ہمارا ملک ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے‘ ملکی معاملات کو چلانے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں اپنے بیانیے کو پیش کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں دینی جماعتوں نے بھی مختلف ادوار میں امورِ ملکی کو چلانے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ دینی جماعتیں گزشتہ کئی عشروں کے دوران کئی مؤثر تحریکیں بھی چلا چکی ہیں۔ حالیہ ایام میں ایک مرتبہ پھر دینی جماعتیں متحرک نظر آ رہی ہیں۔ ستمبرمیں ملک کے طول وعرض میں بڑے بڑے دینی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ 6ستمبر کو خیبر بازار میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ایک بڑے اجتماع کا انعقاد ہوا جس سے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب نے خطاب کیا۔ اجتماع میں ملکی صورت حال کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی۔ جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ اور سود کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی باقاعدہ تحریک کا آغاز کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلامی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے اس لیے شریعت اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نفاذ کے بغیر پاکستان کو مضبوط، مستحکم اور محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکمران طبقہ غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے ذاتی مفادات کی تکمیل کر رہا ہے۔ عوام کو بیوقوف بنانا سیاسی قابلیت کی علامت بن چکا ہے۔ خود انحصاری کی بات کرنے والے حکمران آئی ایم ایف کے سامنے جھکے ہوئے ہیں؛ حالانکہ ایک دور میں یہ حکمران آئی ایم ایف کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے خودکشی کو بہتر قرار دیتے تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان جماعتوں نے ایف اے ٹی ایف کے قوانین میں حکومت کا ساتھ دے کر عوام کو مایوس کیا ہے۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی اکثریت کا سیاسی قبلہ آ ج بھی واشنگٹن اور لندن ہے۔ انہوں نے نے کہا کہ عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ایک عرصے سے سازشیں جاری ہیں اور منکرین ختم نبوت پاکستان کی سالمیت کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کے تانے بانے امریکہ و سامراجی اور استعماری قوتوں کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ختم نبوت کے مخالفین غیر ملکی آقاؤں کی خوشنودی اور مالی مفادات کے لیے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں؛ تاہم یہ اطمینان کی بات ہے کہ 72 سال بعد بھی پاکستان کے 22 کروڑ عوام تحفظ ختم نبوت اور ناموس رسالتﷺ کی حفاظت کے لیے یکسو ہیں۔ انہوں نے ناموس رسالتﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حوالے سے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کلمہ کے نام پر بننے والے ملک میں اگر ناموس رسالتﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کی حرمت محفوظ نہیں تو یہ کیسا اسلامی ملک ہے؟ انہوں نے کہا بعض عناصر 295-C کو ختم کرنے کے لیے یہ جواز گھڑتے ہیں کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ حکمرا ن بتائیں کہ ملک میں کس قانون کا درست استعمال ہو رہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے موت کی سزا کے حقدار ہیں اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
7ستمبر کو چار سدہ و پشاور میں جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ناموس رسالتﷺ کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم برداشت نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ قادیانی آئین پاکستان کی رو سے خود کو غیر مسلم تسلیم کریں۔ انہوں نے اسرائیل کے بارے میں اپنے مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پہلی بار اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تحریک میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج ہر کوئی اسرائیل کا سفیر بنا ہوا ہے لیکن ہم پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بیرونی دباؤ پر تبدیل نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج بیرونی دباؤ پر قانون سازی کی کوشش کی جا رہی ہے، ایسے ایسے قوانین پاس کئے گئے کہ جن کی وجہ سے پاکستان کی خود مختار حیثیت متاثر ہو رہی ہے۔ کانفرنس سے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر پروفیسر ساجد میر نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے اور اس ملک میں ختم نبوت اور ناموس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھر پور انداز میں دفاع کیا جائے گا۔ قائدین کے خطابات کو لوگوں نے توجہ سے سنا اور پُرجوش انداز میں قائدین کی تائید کی۔
