قوموں کی زندگی میں بعض ایام ایسے آتے ہیں جنہیں مدتِ مدید تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کی تاریخ میں بہت سے ایسے ایام گزرے ہیں کہ جن کی یادیں آج بھی اہلِ وطن کے دل میں راسخ ہیں‘ انہیں میں سے ایک 6ستمبر 1965ء کا دن ہے۔ اُس دن ہمارے ازلی دشمن نے پاکستان پر جارحیت کے ناپاک ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام وسائل کو مجتمع کر لیا۔ پاکستانی قوم نے افواجِ پاکستان کی پشت پر کھڑے ہو کر ملک کے جغرافیے کا بھرپور انداز میں دفاع کیا اور بھارتی فوج کے غرور کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔ بھارتی افواج کے سرکردہ افسران کا یہ گمان تھا کہ وہ چند گھنٹوں میں لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر کی طرف سے پیش قدمی کرتے ہوئے پاکستان کے علاقوں پر قابض ہو جائیں گے‘ لیکن عوام اور فوج کے اتحاد اور یکجہتی نے ان کے اس ناپاک ارادے کو پورا نہ ہونے دیا۔ قائد اعظم کا فرمان اتحاد‘ ایمان ‘ تنظیم اس وقت پوری قوم کے لیے مشعلِ راہ تھا؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان کی سرحدوں کا بھرپور انداز میں دفاع کیا گیا۔ یہ بدنصیبی کی بات ہے کہ چھ برس گزرنے کے بعد 1971ء میں ہم اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گئے۔ اس سانحے میں اہلِ فکر و نظر کے لیے غوروفکر کا بہت بڑا سامان ہے کہ کیا وجہ ہے وہی قوم جس نے بھرپور انداز سے پاکستان کا دفاع کیا تھا وہ چھ برس کے بعد اپنے مشرقی بازو کو نہ بچا سکی؟ اس کی بنیادی طور پر یہ وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ ہم 1971ء میں داخلی اتحاد سے محروم تھے اور بنگالی اور غیر بنگالی کی تقسیم کا شکار ہو چکے تھے۔ اسلام اور ایمان ہمارا نقطہ اتحاد نہیں تھا بلکہ ہم قوم پرستی کا شکار ہو چکے تھے۔ غیر منظم انداز میں اپنی زندگی کو گزارنے کی وجہ سے دشمن ہم پر غالب آ گیا۔ 1971ء کے بعد بھی پاکستان کے خلاف سازشیں ہوتی رہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان مضبوط اور مستحکم رہا۔ آج بھی اگر ہم اپنے وطن کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اتحاد ‘ ایمان اور تنظیم سے بہرہ ور ہونا پڑے گا۔ ہمار اداخلی نظم‘ اتحاد اور جذبہ ایمانی اتنی بڑی طاقت ہے کہ اس کے ذریعے کشمیر بھی پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے اور مملکتِ خدا داد کو اس خطے کی طاقت ور ترین ریاست بنایا جاسکتا ہے۔
6ستمبر کے ساتھ ساتھ 7ستمبر 1974ء بھی تاریخِ پاکستان کا ایک اہم دن ہے۔ اس دن پوری قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے قومی اسمبلی نے ختمِ نبوت کے منکرین کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس تاریخی فیصلے کے پس منظر کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے‘ اس حوالے سے چند اہم گزارشات کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک دین فقط اسلام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں فرماتے ہیں''بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 85میں ارشاد فرمایا ''اور جو تلاش کرے اسلام کے سوا(کوئی اور ) دین تو ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اس سے اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں میں سے ہو گا‘‘۔ قرآنِ مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین کو نبی کریمﷺ کی حیات ِمبارکہ میں مکمل فرما دیا تھا؛ چنانچہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3میں ارشاد ہوا ''آج (کے دن) میں نے مکمل کر دیا ہے تمہارے لیے تمہارا دین اور میں نے پوری کر دی ہے تم پر اپنی نعمت اور میں نے پسند کیا ہے تمہارے لیے اسلام کو بطورِ دین‘‘۔
احادیث کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ارکانِ اسلام کی تعداد پانچ ہے ‘ اسلام کا پہلا رُکن شہادتین ہے ‘جس کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کریمﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ رسولِ کریمﷺ کی رسالت پر ایمان کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری نبی تسلیم کیا جائے۔ اس حقیقت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں یوں بیان فرمایا ہے: ''نہیں ہیں محمدﷺ باپ تمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے اور لیکن (وہ) اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والاہے‘‘۔ یعنی جس طرح رسول اللہﷺ کسی مرد کے باپ نہیں‘اسی طرح آپﷺ کے بعدکوئی نبی بھی نہیں ہوسکتا۔ ختم ِنبوت کا انکارکرنے والے گروہ نے آیت میں ''خاتم النبیین‘‘ کا ترجمہ نبیوں کی مہرکرکے لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ خاتم النبیین سے مراد آخری نبی نہیں ہے حالانکہ ہرذی شعوراس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ کسی چیز پر مہر اس کی تکمیل کے بعد ہی لگائی جاتی ہے۔جب کسی پیمانے یا دستاویز کو سیل بند کردیا جاتا ہے تو مہرکوتوڑے بغیراس میں کسی چیزکو داخل نہیں کیا جاسکتا۔ جب نامکمل چیز پر مہر نہیں لگ سکتی اور مہر لگ جانے کے بعد اس میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی تو یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ رسول اللہﷺ کی تشریف آوری کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوگیا ہے اور آپ ﷺکے بعدکوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ یہی گروہ حضرت عیسیٰ ؑ کی دوبارہ دنیا میں تشریف آوری کو بنیاد بناکر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے کہ اگرحضرت رسول اللہﷺکے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا تو حضرت عیسیٰ ؑ کیونکرآئیں گے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو نبوت حضرت رسو ل اللہ ﷺ سے پہلے ملی اور آپ کے زندہ آسمانوں کی طرف اٹھائے جانے کے بعد اس دنیا میں دوبارہ نازل ہونے سے حضرت رسول اللہ ﷺ کے بعدکسی نئے شخص کو نبوت ملنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ نبوت کا دروازہ بند ہونے سے قبل ہی حضرت عیسیٰ ؑنبی تھے۔ نبوت کا دروازہ بند ہوجانے کے بعدکسی نئے نبی کا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔
جہاں قرآن مجید نے مسئلہ ختم نبوت کو واضح کردیا‘ وہیں احادیث مبارکہ سے بھی اس مسئلے کی خوب وضاحت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری و صحیح مسلم‘ مسند احمد بن حنبل اور سنن الکبریٰ للبیہقی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا میری اور سابق نبیوںکی مثال ایک شخص کی ہے‘جس نے ایک خوب صورت گھر بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھو ڑ دی۔ لوگ اس گھرکو دیکھ کراس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہیں‘ مگر کہتے ہیں کہ کیا خوب ہو اگر اینٹ اپنی جگہ پر لگا دی جائے‘ پس میں وہ اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی‘ جب تک تیس بڑے جھوٹے نہیں آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگاکو وہ اللہ کا رسول ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت سعد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ تبوک کے لیے نکلے تو آپ ﷺنے حضرت علیؓ کو مدینہ میں اپنانائب مقررکیا۔ حضرت علی ؓ نے عرض کی کہ کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے پاس چھوڑکرجانا چاہتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اے علی! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو موسیٰ ؑکو ہارون ؑ سے ہے‘ مگر میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے لوگوں پر انبیاء کرام حکومت کرتے رہے اور ان کی رہنمائی بھی کرتے رہے۔ جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا تو دوسرا نبی ان کی جگہ لے لیتا۔ میرے بعدکوئی نبی تو نہیں ہوگا‘تاہم خلفاء ہوں گے اورتعداد میں بہت ہوں گے۔ سنن ترمذی میں حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد تیس بڑے جھوٹے آئیں گے اور ان میں سے ہر ایک کا یہ دعویٰ ہوگا کہ وہ نبی ہے‘ جبکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
احادیث مبارکہ کے ساتھ ساتھ اجماع اُمت سے بھی یہ عقیدہ بالکل واضح ہے اور تمام مکاتب فکر کے علما کا اس عقیدہ پراتفاق ہے۔ برصغیر میں جب قادیانیت کافتنہ ظاہرہوا تو تمام مسالک کے جید علما نے اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا؛ چنانچہ مولانا محمد حسین بٹالوی‘ مولانا ثناء اللہ امرتسری‘ مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی‘ حافظ محمد گوندلوی ‘ سید عطاء اللہ شاہ بخاری‘ سید انور شاہ کاشمیری‘ پیر مہر علی شاہ اور پیر جماعت علی شاہ اور دیگر اکابرین نے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے مکمل اتحاد اوراتفاق کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں مفتی محمود‘ شاہ احمدنورانی‘ علامہ احسان الٰہی ظہیر اور دیگر اکابرین نے اس عقیدے کے تحفظ کے لیے بھرپور تحریک چلائی۔ مولانا ظفر علی خان اور آغا شورش کاشمیری بھی اس حوالے سے پیش پیش رہے۔ علما کی محنتوں سے رائے عامہ ہموار ہوئی اور بالآخر قومی اسمبلی میں ختم نبوت کے منکروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ اس عقیدے کو آئینی حیثیت دینے کے لیے کے تحفظ کے لیے ایک لمبی تحریک چلائی گئی اور بہت سی قربانیاں دی گئیں۔ اب یہ عقیدہ جہاں مذہبی اعتبارسے متفقہ عقیدہ ہے وہیں پر اس کی آئینی حیثیت بھی مسلّم ہے‘ تاہم افسوسناک امر ہے کہ وقفے وقفے سے ختم نبوت کے منکر گروہ آئین میں تبدیلی کی سازش کرتے رہتے ہیں‘لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے علماء اُمت کی یکسوئی کی وجہ سے ان کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں جغرافیے کے دفاع کے ساتھ ساتھ عقیدے کے دفاع کے لیے بھی متحد اور منظم ہو کر اپنا کردار اداکرنا چاہیے تاکہ پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں ایک اسلامی جمہوری ریاست کی حیثیت سے اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکے اور دنیا والوں کے لیے ایک مثال بن سکے۔