللہﷺ کا خطبہ سننے والے صحابی نے اس کو بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''اے لوگو! خبردار! بیشک تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے‘ کسی عربی کو عجمی پر‘ کسی عجمی کو عربی پر‘ کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے‘ مگر تقویٰ کی بنیاد پر‘ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا ہے؟‘‘ صحابہ نے کہا: ''اللہ کے رسول نے پیغام پہنچا دیا ہے‘‘۔
2۔ مسند احمد میں سیدنا ابوذرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''غور کر‘ تو کسی سرخ یا سیاہ فام سے بہتر نہیں ہے‘ الّا یہ کہ تو اس پر تقویٰ کی برتری رکھتا ہو‘‘۔
3۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نبی کریمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ دعا کیا کرتے تھے: ''اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت‘ تقویٰ اور عفت و تونگری کا سوال کرتا ہوں‘‘۔
4۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جس نے میری اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی‘ جس نے میری نافرمانی کی‘ اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘ جس نے امیر کی اطاعت کی‘ اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی‘ اس نے میری نافرمانی کی اور امام ڈھال ہے‘ اس کے زیر سایہ قتال کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے بچا جاتا ہے‘ اگر اس نے اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا اور عدل کیا تو اس وجہ سے اس کے لیے اجر ہے‘ اور اگر اس نے اس کے علاوہ کچھ کہا تو اس کا گناہ اس پر ہو گا‘‘۔جب انسان حقیقی معنوں میں متقی بن جاتا ہے تو ا للہ تبارک وتعالیٰ اسے دنیا اور آخرت میں سربلند فرما دیتے ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: ''اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ‘‘۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کے نتیجے میں بہت سی کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ حق اور باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت: جو شخص تقویٰ کو اختیار کر لیتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس میں نیکی اور بدی کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا فرما دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ انفال کی آیت نمبر 29 میں ارشاد ہوا: ''اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے (تو) وہ بنا دے گا تمہارے لیے (حق اور باطل میں) فرق کرنے کی (کسوٹی) اور دور کر دے گا تم سے تمہاری برائیاں اور بخش دے گا تمہیں‘ اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘۔
2۔ گناہوں کی معافی: تقویٰ کو اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ سورہ طلاق کی آیت نمبر 5 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا‘ اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس کو اجر‘‘۔
3۔ معاملات میں آسانی: اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے معاملات کو آسان بنا دیتے ہیں؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت 4 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کر دے گا اُس کے لیے‘ اس کے کام میں آسانی‘‘۔
4۔ تنگیوں سے نجات اور رزق کی فراہمی: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے والوں کی تنگیاں دور ہو جاتی ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو رزق وہاں سے دیتے ہیں‘ جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتے؛ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 اور 3 میں ارشاد ہوا: ''اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ۔ اور وہ رزق دیتا ہے اُسے‘ جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا‘‘۔
مذکورہ بالا آیات سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا ہے کہ درحقیقت تقویٰ کے حصول کے نتیجے میں انسان دنیا و آخرت کی بہت سی کامیابیوں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ عید قربان کے موقع اور اس کے بعد سارا سال ہمیں تقویٰ کے حصول کے لیے جستجو کرتے رہنا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو تقویٰ کو اپنی زندگیوں میں داخل کرتے رہنا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ تغابن کی آیت نمبر 16 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس تم ڈرو اللہ سے جتنی تم طاقت رکھتے ہو اور (اللہ کے احکام کو) تم سنو اور حکم مانو اور (اللہ کی راہ میں) تم خرچ کرو (یہ) تمہارے نفسوں کے لیے بہتر ہو گا اور جو بچا لیا گیا اپنے نفس کے بخل (یا حرص) سے تو وہی (لوگ) کامیاب ہونے والے ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی اختیارکرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ تاکہ ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکیں، آمین!