پاکستان کا ہر محب وطن شہری ملک کے استحکام اور ترقی کے لیے نیک تمنائیں رکھتا اور اس حوالے سے بارگاہِ رب العالمین میں دعا گو بھی رہتا ہے اور پاکستان کو پھلتے پھولتے دیکھنا ہر باشعور شہری کی خواہش ہے۔ ہم نے اس آزاد ملک کو کئی عشروں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا اور اس کے لیے بانیٔ پاکستان حضرت محمد علی جناح، مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال، قائد تحریک خلافت حضرت مولانا محمد علی جوہر، بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان اور ان کے رفقاء نے زبردست جدوجہد کرکے برصغیر کے طول و عرض میں مسلمانوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑا اور ان میں شعور بیدار کیا تھا۔ برس ہا برس کی ریاضت اور جستجو کے بعد یہ ملک دنیا کے نقشے پر سب سے بڑی اسلامی ریاست کی حیثیت سے ابھرا۔ پاکستان مسلمانانِ برصغیر کے ساتھ ساتھ مسلمانانِ عالم کی توجہات کا بھی مرکز ہے۔
آزادی کی قدر و قیمت معلوم کرنا ہو تو دنیاکے بہت سے ممالک میں ہونے والے ظلم اور بربریت کو دیکھ کر اس قیمتی نعمت کا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے۔ القدس کے علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کی زبوں حالی، مقبوضہ جموں و کشمیر میں عرصہ دراز سے ظلم کی چکی تلے پسنے والے مسلمانوں کا اضطراب ، بے چینی اور تکلیف، برما میں رہنے والے مسلمانوں پر ہونے والے روح فرسا مظالم، نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں، ماؤں اور بہنوں کے ساتھ ہونے والی شقاوتیں اورمسلمانوں کی جلتی ہوئی مسجدیں آزادی کی قدر و قیمت کا صحیح طور پر احساس دلاتی ہیں۔ پاکستان میں آزاد شہری کی حیثیت سے رہنا یقینا ہر اعتبار سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک ایسا انعام ہے جسے الفاظ کے پیرائے میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔
وطن عزیز کی ترقی اور استحکام کے حوالے سے پاکستان کی مختلف جماعتیں اپنا اپنا منشور رکھتی ہیں اور اس کو عوام کے سامنے بیان بھی کرتی رہتی ہیں۔ 14 اگست کو ملک بھر میں پاکستان کی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اور عوام کی بڑی تعداد پاکستان کے پرچم لہرا کر پاکستان کی آزادی اور استحکام کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہیں۔
پاکستان کے استحکام کے حوالے سے مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے 23 اگست کو لاہور میں ایک عظیم الشان استحکامِ پاکستان ریلی کا انعقاد کیا۔ اس ریلی کی تیاری کے لیے مرکزی جمعیت اہلحدیث لاہور کے ساتھیوں نے بھرپور جدوجہد کی۔ برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر، حافظ بابر فاروق رحیمی، ڈاکٹر ریاض الرحمن یزدانی، قاری صدیق الحسن اور ان کے رفقاء اس ریلی کی کامیابی کے لیے دن رات کوشاں رہے۔ 23 اگست کو سہ پہر 4 بجے کے قریب مرکز اہلحدیث راوی روڈ سے یہ ریلی شروع ہوئی جس میں سینکڑوں موٹر سائیکلوں، درجنوں بسوں اور بیسیوں گاڑیوں نے بھی شرکت کی۔ عوام کی کثیر تعداد نے استحکامِ پاکستان ریلی میں اسلام اور وطن عزیز کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ ریلی کی قیادت پروفیسر ساجد میر صاحب کر رہے تھے۔ پروفیسر ساجد میر، حاجی عبدالرزاق اور راقم الحروف ایک ہی گاڑی میں سوار تھے۔
ریلی میں نوجوانوں کا جوش اور جذبہ دیکھ کر ہم آپس میں مختلف قسم کے تبصرے کر رہے تھے۔ ہم سب کا اتفاق تھا کہ کئی عشرے گزر جانے کے باوجود آج بھی پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد اسلام اور پاکستان کی محبت سے سرشار ہے۔ریلی کے دوران اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے بھی گفتگو ہوتی رہی اور پروفیسر ساجد میر صاحب نے سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کو خوش آئند قرار دیا۔ ریلی راوی روڈ سے شروع ہوئی اور ناصر باغ کے سامنے سے گزرتی ہوئی قرطبہ چوک پہنچی۔ قرطبہ چوک سے عابد مارکیٹ کے سامنے سے گزرتی ہوئی ریلی لارنس روڈ پہنچی۔ ریلی نے یہ سفر تقریباً دو گھنٹوں میں مکمل کیا اور موسم میں گھٹن کے باوجود نوجوانوں نے بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ ریلی کے لارنس روڈ پہنچے پر مرکز قرآن و سنہ لارنس سے وابستہ افراد اور کارکنان نے ریلی کا بڑے پُرتپاک انداز میں استقبال کیا۔
ریلی میں نقابت کے فرائض برادر اصغر معتصم الٰہی ظہیر نے انجام دیے اور ریلی سے مولانا عبدالرشید حجازی، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، مولانا نعیم بٹ، رانا نصراللہ اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ امیر مرکزی جمعیت پروفیسر ساجد میر صاحب نے اس موقع پر کئی اہم نکات کی نشاندہی کی۔ ان کے خطاب کا خلاصہ درج ذیل ہے:
پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس کی بقا بھی اسلام کے نفاذ میں ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگانے والی حکومت کے دور میں اسلا می اقدار کی پاسداری نہیں کی جا رہی۔ ہماری سیاست پاکستان کے استحکام، مسلمانوں کے اتحاد اور دین کے فروغ کے لئے ہے۔ ہمیں دکھ ہے کہ حکومت اپنے دعوؤں کے بر عکس عوام کے مسائل کے حل کے لیے کوئی مضبوط حکمت عملی تیار نہیں کر سکی۔ معیشت اور امن و امان سے لے کر خارجہ پالیسیوں تک حکومتی کارکردگی پر عوام کو تحفظات ہیں۔ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے عملی اقدامات کر کے ہی ملک کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی مظالم قابلِ مذمت ہیں۔ اسرائیل کو کسی بھی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت اور اسرائیل پاکستان کے دشمن ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان کا اسرائیل کے خلاف یکساں موقف حوصلہ افزا ہے۔ ہمارے اسلاف و اکابرین نے بھاری تعداد میں پاکستان بنانے کی حمایت کی۔ آج کا پاکستان ہمارے اسلاف، اکابرین اور آبائو اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ آج پاکستان کو بچانے کے لئے بانیانِ پاکستان کی اولادیں ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔ ملک کے فرسودہ نظام سے نجات حاصل کرنے کے لئے ملک کی نوجوان نسل کو آگے بڑھنا ہوگا۔ ملکی ترقی اور استحکام کے لیے حکمرانوں کو مثبت فیصلے کرنا ہوں گے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک عوام ہی قربانی دے رہے ہیں‘ عوام کی قربانیوں کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی استحکامِ پاکستان کے لیے قربانی دینا ہو گی۔ حکمرانوں کو عوام سے مل کر عہد کرنا ہوگا کہ استحکامِ پاکستان کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کے کارکنان سب سے آگے ہوں گے اور سروں پر کفن باندھ کر نظریۂ پاکستان کا تحفظ کریں گے۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے عوامی مسائل پر توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں۔ عوامی مسائل کے ساتھ ساتھ نظریاتی محاذ پر بھی توجہ دینا ہو گی۔ عقیدہ ختمِ نبوتﷺ اور ناموسِ رسالتﷺ پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ کا قانون تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ناموس کا ضامن ہے، اس میں کسی قسم کی ترمیم و تنسیخ برداشت نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے ملک میں بدامنی کی ایک بڑی وجہ بیرونی مداخلت ہے۔ بیرونی مداخلت کو ختم کیے بغیر ملک میں امن ممکن نہیں۔ ملک میں امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تمام دینی و سیاسی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔ پاکستان کی حکومت کو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مخلصانہ کردار ادا کرنا چاہیے اور اس مرحلے پر کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اس موقع پر مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے خطاب میں استحکامِ پاکستان کے حوالے سے جو گزارشات پیش کیں‘ انہیں میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کے قیام کے وقت بانیٔ پاکستان، ان کے رفقاء اور علمائے اسلام نے برصغیر کے طول و عرض میں ایک ہی نعرہ لگایا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ پاکستان کو متحد اور مستحکم رکھنے کے لیے آج بھی لا الہ الا اللہ کی علمداری کی ضرورت ہے۔ یہ دکھ کی بات ہے کہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر بننے والی ریاست میں آج بھی شراب کا لین دین جاری وساری ہے، آج بھی بڑے شہروں میں مختلف مقامات پر قحبہ خانے قائم ہیں، سودی لین دین ہوتا ہے، اس حوالے سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے اور ریاست کے سامنے ان مطالبات کو پُرامن طریقے سے رکھنا وقت کی پکار ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تشدد اور عدم برداشت کے راستے کے بجائے دلیل، برہان اور سیاست کا راستہ اختیار کرنا مذہبی جماعتوں کا ہدف ہے اور ہم دلیل اور برہان کے راستے پر ہی گامزن رہیں گے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی ایک بہت بڑی وجہ مختلف اداروں کا اپنی حدود اور دائرہ کار سے تجاوز کرنا ہے۔ تمام اداروں کی حدود آئین پاکستان میں مقرر کر دی گئی ہیں۔ اگر تمام ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو یقینا ملک کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
ریلی کے موقع پر تمام قائدین نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر یکجہتی کا اظہار کیا اور عوام نے اس منظر کو دیکھ بہت زیادہ جوش و جذبے کا اظہارکیا۔ ریلی کے اختتام پر ریلی کے قائدین اور عوام کے لیے باوقار ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پُروقار ضیافت کے بعد قائدین اور کارکنان نے مرکز لارنس روڈ پر مغرب کی نماز ادا کی۔ نمازِ مغرب کے بعد کارکنان کی کثیر تعداد سے ملاقات ہوئی اور یوں یہ ریلی بہت سی خوشگوار یادوں کوا پنے جلومیں لیے اختتام پذیر ہوئی۔