لاہور میں بھی دفاع پاکستان اور عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ 6ستمبر کو مسجد عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور 7ستمبر کو توحید گنج میں مجھے بھی دو اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ مسجد عائشہ میں ہونے والی اجتماع میں نائب امیر جماعت اسلامی لیاقت بلوچ صاحب نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا ان کو کچھ اضافے اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے بھی سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اور یہ ریاست کلمہ طیبہ کے نعرے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آئی تھی؛ چنانچہ اس ریاست کا دفاع فقط ایک زمین کا دفاع نہیں بلکہ اس کاد فاع ہمارے ایمان کا بھی تقاضا ہے۔ 6ستمبر 1965ء کو پاکستان کی مسلح افواج کے شانہ بشانہ مسلمانانِ پاکستان نے جس انداز میں وطن کادفاع کیا وہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ پاکستان کے نہتے عوام نے چونڈہ کے سیکٹر میں ٹینکوں اور توپوں کے سامنے لیٹ کر اس بات کو ثابت کر دیا کہ پوری قوم وطن کے دفاع کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ آئندہ بھی ملک پر اگر کوئی ابتلا آئی تو پاکستان کی دینی جماعتیں وطن کے دفاع کے لیے سب سے زیادہ نمایاں کردار ادا کریں گی۔ اس موقع پر میں نے تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اس بات کو واضح کیاکہ جس طرح وطن کے جغرافیے کے دفا ع کے لیے مسلمان ہمہ وقت قربانیاں دینے کے لیے تیار ہیں‘ اسی طرح عقیدہ ختم نبوت کے دفاع کے لیے بھی تمام مسالک پوری یکسوئی سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ 7ستمبر 1974ء کو قومی اسمبلی میں ہونے والا فیصلہ درحقیقت عوام کی امنگوں کا ترجمان تھا اور اس دن ختم نبوت کے منکروں کو جس انداز میں دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیاگیا تھا‘ آج بھی پوری قوم شرح صدر سے اس نقطۂ نظر پر یکسو اور متفق ہے اور آئندہ بھی عقیدۂ ختم نبوت کے دفاع کے لیے علمائے دین اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ و تیار رہیں گے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر گروہ سازش کے ذریعے آئین میں ترامیم کر کے قومی اسمبلی کے فیصلے کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں ختم نبوت کے حوالے سے ڈرافٹ میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی تو تمام مکاتب ِ فکر کے علما نے یکسو ہو کر اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔ ختم ِ نبوت کے منکروں کو جب اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی بات ہوئی تو مسلمان علما نے اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ اس سازش کو ناکام بنا دیا۔ مستقبل میں کسی بھی قسم کی سازشوں کو روکنے کے لیے علمائے دین پوری طرح اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ و تیار ہیں۔ اسی طرح اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بعض مغربی ممالک میں آئے دن جو توہین رسالت کے واقعات رونما ہوتے ہیں‘ اُن کی روک تھام کے لیے بھی مسلمان حکمرانوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور مغربی ممالک کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ مسلمان ہر چیز پر سمجھوتہ کر سکتے ہیں لیکن حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور تقدس پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر اہل مغرب نے ایک انسان کی عزت کے تحفظ کے لیے ہتک عزت اورایک ادارے کے تحفظ کے لیے توہین عدالت کے قوانین کو تیار کیا ہے تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے تحفظ کے لیے بھی انہیں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق قوانین کو وضع کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ہم آہنگی اور بقائے باہمی کو برقرار رکھا جا سکے اور معاشروں کو فرقہ وارانہ خلفشار اور انتشار سے بچایا جا سکے۔
ملک بھر میں ہونے والے مذہبی اجتماعات نے پاکستان کے نظریاتی ریاست ہونے کا ثبوت پیش کیا اور یہ بات واضح ہوئی کہ پاکستان کی دینی جماعتیں ارضِ وطن اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے اپنا کردار بطریق احسن ادا کرتی رہیں گی۔