القلم فاؤنڈیشن قطر کا ایک متحرک علمی اور تحقیقی ادارہ ہے جو اہم موضوعات پر تحقیق اور اس کی نشرواشاعت میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے چیئرمین عبدالغفار العمری نے چند روز قبل مجھ سے رابطہ کیا کہ وہ سیرت النبیﷺ کے عنوان پر آن لائن بین الاقوامی کانفرنس کا انعقادکرنا چاہتے ہیں۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے مختلف اہل علم و دانش کو سیرت النبیﷺ کے مختلف عناوین کے حوالے سے اظہار خیال کی دعوت دی گئی اور کورونا وائرس کے دباؤ کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے عوامی اجتماع کے بجائے آن لائن رابطے کی سہولت کافائدہ اُٹھاتے ہوئے سیرت النبیﷺ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کانفرنس میں کئی روز تک دنیا بھر سے کثیر تعداد میں اہلِ علم اور اہلِ ذوق شریک ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں سیرت النبیﷺ کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔
مجھے بھی سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ایک انتہائی اہم مضمون پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی کہ توہین رسالت کے سدباب کے حوالے سے اپنی گزارشات کو سامعین اور ناظرین کے سامنے رکھوں۔ 28اگست کو عشاء کی نماز کے بعد فاؤنڈیشن والوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور اس آن لائن کانفرنس میں مجھے آدھ گھنٹے سے زیادہ اس موضوع پر اظہارِ خیال کرنے کا موقع ملا۔ اس موقع پر جن اہم امورکی نشاندہی کرنے کی میں نے کوشش کی ان کو میں اپنے قارئین اور سامعین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔
میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں نبی کریمﷺ کے مقام اور مرتبے کے حوالے سے ان گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا کہ کائنات میں کوئی ہستی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپؐ کے مقام اور منصب کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں چار انعام یافتہ گروہوں کا ذکر کیا جن میں انبیاء ، صدیقین، شہداء اور صلحاء شامل ہیں۔ ان تمام طبقات میں سے انبیاء علیہم السلام کی جماعت کا مقام سب سے بلند ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے صاحبِ شریعت رُسل اللہ کا مقام باقی نبیوں سے بلند ہے اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 285میں اللہ تبارک وتعالیٰ اہل ایمان کے ایمان کے حوالے سے اس امر کا اعلان فرماتے ہیں: ''نہیں ہم فرق کرتے کسی ایک کے درمیان اس کے رسولوں میں سے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا تمام رسولوں کی رسالت پر یکساں ایمان ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ شعراء میں قومِ نوح علیہ السلام ، قومِ عاد، قومِ ثمود، اصحاب الایکہ، قومِ لوط علیہ السلام کے حوالے سے یہ بات ارشادفرمائی ہے کہ ان تمام قوموں نے رسولوں کو جھٹلایا حالانکہ ان اقوام کے لوگوں نے فقط اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک رسول کو جھٹلانا تمام رسولوں کو جھٹلانے کے مترادف ہے لیکن رسولوں پر یکساںایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے رسولوں میں سے تمام رسول ایک جیسے رتبے کے حامل نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ اس امرکا اعلان اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت 253 میں فرماتے ہیں :''یہ سب رسول‘ ہم نے فضیلت دی ہے ان میںسے بعض کوبعض پر ان میں سے (کوئی ایساہے) جس سے ہم کلام ہوااللہ اور بلند کر دیا ان میں سے بعض کے درجات کو اور ہم نے عطا کیں عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں اور ہم نے مدد کی اس کی روح القدس (جبریل) سے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام رسل کے درجات یکساں نہیں ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے اولعزم رسل اللہ کا مقام سب سے بلند ہے‘ جن میں حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت رسول اللہﷺ شامل ہیں۔ دلائل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع الانبیاء علیہم السلام کے مقابلے میں سب سے زیادہ فضیلت عطافرمائی ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کے مسلّم ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی محبت بھی ہرمومن و مسلمان کے دل میں موجو د ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں محبت کے تین مراکز یعنی اپنی ذات، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور جہاد فی سبیل للہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی محبت کو ہر محبت پر فوقیت دینے کی تلقین کی ہے اورا س حوالے سے جو لوگ کسی اورمحبت کو ترجیح دیتے ہیں ان کو وعید سنائی ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا ہے اُس کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو اس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو انہیں‘زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اوراس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو، اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کرنے والے لوگوں کو‘‘۔
