"AIZ" (space) message & send to 7575

آزادی کے تہتر سال

برصغیر پر مسلمانوں کے غلبے کا آغاز محمد بن قاسم کی آمد سے ہوا۔ جنہوں نے سندھ اور ملتان تک کے علاقوں کو فتح کیا۔ بعد ازاں پنجاب میں غزنویوں کا سیاسی غلبہ رہا؛ تاہم سلطان محمد غوری کو بالعموم ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ بارھویں صدی کے آخر سے ترک و منگول مسلم حکمرانوں نے دہلی میں مغل سلطنت سمیت پورے برصغیر میں اپنے آپ کو مستحکم کرنا شروع کر دیا۔ علاوہ ازیں چودھویں صدی کے وسط سے لے کر اٹھارہویں صدی کے آخر تک بہت سی دیگر مسلمان مملکتوں نے جنوبی ایشیا کے بیشتر علاقوں پر حکمرانی کی۔ برصغیر پر مسلمانوں کا اقتدار کئی صدیوں پر محیط ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد مسلمانوں کی حکمرانی زوال پذیر ہوئی جس کی بہت سی وجوہات ہیں؛ ان میں ایک اہم وجہ داخلی خلفشار، ہندوؤں کی مکاری اور انگریزوں کی کامیاب جنگی حکمت عملی ہے۔
انگریز برصغیر چھوڑنے سے قبل جدید جمہوری نظام کو برصغیر میں رائج کرنا چاہتے تھے۔ اس نظام کی بنیاد عددی اکثریت تھی اور ہندوؤں کی اکثریت برصغیر پر غلبہ پانے کے لیے پُرعزم تھی۔ ہندو سینکڑوں سالوں کی غلامی کا مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ مسلمان انگریزوں کے غلبے کی وجہ سے انگریزی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ انگریزوں کے وجود اور زبان تک سے نالاں تھے۔ ہندو انگریزوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کر رہے تھے۔ اس ساری صورتحال میں ہندو پورے برصغیر کو یرغمال بنانے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ مسلمانوں کی بالغ نظر قیادت نے اس ساری صورتحال کا بغور جائزہ لیتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کو ہی مسائل کی دلدل سے نکلنے کا مؤثر ترین حل تصور کیا۔ چنانچہ قائدین تحریک پاکستان نے مسلمانانِ برصغیر کو اس بات کے لیے آمادہ و تیارکرنے کا فیصلہ کیا کہ مسلمان اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاست قائم کی جائے۔ اس ہدف کا حصول بظاہر آسان نہ تھا لیکن تحریک پاکستان کے قائدین حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ اقبال، مولانا محمد علی جوہر اور حضرت مولانا ظفر علی خان نے اپنے رفقاء کی ہمراہی میں انتہائی بڑی اور مؤثر تحریک کو چلایا اور برصغیرکے طول وعرض میں اس نعرے کو لگایا کہ پاکستان کا مطلب کیا... لا الٰہ الا اللہ۔
برصغیر میںرہنے والے کروڑوں مسلمان بھی قائدین تحریک پاکستان کی ولولہ انگیز خطابت اور فکر انگیز رہنمائی سے متاثر ہوئے اور وہ بھی اس نکتے پر مرتکز ہوئے کہ ایک علیحدہ وطن کا قیام ان کی بقا، خودمختاری اور استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ مسلسل جلسے، جلوسوں اور اجتماعات کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کیا گیا۔ انگریز حکومت بھی اس بات کو سمجھ گئی کہ ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی اپنی ایک علیحدہ شناخت چاہتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے فکری محاذ پر زبردست کام کیا لیکن قیامِ پاکستان سے نو برس قبل ہی دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ حضرت محمد علی جناح نے اس تحریک کو پختہ کرنے کے لیے انتہائی مؤثر کردار ادا کیا اور بالآخر دنیا کے نقشے پر پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ابھر آیا۔
پاکستان کے قیام کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جس میں کتاب و سنت کی عمل داری کو یقینی بناتے ہوئے ریاست میں بسنے والے تمام شہریوں کے حقوق کا بھرپور انداز میں تحفظ کیا جائے۔ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت کے حقوق کے ساتھ ساتھ اس ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کی بھی بھرپور طریقے سے ضمانت دی گئی۔ پاکستان کے قیام کو اس 14اگست کو تہتر برس پورے ہونے والے ہیں۔ آزادی یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر و قیمت ان لوگوں کو صحیح طور پر معلوم ہے جو آج بھی غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اور دنیا کے مختلف مقامات پر جبر اور استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں بالعموم اور مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے مسلمان بالخصوص، فلسطین میں آباد مسلمان بستیاں اور برما (میانمار) میں رہنے والے مسلمانوں کی حالتِ زار آزادی کی قدر و قیمت کا صحیح طور پر احساس دلاتی ہے۔ ان تمام علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کو دیکھ کر آزادی کی اہمیت پوری طرح آشکار ہو جاتی ہے۔
