اسرائیل ایک عرصے سے اپنی غیر قانونی شناخت کو قانونی حیثیت دلانے کے لیے مختلف طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ ماضی میں فلسطین اور حال میں غزہ کی پٹی پر رہنے والے مسلمان یہودیوں کے ظلم وستم کا تواتر سے نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ تاریخِ عالم اس بات پر شاہد ہے کہ یہود کا مسجداقصیٰ اور اس کے گردونواح پر قبضہ قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی اعتبارسے ناجائز ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک طرف تو یہودی اپنے اس ناجائز قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے اور دنیا بھر میں پر امن احتجاج اور سفارتی محاذ پر مسلمانوں کی کوششوں کو کلی طور نظر انداز کرتے ہیں تو دوسری طرف یہودیوں کی خواہش ہے کہ ان کی ناجائز ریاست اسرائیل کو آئینی طور پر تسلیم کر لیا جائے ‘ یہودیوں کی اس ناجائز ریاست کو نہ تو ماضی میں مشرق وسطیٰ کے نمایاں ممالک نے تسلیم کیا اور نہ ہی پاکستان نے۔
درحقیقت اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے نتائج انتہائی مثبت ہیں اور ہم ان فاصلوں کی وجہ سے یہودکے فتنے سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تجارتی ‘ ابلاغی اور سفارتی سطح پر یہودی نہایت فعال ہیں۔ اگر ان کے ساتھ اُمت مسلمہ کے سفارتی تعلقات استوار ہو گئے تو ہمارے ان ممالک میں یہودی اپنی معاشی سرگرمیوں کے سبب اپنی تہذیب و ثقافت سمیت بڑی تیزی سے داخل ہو جائیں گے۔ برصغیر کی تاریخ میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو کردار ادا کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ چند انگریز تاجروں نے بتدریج اپنے اقتصادی اور سیاسی اثرورسوخ کو بڑھاتے ہوئے بالآخرپورے برصغیر پر قبضہ کر لیا۔ اللہ نہ کرے یہود کے ساتھ سفارتی تعلق کا نتیجہ بھی کچھ اسی نوعیت کا نکل سکتا ہے۔
عصر ِحاضر میں مسلمان سیاسی ‘ مذہبی‘ ثقافتی اور تہذیبی سطح پر جس پسماندگی کا شکار ہیں اس کے ساتھ یہود کے فتنے کا مقابلہ کرنا کچھ آسان نہیں۔ یہ غنیمت ہے کہ سفارتی تعلقات کے نہ ہونے کے سبب ہم یہود کی فتنہ انگیزیوں اور ریشہ دوانیوں سے بچے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ پیشتر پاکستان میں بھی اسرائیل کو منظور کرنے کے حوالے سے فتنے نے سر اُٹھایا اور پارلیمان میں باقاعدہ طور پر حکمران جماعت کی رکنِ اسمبلی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں دلائل بھی دئیے تھے۔ اسلام پسند اور محب وطن عناصر نے اس تقریر کا بھرپور طور پر احتساب کیا ‘نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی بحث رفتہ رفتہ ٹھنڈی پڑتی چلی گئی۔ اب ایک مرتبہ پھر یہ افسوس ناک خبر سننے کوملی ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ خبر اُمت ِمسلمہ کے لیے بہت بڑے دھچکے کا سبب اور اسلام دشمن عناصر کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
یہودیوں کی بداعتقادی اور فتنہ انگیزی کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ جس کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا او ر اس کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ کچھ اسی قسم کا ہو گا ''جس طرح بلی کو دیکھ کر کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لے۔ یہود کہنے کو تو ایک مذہبی گروہ ہے ‘لیکن ان کے معتقدات میں پروردگارِعالم‘ فرشتوں اور انبیائے سابقہ کی بے ادبی اور گستاخی بکثرت پائی جاتی ہے۔بعض بے خبر لوگ یہودیوں کو ایک توحید پرست گروہ سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہود ی مسیحیوں کی مانند حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا گردانتے ہیں ‘ یہود کا یہ بھی عقیدہ اور نقطۂ نظر ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں عذاب نہیں دے گا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 18میں کچھ یوں فرمایا ہے : ''اور کہا یہود ونصاریٰ نے ہم اللہ کے بیٹے ہیں اورا س کے پیارے ہیں (ان سے) کہیں تو (پھر) کیوں وہ عذاب دیتا ہے تمہیں تمہارے گناہوں کے بدلے‘ بلکہ تم انسان ہو اِن میں سے جو اس نے پیدا کیے ہیں وہ معاف کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اور وہ عذاب دیتا ہے جسے چاہتا ہے اورا للہ ہی کے لیے بادشاہی ہے آسمانوں کی اور زمین کی اور جو اِن دونوں کے درمیان ہے اور اسی کی طرف لوٹنا ہے‘‘۔اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانوں وزمین میں ہر ایک کورزق دینے والے اور زمین وآسمان کے تمام خزانوں کے مالک ہیں جب کہ یہود اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں یہ نقطہ نظر رکھتے ہیں کہ معاذ اللہ اللہ کے ہاتھ تنگ ہو چکے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 64میں کچھ یوں فرمایا ہے : ''اور یہودیوں نے کہا اللہ کا ہاتھ تنگ ہے (حالانکہ) تنگ تو ان کے (اپنے) ہاتھ ہیں اور لعنت کی گئی اُن پر اس وجہ سے جو انہوں نے کہا بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں وہ خرچ کرتا ہے جس طرح وہ چاہتا ہے ‘‘۔
جب ہم یہودی لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں انبیاء علیہم السلام کی بھی صریح گستاخی پائی جاتی ہے۔ نبی کریمﷺ جس وقت مدینہ طیبہ ہجرت کرکے گئے تو یہود یوں کے قبائل نبی آخر الزماںﷺ کی آمد کے منتظر تھے‘ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق آلِ اسحق کی بجائے آلِ اسماعیل کے ساتھ ہے تو انہوں نے نبی کریمﷺ کی رسالت کا انکار کرکے نہ صرف یہ کہ نبی کریمﷺ کی بلا سبب تکذیب کی بلکہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ بھی عداوت‘ دشمنی اور بغض کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 97‘98میں یوں فرمایا ہے: ''کہہ دیجئے جو دشمن ہے جبرئیل کا (تو یہ اس کی بیوقوفی ہے) پس بے شک اس نے (تو) اُسے اتارا ہے تیرے دل پر اللہ کے حکم سے تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو اس سے پہلے (کتابیں گزری) ہیںاور ہدایت ہے اور خوشخبری ہے مومنوں کے لیے۔ جو ہے دشمن اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اورا س کے رسولوں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا تو بے شک اللہ (بھی) دشمن ہے کافروں کا‘‘۔جس وقت یہود نے نبی کریم ﷺ کی بلاسبب تکذیب کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺکی ذاتِ اقدس پر اس وحی کا نزول فرمایا کہ یہود پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے انعامات کیے لیکن اس کے باوجود انہوں نے تواتر سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی نعمتوں کو جھٹلایا اور اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایسے سوالات کرتے رہے جو کسی بھی طور پر تابعدار اُمت کے کردار کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بادلوں کی چھاؤں کو مقرر کیا اور ان کے لیے آسمان سے من وسلویٰ کے رزق کانزول فرمایا لیکن وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان بے پایاں نعمتوں پر بھی راضی نہ ہوئے‘بلکہ زمین کے رزق کے حصول کے لیے بے تاب ہو گئے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 61میں یوںفرمایا :''اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز نہیں صبر کریں گے ایک ہی کھانے پر پس آپ دعا کریں ہمارے لیے اپنے رب سے (کہ) وہ نکالے ہمارے لیے وہ کچھ جو زمین لگاتی ہے اپنی ترکاری سے اور اپنی ککڑی اور اپنی گندم اور اپنے مسور اور اپنے پیاز(میں سے) اس نے کہا: کیا تم بدلنا چاہتے ہو (اسے) جو وہ ادنیٰ ہے اس کے بدلے جو وہ بہتر ہے (اچھا تو) کسی شہر میں اتر جاؤپس (اس میں) تمہارے لیے (وہ کچھ ہے) جو تم نے مانگا ہے اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ لوٹے اللہ کا غضب لے کر وہ اس وجہ سے کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور نبیوں کو قتل کرتے تھے ناحق‘ اس وجہ سے جو انہوں نے نافرمانی کی اور وہ تھے حد سے تجاوز کرتے‘‘۔ اسی طرح کتاب وسنت میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ ان کو ہفتے کے دن شکار کرنے سے روکا گیا لیکن وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو روک لیتے اور اتوار کے دن شکار کر لیتے گویا کہ مکر اور حیلے کے ذریعے انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کو جاری رکھنے کی انہوں نے ناپاک جسارت کی۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عذاب کا نزول فرمایا اور ان کو مسخ کرکے بندوں میں تبدیل کر دیا۔
اللہ کے فرمان کی نافرمانی کرنے والا‘ آیت اللہ کو جھٹلانے والا اور انبیاء علیہم السلام کو شہید کرنے والا یہ گروہ جس نے مختلف حیل وحجت کے ساتھ انبیاء سابقہ اور حضرت رسول اللہ ﷺ سے عداوت کو جاری وساری رکھا ان سے خیر کی توقع رکھنا سراسر نا عاقبت اندیشی ہے اور قرآن کریم میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا ہے کہ یہود ونصاریٰ ہم سے کبھی بھی راضی نہیں ہو سکتے جب تک ہم ان کی ملت کے تابعدار نہ بن جائیں؛ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120میں ارشاد ہوا: ''اور ہرگز راضی نہ ہوں گے آپ سے یہودی اور نہ ہی نصاریٰ یہاں تک کہ آپ پیروی (نہ) کریں ان کے دین کی‘‘۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ یہود کی رضا اسی بات سے مشروط ہے کہ ہم اُن کی ملت کا حصہ بن جائیں۔ مسلمان حکمرانوں ‘ زعمااور سیاست دانوں کو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل قرآن مجید کی ان آیات پر غوروخوض کر لینا چاہیے کہ جو اللہ ‘ رسول اللہ اور فرشتوں کے ساتھ عداوت پر مصر ہیں وہ کیوں کرہمارے خیر خواہ ہو سکتے ہیں‘اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمان حکمرانوں کو شعور دے تاکہ وہ اسرائیل کے حوالے سے درست فیصلے کر سکیں۔ آمین