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس حقیقت کو بھی بیان فرمایا ہے کہ عزت اللہ‘ اس کے رسول اور اہل ایمان کے لیے ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ منافقون کی آیت نمبر 8میں ارشاد فرماتے ہیں :'' عزت تو صرف اللہ کے لیے اوراس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے ہے‘ لیکن منافق نہیں جانتے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ کی عزت اور عظمت کی وجہ سے کوئی مسلمان بھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر سمجھوتہ کرنے کے لیے آمادہ وتیار نہیں ہوتا۔ لیکن ہم اس بات کامشاہدہ کر سکتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے توہین رسالت کے واقعات وقفے وقفے سے رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ان واقعات کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان واقعات کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں ، متعصب غیر مسلم اپنے علاقوں میں رہنے والے غیر مسلموں کو رسول اللہﷺ کی ذات سے بدگمان کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو اشتعال دلا کر ان کی بے بسی پر ان کا استہزا کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے مسلمان فقہا کی غالب اکثریت کا یہ موقف ہے کہ نبی کریمﷺکی توہین کرنے والے کی سزا موت ہے۔ چنانچہ کعب ابن اشرف کو محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موت کے گھاٹ اتارا، اسی طرح ابو رافع یہودی کو صحابی رسول حضرت عبداللہؓ ابن عتیک نے موت کے گھاٹ اتارا۔ اس سزا کو بہت سے اسلامی ممالک میں قانونی شکل دی جا چکی ہے۔ چنانچہ پاکستان میں 295-C قانون کے نفاذ کا مقصد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت کو روکنا ہے۔ چنانچہ دنیائے اسلام میں اگر کسی بھی مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین ہو تو اہل اسلام کی ذمہ داری ہے کہ توہین کے مرتکب لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ان قوانین کا استعمال کیا جائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے دفاع کے لیے بنائے گئے ہیں۔ بہت سے مغربی ممالک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے قوانین نہیں ہیں‘ وہاں پر مسلمان دانشوروں اور مفکرین کی ذمہ داری ہے کہ اہل مغرب کو یہ بات سمجھائیں کہ اگر آپ نے ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کو اپنے ممالک میں رائج کر رکھا ہے تو آپ کو حرمت رسولﷺ کے دفاع کے لیے بھی قوانین کو اپنے ملک میں جگہ دینی چاہیے۔
دو برس قبل مجھے دورۂ برطانیہ کے دوران مختلف مقامات پر حرمت رسولﷺ کے حوالے سے مسلمان کمیونٹی کے اجلاسوں اور کانفرنسوں میں جانے کا موقع ملا تو وہاں پر میں نے اسی نکتے کو اُٹھایا تھا کہ اگر ایک انسان یا ایک ادارے کی عزت کے تحفظ کے لیے قوانین کو وضع کیے جا سکتے ہیں تو ڈیڑھ ارب انسانوں کے مقتداء ، پیشوا، ان کے دل کی دھڑکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لیے بھی قوانین کا اجرا اور قیام ضروری ہے اور اس حوالے سے مغربی ممالک کے سیاسی رہنماؤں کو مسلمانوں کو ذہنی اذیت سے بچانے کے لیے ان قوانین کی نفاذ کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے دنیا کے بعض مقامات پر مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے اور کئی عدالتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کو باقاعدہ طور پر قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین حقیقت میں دنیا میں نقضِ امن کا سبب اور تہذیبوں کے تصادم کو ہوا دینے والا سب سے بڑا محرک ہے جس کے سدباب کے لیے اہل اسلام کو جہاں پرقانونی محاذ پر پیش قدمی کرنے کی ضرورت ہے وہیں پر مغربی دانشوروں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ قانونی پہلو کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر مستند لٹریچر کو مغربی ممالک میں عام کرنا اور مغرب کے دانشوروں کو سیرت رسول اللہﷺسے آگاہ کرنا اور غیر مسلم مفکرین کی آرا پر مشتمل لٹریچر کو تیار کرکے ان ممالک اور ان کی سرکردہ شخصیات تک پہنچانا دعوتی اعتبار سے انتہائی مفید ہو سکتا ہے۔ اگر ان نکات پر عمل کر لیاجائے تو اس سے یقینا جہاں توہین رسالت کے واقعات کا سدباب ہو سکتا ہے‘ وہیں پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار سے بھی صحیح طور پر اہل مغرب کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