الحمدللہ پاکستان ہمارا دیس ہے جس میں ہم دین کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہیں۔ یہاں پر پانچ وقت اذان کے ساتھ ساتھ نماز پنجگانہ کا اہتمام، عیدین کے تہوار اور انفرادی سطح پر دین پر عمل پیرائی میں کوئی دشواری نہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اجتماعی سطح پر تاحال حقیقی اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا اور اس حوالے سے بہت سے مقامات پر اصلاح کی ضرورت ہے۔ ہماری معیشت کی بنیاد سود پر رکھی گئی ہے ،سود کا لین دین درحقیقت اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے سودی نظام سے نجات حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ کئی مقامات پر شراب اور منشیات کی خرید و فروخت جاری و ساری ہے۔ شراب کے حوالے سے عام طور پر اقلیتوں کا نام لیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماضی قریب میں قومی اسمبلی میں منشیات کی روک تھام کے لیے مسلمان ارکان سے بڑھ کر ہندو رکن اسمبلی نے آواز بلند کی تھی اور اس بات کو واضح کیا تھاکہ اقلیتی ممبران شراب کی خرید و فروخت کے انسداد کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی جماعتوں کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے بھی اپنی تائید شراب کی خرید و فروخت برقرار رکھنے ہی کے پلڑے میں ڈالی تھی۔ اسی طرح وطن عزیز میں بڑے شہروں میں قحبہ گری کا سلسلہ جاری و ساری رہا ہے اور اس کے انسداد کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا جا سکا۔ یہ دھندہ باقاعدہ طور پر تسلسل کے ساتھ گزشتہ سات عشروں سے جاری ہے اور اس کے انسداد کے لیے ریاستی اداروں نے حقیقی معنوں میں اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کیا۔ ان معاملات میں پیش رفت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن تاحال اس حوالے سے کوئی مؤثر لائحہ عمل نہیں اپنایا گیا۔
ریاست پاکستان میں اسلامی عقائد کے تحفظ کے لیے مختلف ادوار میں منظم تحریکوں کو چلایا گیا جن میں تحریک ختم نبوتﷺ سرفہرست ہے۔ اس تحریک کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ختم نبوتﷺ کا انکار کرنے والے گروہوں کو قانونی طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں توہین رسالتﷺ کے انسداد کے لیے بھی قوانین موجود ہیں لیکن اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ وقفے وقفے سے ان قوانین کو تبدیل کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان میں دینی جماعتوں نے ایک لمبا عرصہ اسلامی نظام کے احیا اور نفاذ کے لیے اپنی آوازکو بلند کیا اس کے نتیجے میں عوام کی ذہن سازی بھی ہوئی لیکن سیاسی طور پر مذہبی جماعتوں کو تاحال واضح مینڈیٹ حاصل نہیں ہو سکا۔
کچھ عرصہ قبل تحریک انصا ف کے سربراہ عمران خان نے اپنی سیاسی تحریک کو مدینہ کی ریاست کے قیام کے ساتھ کچھ یوں مربوط کیا کہ ہر مقام پر اس بات کو عام کیا گیا کہ اگر تحریک انصاف برسر اقتدار آ گئی تو پاکستان کی جہت مدینہ طیبہ کی سمت کر دی جائے گی۔ خان صاحب کے برسر اقتدار آنے کے بعد اس حوالے سے پیش رفت نہ ہو سکی بلکہ بعض ایسے معاملات سامنے آئے جن پر دینی جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ منکرین ختم نبوتﷺ کو اقلیتی کمیشن میں نمائندگی دینے کی کوشش کی گئی، اسلام آباد میں ایک بڑے مندر کے قیام کے اعلان نے مذہبی جماعتوں کے جذبات کو شدت سے مجروح کیا اور لوگ اس حوالے سے بے چینی اور بے قراری کا شکار ہوئے کہ تحریک انصاف اپنے نعروں اور دعووں کے برعکس کسی اور سمت میں گامزن ہے۔
ہمارے ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تمام سیاسی اور دینی جماعتوں کا ایک پیج پر آنا ازحد ضروری ہے اور اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ تحریک پاکستان کے قائدین کے تصورات کے مطابق پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنایا جا سکے کہ جہاں پاکستان خود اپنے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکے وہیں پر دنیا والوں کے لیے بھی ایک شاندار اور مثالی نمونے کی حیثیت اختیار کر سکے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں سے کہیں بڑھ کرذمہ داری پاکستان کی دینی سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے کارکنوں کو تحریک دے کر اس سطح پر لائیں کہ وہ سیاسی اعتبار سے دین کو غالب کرنے کے لیے یکسو ہو جائیں تاکہ پاکستان کو اس مقصد کی طرف صحیح طریقے سے گامزن کیا جا سکے کہ جس کے لیے اس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں