اس دنیائے رنگ وبو میں بہت سی ہستیاں ایسی گزری ہیں جن کی عظمت کے نشاں گردشِ دوراں پر ثبت ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت اور گروہ انبیاء کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ فضیلت کا حامل گروہ ہے۔ نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس اُمت کے سب سے افضل لوگ ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میر ی اُمت میں سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں (صحابہ) ‘ پھر وہ ہیں جو ان کے ساتھ (کے دور میں) ہوں گے (تابعین) ‘ پھر وہ جوان کے ساتھ (کے دور میں) ہوں گے (تبع تابعین) ‘ پھر ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کی گواہی ان کی قسم سے پہلے ہوگی۔ اور ان کی قسم ان کی گواہی سے پہلے ہوگی۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی بعض ہستیاں ایسی ہیں جن کے کارہائے نمایاں نے ان کو باقی صحابہ سے ممتاز کر دیا؛ چنانچہ حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے دس صحابہ ایسے ہیں کہ جن کا نام لے کر نبی کریم ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت دی۔ سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا: دس لوگ جنتی ہیں: ''ابوبکرؓ جنتی ہیں‘ عمرؓ جنتی ہیں‘ عثمانؓ جنتی ہیں‘ علیؓ جنتی ہیں‘ طلحہؓ جنتی ہیں‘ زبیر ؓبن عوام جنتی ہیں‘ سعدؓ بن مالک جنتی ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنتی ہیں اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا‘ وہ کہتے ہیں: لوگوں نے عرض کیا: وہ کون ہیں؟ تو وہ خاموش رہے‘ لوگوں نے پھر پوچھا: وہ کون ہیں؟ تو کہا: وہ سعیدؓ بن زید ہی ہیں‘‘۔عشرہ مبشرہ میں سے بھی چار صحابہ ایسے ہیں کہ جن کو حضرت رسول اللہ ﷺکے بعد خلیفہ راشد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
18ذی الحجہ کا دن ان چار خلفاء راشدین میں سے جس عظیم ہستی کی یاد دلاتا ہے وہ حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کی ہستی ہے۔ حضرت عثمان ؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے غیر معمولی اوصاف اور خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ نے قبولِ اسلام سے قبل بھی اپنی پاکیزگی اور طہارت کی حفاظت فرمائی تھی اور اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی پاکیزگی اور طہارت دو چند ہو گئی تھی۔ آپ ؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فطرت سلیمہ سے نوازا تھا اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ؓ کو استغنا اور سخاوت کے غیر معمولی اوصاف سے بھی نوازا تھا۔ اس فطرتِ سلیمہ کے سبب جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت محمد ﷺنے اعلان ِنبوت فرمایا تو جن ہستیوں نے ابتدا ہی میں آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ان میں حضرت عثمان غنی ؓ بھی شامل ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام قبول کرنے کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں اور تکالیف کو برداشت کرنا پڑا‘ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان تمام اذیتوں کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری نبی حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بیٹی حضرت رقیہ ؓ کے نکاح کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے جس ہستی کو منتخب کیا گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔
آپؓ نے اپنے دین کے تحفظ کے لیے نبی کریمﷺ کے دیگر صحابہ کی طرح شہرِ مکہ کو خیر باد کہا اور مدینہ طیبہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ آپؓ کو نبی کریمﷺ کی صحبت اور رفاقت کا شرف مدینہ طیبہ میں بھی حاصل رہا۔مدینہ طیبہ میں آپؓ بھی حضرت رسول اللہﷺ کی ہمراہی میں مختلف غزوات میں شرکت کرتے رہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہؓ کی تیمارداری کی وجہ سے آپؓ جنگ میں شریک نہ ہو سکے‘ لیکن حدیثِ پاک میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ کے حبیب ﷺ نے آپ کو بدر کے غازیوں کے برابر کی ثواب کی نوید سنائی تھی۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی تھیں اور وہ بیمار تھیں‘ ان سے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ آپ کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا بدر میں شریک ہونے والے کسی شخص کو‘ اور اتنا ہی حصہ بھی ملے گا۔
سیدہ رقیہؓ کے انتقال کے بعد آپؓ کے عقد میں نبی کریم ﷺ کی دوسری بیٹی سیدہ اُم کلثوم ؓآئیں۔ یہ حضرت عثمان ؓ کا ایسا شرف ہے جو کسی اور صحابی کو حاصل نہ ہوا۔ نبی کریم ﷺکی دو بیٹیوں کا آپؓ کے نکاح میں آ جانا آپؓ کے لیے ایک غیر معمولی اعزاز تھا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اتنا بلند مقام تھا کہ آپ ؓ کو زمانہ رسالت مآب ﷺہی میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے بعد ممتاز ترین صحابی سمجھاجاتا تھا؛چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے‘ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔کتب احادیث میں سیدنا صدیق و فاروقؓ کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر آپؓ کی عظمت کا ذکر بھی موجود ہے۔
صحیح بخاری کی ایک تفصیلی حدیث جو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کے مطابق نبی کریمﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کے ساتھ ساتھ حضرت عثمان ؓ کو بھی جنت کی بشارت دی۔ اسی طرح صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے جب نبی کریمﷺ ابوبکر‘ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو اُحد کانپ اٹھا‘ آپ ﷺ نے فرمایا ''اُحد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کو بیعتِ رضوان کے واقعہ نے مزید اُجاگر فرما دیا کہ جب آپؓ کی شہادت کی افواہ پر حضرت رسول اللہ ﷺ نے جمیع صحابہ کرامؓ سے آپ ؓکے قصاص کی بیعت لی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود سورہ فتح کی آیت نمبر 18میں اس امر کا اعلان فرما دیا:''بلاشبہ یقینا اللہ راضی ہو گیا مومنوں سے جب وہ بیعت کر رہے تھے آپ سے درخت کے نیچے تو اس نے جان لیا جو (خلوص) ان کے دلوں میں تھا تو اس نے نازل کر دی ان پر سکینت اور اس نے بدلے میں دی انہیں جلد فتح‘‘۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میںجب بھی مالی تعاون کی ضرورت پڑی تو حضرت عثمان غنیؓ پیش پیش رہے۔ بئررومہ کی خریداری کا معاملہ ہویا غزوۂ تبوک میں اسلامی لشکر کی معاونت کا مسئلہ ‘ حضرت عثمان غنیؓ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ نبی کریمﷺ اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی رہے۔ آپﷺ کے انتقال پرملال کے بعد بھی حضرت عثمان ؓ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ حضرت صدیق وفاروقؓ کی وفات کے بعد آپ ؓ کے کندھوں پر خلافت کی خلعت کو ڈالا گیا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسلامی سلطنت کی توسیع کے لیے نمایاں کردار ادا کیااور مسلمان اُمت کو قرآن مجید کے ایک ہی مصحف پر جمع کروادیا۔ اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا؛ چنانچہ ان حضرات نے قرآن مجید کو کئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے (ان چاروں میں سے) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے (جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) قرآن کے کسی مقام پر (اس کے کسی محاورے میں) اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا‘ کیونکہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں انتشار پسند فسادیوں نے آپ کی ذات کو ناحق تنقید اور طعن کا نشانہ بناتے ہوئے آپ کے خلاف ایک یورش کو بپا کرنے کی کوشش کی۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ کی حرمت اورتقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی سخت اقدام سے گریز کیا حتیٰ کہ خود جامِ شہادت کو نوش فرما لیا لیکن شہر مدینہ میں تلوار کو نہیں چلنے دیا۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی سیرت تاریخ کا ایک روشن باب ہے جس سے ہمیں شرم وحیا‘ جودو سخا اور ایثار اور للہیت کا درس ملتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ ایسے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے اور آپ ؓنے اپنے عمل سے رہتی دنیا تک کے لوگوں کو اس بات کا درس دیا کہ مومن کی زندگی کے آخری لمحات بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں وقف ہونے چائیں۔ 18ذی الحجہ کو حضرت عثمان غنیؓ شہادت کی خلعت فاخرہ کو زیب تن ہو کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے اور ہمیشہ کے لیے اپنے کردار کے اجلے نقوش تاریخ اسلام پر ثبت کر گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی صحابہ کرام ؓ خصوصاً خلفا ء راشدین کی اجلی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین